۶۸فیصد ہندوستانی گوشت خورپھر مسلمان ہی مورد الزام کیوں؟

اگر وہ گوشت کا اکسپورٹ نہیں روک سکتے تو اپنے انتخابی وعدے سے پھرنے کا اعتراف کیوں نہیں کرتے اور بی جے پی آج بھی گوشت خوری اور گؤکشی پر سیاست کیوں کرتی ہے؟ سنگھ پریوار گوشت کے بہانے مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیوں کرتا ہے،جس کی تازہ مثال اترپردیش میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یوپی اسمبلی میں اس وقت ہنگامہ کھڑا ہوگیا جب بی جے پی کے ممبران اسمبلی نے گؤ کشی پر پابندی کی مانگ کی،حالانکہ یہاں پہلے سے ہی گؤ کشی پر مکمل پابندی ہے۔ بی جے پی کا کہنا تھا کہ دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد میں کمی آرہی ہے جب کہ مویشی پروری کے وزیر کا دعویٰ تھا کہ دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد بڑھ ہے۔ اسی کے ساتھ وزیر پارلیمانی امور اعظم خاں کا مطالبہ بجا تھا کہ جب دودھ دینے والے جانوروں کی کمی ہورہی ہے تو مرکزی سرکار گوشت کے اکسپورٹ پر پابندی کیوں نہیں عائد کرتی۔ وہ اس معاملے میں پہل کرے ویسے بھی نریندرمودی اس کا وعدہ دہراتے رہے ہیں۔ اعظم خان کے کے مطالبے پر بی جے پی نے قدم پیچھے کھینچ لئے مگر اس بات کی سچائی سے فرار ممکن نہیں کہ بی جے پی کے لئے یہ ایک انتخابی موضوع رہا ہے اور اسی بہانے وہ مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ بھارت میں گوشت کون سے لوگ کھاتے ہیں؟ کیا صرف مسلمان گوشت کھاتے ہیں یا دوسری اقوام بھی گوشت کھاتی ہیں؟ایک سروے رپورٹ کے مطابق یہاں بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی گوشت خور ہیں،حالانکہ الزام مسلمانوں پر ہی دھرا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں ۶۸فیصد افراد گوشت کھاتے ہیں جب کہ مسلمانوں کی آبادی محض۱۵فیصد کے آس پاس بتائی جاتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سبزی خوروں میں بھی دس فیصد وہ لوگ ہیں جو انڈے کھاتے ہیں اور
اسے سبزی میں ہی شمار کرتے ہیں۔ ملک میں جینی گوشت نہیں کھاتے اور کچھ علاقوں کے برہمن گوشت نہیں کھاتے باقی تمام طبقات گوشت کھاتے ہیں۔ مغربی بنگال اور کشمیر میں تو برہمن بھی اس سے پرہیز نہیں کرتے۔ یونہی نارتھ ایسٹ علاقے میں گوشت خوری میں کسی قسم کا طبقاتی بھید بھاؤ نہیں ہے،ایسے میں مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرانا اور ان کے نام پر سیاست کرنا غلط ہے۔ گوشت اکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں میں بھی بیشتر غیر مسلمون کی ہیں۔
گؤ کشی ،فرقہ پرستوں کا گھٹیا ہتھیار
انتخابات کے دوران عام طور پر جانوروں کے سلاٹر کا معاملہ اٹھتا رہتا ہے اور گؤ کشی پر سیاست کا سلسلہ تو اس ملک میں آزادی کے قبل سے چل رہا ہے۔ آریہ سماج اس معاملے میں سیاست کرکے اکثر فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ حالانکہ بھارت میں گؤ کشی کا سلسلہ انگریز دور حکومت میں عام ہوا ،ورنہ مغلوں کے دور میں تواس کا رواج بہت کم رہا ہے۔ عام طور پر مغل بادشاہ اپنے ہندو رعایا کی تالیف قلب کے لئے اس سے پرہیز کرتے تھے۔ مغل سلطنت کے بانی بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو وصیت کی تھی کہ گؤ کشی سے پرہیز کرنا اور اس کی وصیت پر ہمایوں ہی نہیں بلکہ اس کے جانشین تک عامل رہے۔ اکبر کے زمانے میں تو گؤ کشی کرنے والوں کو بہت سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ شیخ سلطان تھانیسری جو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سسر تھے اور تھانیسر علاقے کے حاکم تھے محض اسی الزام میں جلاوطن کردیئے گئے تھے اور دوبارہ جب ان کی سزا معاف ہوئی اور چند سال بعد تھانیسر کے کروڑی ہوکر واپس آئے تو پھر ہندووں پرمظالم کی شکایت موصول ہونے پر اکبر نے انھیں پھانسی پر چڑھا دیا تھا باوجود اس کے کہ وہ بادشاہ کے قریبی تھے۔کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں آج بھی گؤ کشی کا رواج نہیں ہے اور اس سے مسلمانوں کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔عام طور پر اعلیٰ طبقے کے مسلمانوں میں گائے ،بھینس کے بجائے بکرے اور بھیڑ کے گوشت کے کھانے کا رواج رہا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گوشت کھانا پسند کرتے تھے مگر حلال ہونے کے باوجودآپ کا گائے اور بھینس کا گوشت کھانا احادیث سے ثابت نہیں ۔ ملک کے بیشتر حصوں میں گائیں ذبح نہیں کی جاتی ہیں ،صرف کیرل، بنگال اور نارتھ ایسٹ میں ان کے سلاٹر کی اجازت ہے۔ ایسے میں اگر باقی ملک میں بھی نہ ہو تو مسلمانوں کا کیا جاتا ہے۔ بلکہ انھیں ایک انتخابی ایشو سے ہی نجات مل جائیگی مگر مرکزی حکومت خود ایسا نہیں کرنا چاہتی کیونکہ سنگھ پریوار اس بہانے سیاست کرتا رہا ہے اور مسلمانوں کو نشانہ بناتارہا ہے۔ کئی جگہوں پر وہ اسے بہانہ بناکر فسادات بھی کراتا ہے۔اترپردیش اسمبلی میں بھی جو بی جے پی نے اس ایشو کو اٹھایا ہے اس کا مقصد ریاست میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔جن ریاستوں میں گؤ کشی قانونی ہے وہاں بھی مسلمان سے زیادہ عیسائی اور دلت گوشت کھاتے ہیں۔
گؤکشی پر سیاست گرم کرنے کی کوشش
پچھلے دنوںیوپی اسمبلی میں گؤ کشی کا معاملہ جب بی جے پی کی طرف سے اٹھا تو کسی کو حیرت نہیں ہوئی مگر ریاستی وزیر اعظم خان کے اس انکشاف نے بہتوں کو حیرت میں ڈال دیا کہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں گائے گا گوشت پیش کیا جاتا ہے اور یہ سب ان کی مینو کا حصہ بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ فائیو اسٹار ہوٹل پورے ملک کے بڑے شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے مہمانوں میں بڑی تعداد غیر ملکیوں کی ہوتی
ہے جو گائے کا گوشت پسند کرتے ہیں اور جن ریاستوں میں گؤ کشی پر پابندی ہے وہاں کے لئے دوسری ریاستوں سے منگوایا جانا حیرت انگیز نہیں ہے۔ حالانکہ بی جے پی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ ریاست میں دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد کم ہورہی ہے اور اس کا سبب ان کا ذبیحہ ہے۔ستیش مہانا اور لوکیندر سنگھ کے سوال پر وزیر مویشی پروری راج کشور سنگھ نے بتایا کہ ریاست میں مویشیوں کی تعداد کم نہیں ہورہی ہے بلکہ بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ ۲۰۱۲ء میں مویشیوں کی تعداد بڑھ کر 205.66لاکھ ہوگئی ہے جب کہ ۲۰۰۳ء میں یہ تعداد185.51لاکھ تھی۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ دودھ کی پیدا وار بھی پہلے کے مقابلے میں بڑھی ہے ۔ صرف ایک سال میں یہ 225.568 میٹرک ٹن سے بڑھ کر 241.939لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ وزیر موصوف کے مطابق گؤ کشی ریاست میں Cow Slaughter Prevention Act 1955 کی ترمیم 2002ء کے مطابق جرم ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔غور طلب ہے کہ رواں سال میں اب تک یوپی میں ۲۰۳۲ معاملے گؤ کشی کے رجسٹرڈ ہوئے ہیں مگر ان میں سے بیشتر ملزمین مانتے ہیں کہ انھوں نے گؤ کشی نہیں کی بلکہ بھینس کے گوشت کو گائے کا ثابت کرنے کی کوشش ہوئی۔ بجنور کے شوقین قریشی کا کہنا ہے کہ مجھ پر بھی جھوٹا کیس کیا گیا ہے، ویسے بھی ہم جانور کو ہی کاٹتے ہیں مگر یہ نیتا تو انسان کشی کرتے ہیں۔ہم پر جس طرح جانور کشی کا کیس بنتا ہے ویسا کیس ان انسان کشی کرنے والوں کے خلاف کیوں نہیں بنتا؟
سب سے بڑا گوشت اکسپورٹر ہے بھارت
بھارت دنیا کا سب سے بڑا گوشت اکسپورٹر ملک ہے۔ پورے ملک میں ہزاروں کو سلاٹر ہاؤس موجود ہیں جن میں سے سوائے چند کے اکثر وبیشتر غیرمسلموں کے ہیں۔ ان کمپنیوں میں اونچے عہدوں پر کام کرنے والے بھی مسلمان نہیں ہیں۔ البتہ ان سلاٹر ہاسیز میں معمولی کام کرنے والے بیشتر مسلمان ہیں۔ گویا غریب مسلمانوں میں سے چند کے چولہے اس سے ضرور جلتے ہیں مگر اصل ملائی کھانے والوں میں کم ہی مسلمان ہیں، پھر بھی گوشت خوری اور اس سے کمائی کرنے کا الزام مسلمانوں پر ہی لگایا جاتا ہے۔ مرکزی وزیر منیکا گاندھی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ گوشت اکسپورٹ کی کمائی کا استعمال دہشت گردی کے فروغ میں ہورہا ہے۔ حالانکہ اس سنگین الزام کی جانچ ہونی چاہئے تھی کیونکہ یہ ملک کی سلامتی سے جڑا ہوا معاملہ تھا مگر آج تک ایسے کسی بھی الزام کی جانچ نہیں ہوئی اور ہوگی بھی بہیں کیونکہ اس کے پیچھے کا اصل مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو الزام دے کر سیاست کرنا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک نے 2012-13ء کے بیچ 1.89 ملین ٹن بیف اکسپورٹ کیا ہے۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس میں پچاس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یونہی گزشتہ سال ہمارے ملک نے 3.5ملین ٹن پولٹری پروڈکٹ اکسپورٹ کیا ہے۔اس دوارن ہمارے ملک کو گوشت کے اکسپورٹ سے 21

«
»

عرب دنیا پریشانیوں میں گرفتار کیوں؟

لہوکے عطرمیں بسے بچوں کاسفرِ شہادت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے