اپنی یہ تنظیم ہے….

بہرحال ہر نشست میں مذکورہ شعر کی تکرار اور اس کا نغمگیں انداز کے بار بار اظہار سے ہم یہی سمجھنے لگے کہ اس سے مراد مجلسِ اصلاح و تنظیم ہے، مگرجب دن گذرے، اور گذرتے چلے گئے تو بہت جلد یہ پتہ چلا کہ اس تنظیم سے مراد طلبہ کی انجمن اللجنۃ العربیہ کی تنظیم ہے، اسی طرح اپنی یہ تنظیم ہے کی یہ صدا جامعہ کی روح پرور فضاؤں میں ہر طالبِ علم کے کانوں سے ٹکراتی رہی اور یہی طلبہ فارغ ہوکر میدانِ عمل میں اترے تو غیر شعوری طور پر وہ اجتماعیت اور تنظیم سے مربوط تو تھے ہی، فکری اور عملی طور پربھی اسی اجتماعیت اور تنظیم سے منسلک ہوگئے، پھر اپنی یہ تنظیم ہے مجلس اصلاح و تنظیم ہوگئی، جی ہاں ہر فردِ بھٹکل کی تنظیم ہوگئی، جی ہاں ہر قرب و جوار کی تنظیم ہوگئی،ہاں ہر اس کی تنظیم جس نے بھٹکل کے ماحول میں آنکھ کھولی، جس نے یہاں جنم لیا، جس نے یہاں بسیرا کیا، اور جس کی وجہ سے ان کی زبان پر اپنائیت کی وجہ سے یہی جملہ سننے میں ملتاکہ یہ تنظیم اپنی ہے ۔
یہی وہ اپنی تنظیم ہے جس کا آغاز 1911 ؁ ء میں جنگ بلقان کے مسلمانوں کی مدد سے ہواتھا، یہی وہ اپنی تنظیم ہے جس نے خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے اثرات سے ابھرنے اور ابھارنے کے لئے اپنی حمیتِ ایمانی اور جذبہ اسلامی کے اظہار کے لئے قائم کیا تھا، یہی وہ اپنی تنظیم ہے، جس نے اپنی بنیاد کتابوں پر رکھی تھی، ثقافتی نقوش پر رکھی تھی، اصلاحِ نفوس پر رکھی تھی، جذۂ خدمتِ خلق پر رکھی تھی، اسلامی حمیت سے معمور ہوکر رکھی تھی ، اور واللہ للہیت اور خلوص پر رکھی تھی، یہی وہ اپنی تنظیم ہے، جس کے بانیوں نے اس کا الہامی نام مجلسِ اصلاح و تنظیم تجویز کیا، تو اسکا انتظامی کام بھی شورائی جمہوری نظام پر رکھا، اس کو فرقہ پرستی سے آزاد رکھا، اور مذہبی اور مسلکی امور سے بالاتر رکھا، گویا کہ اس کی نسبت اصلاح پر رکھی بلکہ اصلاح مابین پر رکھی، اور یکجہتی کو اس کا بنیادی اصول قرار دیا، یہی وہ اپنی تنظیم ہے جس شجرِ سدا بہار کے سایہ میںآج پور ی قوم ہے، یہی وحدت کی نشان ہے، یہی یکجہتی کی علامت ہے، اور قومی خدمت اس کا نصب العین ہے، ملت کے مسائل سے واقفیت اس کا شعار ہے، ہندوستانی مسلمانوں کے حالات پر اس کے کار کنوں کی نظر ہے، ان کے مسائل سے باخبر ہے، امت کے صبحِ نو کے لئے پُر امید ہے، اسی لئے ہمارے احباب چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں اپنی اسی تنظیم سے جڑے رہتے ہیں، اور قوم کی ایک آواز پر جوق در جوق کشاں کشاں چلے آتے ہیں، نہ وقت کی تنگی آڑے آتی ہے، نہ مال ودولت کی کمی روک پاتی ہے، چھوٹے سے چھوٹے تاجر سے لیکر بڑے سے بڑے صاحبِ مال وثروت تک اور چھوٹی سی چھوٹی نو کریوں پر رہنے والے سے لیکر بڑی سی بڑی ملازمتوں پر رہنے والوں تک ہر ایک اپنے وجود سے یہ ثابت کرتا ہے کہ :
پیوستہ رہ شجر سے امیدِِِ بہار رکھ 
ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ
کتنی خوش نصیب ہے یہ قوم جس نے اپنی اس تنظیم کی ایک صدی کا عرصہ پایا اس کی صد سالہ تاریخ مرتب کی، اس کے زندہ کارکنوں کو خراجِ تحسین دی، اور اس کی مرحومین کی خدمتوں کو سراہا، جس نے اپنی تاریخ کے درخشاں اوراق کو جمع کیا، اور مستقبل کی تابناک نسل تک پہنچایا، اور ایک نئی تعمیری فکر و ارتقاء کی سمت دکھائی، بالفاظِ دیگر تمام باحمیت نوجوانوں کو نئی صبح کے طلوع کی امیدِ جانفزا دلائی۔
یقیناًامتِ مسلمہ کا دامن ہمیشہ ایسی شخصیات سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے بے سر وسامانی کے باوجود، ناموافق زمین میں محض توفیقِ الہی سے بہت سے کارنامے انجام دئے ، ہماری قوم بھی اس معاملہ میں خوش نصیب ہے کہ اس نے مختلف حیثیتوں سے مختلف میدان میں، علم وعرفان اور قیادت و سیاست کے ایسے روشن چراغ جلائے کہ آج تک ہماری اس فضا میں اس کی شعائیں بکھیر رہی ہیں، شمع سے شمع جل رہی ہے ، فکر و آگہی کے نور سے دل روشن ہو رہے ہیں، اور بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ قوم ووطن کا نقشہ بھی بدل رہا ہے، انہی اخلاقی قدروں اور اپنے اسلاف کی اسی روش پر چلتے ہوئے صدی کی تکمیل پر شکرِ الہی کے جذبہ سے سرشار ہو کر ایک نئے روشن مستقبل سے ہمکنار کرنے کے مقصد سے یہ صد سالہ جشن منعقد کیا ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ قوم اپنی اس گذری ہوئی صدی کے آئینہ میں اپنا احتساب کر رہی ہے۔
ہم اپنے ادارہ فکر وخبر کی جانب سے پہلے ہماری قوم کو پھر ہر باشندۂ بھٹکل کو، پھر کارکنانِ تنظیم کو اوراخیر میں مجلسِ اصلاح وتنظیم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اس لئے کہ قوم نے ہمیں اس کا موقعہ دیا، باشندۂ بھٹکل نے ہمیں قابلِ قدر پایا، کارکنانِ تنظیم نے بے لوث خدمت کی، اور مجلسِ اصلاح وتنظیم نے سراپا سپاس ہوکر ببانگِ دہل اس کا اعلان کیا، ہم اور ہمارے ادارے نے بیرون واندرون میں اس کی ہر ہر کار کردگی کو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں نشر کیا ، اور یہ ہمارا اخلاقی ، قومی اور اجتماعی فرض بھی تھا، جسے ہم نے پورا کیا ۔
ربنا تقبل منا إنک انت السمیع العلیم

«
»

عرب دنیا پریشانیوں میں گرفتار کیوں؟

لہوکے عطرمیں بسے بچوں کاسفرِ شہادت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے