کشمیر میں پھر شرارت

ویسے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے لیکن دہشت گردانہ کارروائی میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی بھاری قیمت کا احساس ہندوستانی فوج نے پاکستانی فوج کو کرادیا ہے اس لئے اس نے اپنا پرانا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ شری نگر اور اڑی سیکٹر میں بیک وقت دہشت گردانہ حملہ کرکے پاکستان نے ثابت کردیا ہے کہ وہ بھلے ہی یہ دعویٰ کرتا ہو کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس کی بڑی قیمت ادا کررہا ہے لیکن ہندوستان کے خلاف وہ اس حربہ کے استعمال میں نہ شرم محسوس کرتا ہے اور نہ ہی اسے اس کی ناکامی اور تباہ کاری کا احساس ہوتا ہے۔ سری نگر اور اڑی سیکٹر میں آج جو دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے وہ 20سال میں اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہندوستانی سلامتی دستوں نے سبھی 6دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ حالانکہ اس کارروائی میں فوج کے اعلا افسر اور جوانوں سمیت تقریباً 20ہندوستانی بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔ دہشت گردوں کے پاس سے جو سامان اور اسلحہ وغیرہ برآمد ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک لمبے منصوبہ کے تحت حملہ آور ہوئے تھے۔ 
جموں کشمیر میں فوج اور پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شمالی کشمیر کے اوڑی قصبے میں مسلح شدت پسندوں نے فوجی کیمپ پر خودکش حملہ کیا جس کے بعد طویل تصادم شروع ہوا جو آخری خبریں آنے تک جاری تھا۔حکام کا کہنا ہے کہ ایک روز میں پانچ مختلف حملوں میں 20 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔20 سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ 12 گھنٹوں کے عرصے میں مسلح شدت پسندوں نے وادی بھر میں پانچ حملے کیے جن میں 20 افراد مارے گئے۔ سب سے بڑا حملہ شمالی کشمیر کے اوڑی قصبے میں موہڑا مقام پر ہوا جہاں جمعرات کو مسلح شدت پسند فوج کے آرٹلری ڈویڑن داخل ہو گئے۔جمعے کی صبح جب فوج کی جوابی کارروائی میں شدت آگئی تو طویل تصادم شروع ہوا۔ ہندوستانی فوج کے بریگیڈیئر محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ اس حملے میں ایک سینیئر افسر سمیت آٹھ فوجی اور تین پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے جبکہ چھ شدت پسندوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔
دریں اثنا سرینگر کے مضافاتی علاقہ صورہ میں بھی پولیس اور فوج نے ایک مکان کا محاصرہ کیا جس کے بعد وہاں موجود مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کی۔ پولیس کے سربراہ کے راجندرا نے بتایا کہ اس تصادم میں دو شدت پسند مارے گئے۔ بعد ازاں جنوبی کشمیر کے اونتی پورہ، ترال اور شوپیان علاقوں میں بم حملے کیے گئے۔ترال میں ہونے والے دھماکے میں سات شہری مارے گئے جن میں سے ایک کی موت ہوگئی۔کشمیر میں گذشتہ چند روز میں کئی مسلح حملے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل جموں کے آرنیہ سیکٹر میں بھی ایک طویل جھڑپ کے دوران دس شدت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔جنوبی قصبہ پلوامہ میں گذشتہ روز ایک بم حملہ کیا گیا جس میں ایک نیم فوجی افسر مارا گیا اور چار دیگر زخمی ہوگئے۔ اس حملے کی ذمہ داری مسلح گروپ جیش محمد نے قبول کی ہے۔تشدد کی سطح میں اضافہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب کشمیر میں انتخابات کے دو مراحل مکمل ہو چکے ہیں اور تیسرے مرحلے کے تحت بارہ مولہ اور اْوڑی میں نو دسمبر کو ووٹنگ ہو گی۔پولیس اور فوجی افسروں کا کہنا ہے: ’کشمیر میں جو سیکورٹی نظام ہے اس میں پولیس، فوج اور نیم فوجی اداروں کا ایک مشترک کور گروپ ہے جو سلامتی کی صورت حال پر قابو پانے کے لیے حکمت عملی ترتیب دے رہا ہے۔‘
پاکستان کہہ سکتا ہے کہ یہ حملہ غیر سرکاری ارکان (Non state actors) نے سر انجام دےئے۔ لیکن بقول سابق وزیراعظم منموہن سنگھ یہ ارکان آسمان سے تو اترتے نہیں ہیں تو وہ پاکستانی ہیں اور ان کو روکنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی آج کہا کہ پاکستانی حکومت ان کو روکے اور اگر اسے کوئی دقت محسوس ہورہی ہے تو ہندوستان اس کی مدد کو تیار ہے۔ اس سے مثبت بیان کسی ہندوستانی وزیر داخلہ کی جانب سے نہیں دیا جاسکتا۔ حیرت یہ ہے کہ حکومت پاکستان حافظ سعید جیسے چند ٹھگوں کے سامنے خود کو بے بس کیوں محسوس کرتی ہے حالانکہ اسے عالمی دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے پھر بھی وہ آزاد گھوم رہا ہے۔ دراصل حکومت پاکستان حافظ سعید جیسوں کے سامنے بے بس ہو یا نہیں لیکن آئی ایس آئی کے سامنے ضرور بے بس ہے۔ نواز شریف اور اس سے پہلے یوسف رضا گیلانی نے آئی ایس آئی کو کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی لیکن زیادہ کامیاب نہیں رہے۔ عمران خان اور طاہر القادری کی مہم سے نواز شریف کی پوزیشن کمزور ہوئی ساتھ ہی مودی حکومت کی پاکستان پالیسی میں جو عدم تسلسل ہے اس سے بھی نواز شریف کے ہاتھ کمزور ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی اور سیاسی استحکام سے ہی برصغیر میں امن ممکن ہے اور آئی ایس آئی یہی نہیں ہونے دینا چاہتی۔

«
»

کیا ہندوستان فاشزم کے راستے پر جارہا ہے؟

مسلمان صحابۂ کرام کو نمونۂ عمل بنائیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے