چراغوں کو آنکھوں میں محفوظ رکھنا

یہ الگ بات ہے کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باو نڈری پر ہونے والی فائرنگ نے وہ دن دکھلایا کہ ہند،پاک کے درمیان سیکریٹری سطح کے مذاکرات منسوخ ہوگئے۔کٹھمنڈو میں سارک کانفرنس کے دوران مذکورہ قائدین میں پہلے خاموشی رہی لیکن اختتام پر جس وقت وزیراعظم نواز شریف کا اپنے ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی سے مصافحہ ہوا اور دونوں رہنماو ں کے درمیان چند جملوں کا تبادلہ ہوا ۔جس وقت یہ ملاقات ہورہی تھی تو اس دوران جموںوکشمیر میں مسلح شدت پسندوں اور ہندوستانی کی سرحدی فورس کے درمیان جھڑپ میں 3 فوجیوں سمیت کم از کم 10 افراد کی ہلاکت کی خبریں نشر ہو رہی تھیں۔سارک کانفرنس میں پہلے ہی دونوں رہنماوں کے درمیان رسمی ملاقات یا جنوری 2002 میں جنرل مشرف کی طرح اپنی تقریر کے بعد آگے بڑھ کر اٹل بہاری واجپئی سے ہاتھ ملانے جیسے ڈرامائی سفارتی اقدام کی توقع نہیں کی جا رہی تھی کیونکہ وزیراعظم نواز شریف نے اجلاس سے قبل ہی کہہ دیا تھا کہ پہل ہندوستان کی جانب سے ہو گی تو بات آگے بڑھے گی۔
طویل سیاسی بحران :
اگرچہ 2002 میں نواز شریف کی طرح مشرف بھی سارک کانفرنس سے قبل ہندوستان کا دورہ کر چکے تھے اور جولائی 2001 میں آگرہ میں واجپئی سے مذاکرات بھی کر چکے تھے لیکن پھر بھی ناکامی ہوئی۔اس کے بعد دسمبر 2001 میں ہندوستانی پارلیمان پر حملہ ہو گیا اور دونوں ممالک کی فوجیں سرحدوں پر بندوقیں تانے کھڑی تھیںلیکن پھر فوج کے سربراہ یا ملک کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر انھیں اتنا اعتماد ضرور تھا کہ ان کے اس اقدام پر ملک میں انھیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ شاید دہلی میں حکمراں جماعت بی جے پی کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ ہیوی مینڈیٹ کیساتھ اقتدار میں آنے والے وزیراعظم نواز شریف کیساتھ اس وقت تک بات کرنا اس وقت تک فائدہ مند نہیںتاوقتیکہ پاکستان کی سکیورٹی اسٹیب لشمنٹ آن بورڈ نہ ہو جو ہندوستان کو پاکستان کے اندر شدت پسندی اور خاص کر بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو پشت پناہی میں ملوث دیکھتی ہے لیکن انھیں اس وقت شاید مکمل یقین ہو گیا ہو گا جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنوں کے عروج پر ایک سال پہلے واضح اکثریت کیساتھ اقتدار میں آنے والی حکمران جماعت کی جانب سے سیاسی بحران سے نکلنے کیلئے فوج سے مدد مانگنے کی خبریں سامنے آئیں۔
شک و شبہات کا تسلط:
اس کے علاوہ رواں مہینہ کے دوران ہی پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے ذرائع ابلاغ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ان شدت پسندوں کو کیوں نشانہ بنائے جو پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ نہیں ہیں؟اس بیان کی سرکاری وضاحت تو کی جا چکی ہے لیکن ہندوستان اس کو اس طرح سے بھی لے سکتا ہے کہ وہ لشکر طیبہ کو اپنی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتا ہے جبکہ اس کے سابق سربراہ اور جماعت الدعوةکے سربراہ حافظ سید جہاں چاہے جلسہ کر سکتے ہیں لیکن اس کا کیا کیجئے کہ پاکستان کی حکومت شاہد ہے کہ مقامی عدالتیں انھیں ممبئی حملوں میں بے قصور ثابت کر چکے ہیں۔ یہ وہی مقامی عدالتیں ہیں جن کے بارے میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں کھلے عام سیاسی ہونے کے الزام عائد کرتی ہیں اور اگر کسی عدالت کی جانب سے حزب اختلاف کے کسی رہنما کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوں تو اسے کھلے بندوں سیاسی حربہ کہہ جاتا ہے۔جمعرات کو کٹھمنڈو میں نہ نہ کرتے پاک ہندوستان رہنماو ں کے درمیان مصافحہ اور خیر سگالی کے چند جملوں کا تبادلہ ہو بھی گیا تو اس سے شاید دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والے دنوں میں کوئی خاص فرق نہ پڑے کیونکہ ایک طرف سارک کانفرنس میں افغان صدر دونوں ممالک کو اپنے ممالک میں کسی بھی در پردہ جنگ سے باز کرنے پر خبردار کر چکے ہیں تو دوسری جانب ہندوستان کی ریڈ لائن یعنی کشمیر میں فوج اور مبینہ شدت پسندوں میں تصادم بھی ہو گیا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق حکومت میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جولائی 2010 میں اسلام آباد میں اپنے ہندوستانی ہم منصب ایس ایم کرشنا کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور دونوں کے درمیان مذاکرات کوششوں کے باوجود بے نتیجہ ثابت ہوئے تو اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مذاکرات کا المیہ یہ رہا ہے کہ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان پیش رفت ہونے لگتی ہے تو آخری لمحات میں کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے۔
کل کا خوف:
شاہ محمود قریشی اس وقت ہندوستان میں ہی بات چیت کیلئے موجود تھے جبکہ ممبئی میں شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔اسی حملہ میں ہندوشدت پسند عناصر کیخلاف برسرپیکار اے ٹی ایس سربراہ ہیمنت کرکرے کا پراسرار قتل ہوا۔اس سانحہ کی گتھی آج تک نہیں سلجھی ہے جبکہ زعفرانی عناصر کی رسائی ہندوستان کی وفاقی حکومت تک جاپہنچی ہے۔مبصرین کے مطابق شاید آنے والے کئی بر سوں سے دونوں ممالک کے درمیان بہتر ہوتے اور پھر بگڑتے ہوئے تعلقات کو سمجھنے کیلئے شاہ محمود قریشی کا یہ بیان کافی ہو گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں جنوبی ایشیائی ممالک کے خطہ میںہند،پاک کے حوالہ سے توانائی کے نیٹ ورک کی تشکیل پر اتفاق کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا اس سے ان ممالک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکے گی؟سارک نے ماضی میں علاقائی سطح پر توانائی کے شعبہ میں تعاون پر کئی تحقیقاتی رپورٹیں تیار کروائی ہیں اور اسی سلسلہ میں 2000 سے اسلام آباد میں ایک ریجنل انرجی سنٹر بھی قائم ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان رپورٹوں میں سے کسی ایک کی سفارشات پربھی عمل نہیں کیا گیا جس کی وجہ خطہ کے جغرافیائی و سیاسی مسائل کے علاوہ اس معاملہ میں حکام کی عدم دلچسپی بھی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے حوالہ سے اس خطہ میں بہت مواقع موجود ہیں اور بجلی کی ترسیل کا ایک مربوط علاقائی نظام ان ممالک میں بجلی کی کمی کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی والے ہندوستان میںان دنوں 60 کروڑ افراد کو بجلی کی سہولت میسر نہیں۔خطہ کے سب سے بڑے ملک ہندوستان میں اگرچہ گذشتہ چند برس میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کی کوششیں ہوئی ہیں لیکن پیش گوئی یہی ہے کہ 2032 تک یہاں بجلی کے استعمال میں 4سے 5 گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
لاحاصل قدرتی ذرائع:
اگرچہ علاقائی تعاون کے معاملہ میں سارک کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مذکورہ ممالک میں توانائی کے شعبہ کی دگرگوں صورتحال نے رہنماو ں کو اس معاملہ پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔حقائق کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے تقریباً تمام ممالک ہی اس وقت بجلی کے بحران کا شکار ہیں۔پاکستان میں روزانہ 12 سے 16 گھنٹے بجلی کی بندش عام ہے جبکہ نیپال میں بھی 15 گھنٹے روزانہ کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔موسم سرما میں افغانستان میں بھی بجلی کی قلت ہوتی ہے جبکہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ یوں بھی بجلی کی سہولت سے محروم ہے۔ اگرچہ بنگلہ دیش دعویدار ہے کہ 2013 میں اس نے اپنی ضرورت کے مطابق بجلی کی دستیابی کو ممکن بنا لیا ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ سرکاری اعدادوشمارشاہد ہیں کہ ملک کی تقریباً ایک تہائی آبادی کوآج بھی بجلی میسر نہیں ہے۔اسی طرح سری لنکا میں جہاں 25 فیصد آبادی کے گھروں میں بجلی ہے ہی نہیں وہیں باقی آبادی کو بھی اس کی کمی کا سامنا ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک نے خطہ میں توانائی کے شعبہ پر اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں جہاں پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں قدرتی گیس کے بڑے ذخائر ہیں جبکہ بھوٹان اور نیپال میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے شاندار ذرائع موجود ہیں اور اگر ان ذرائع کی شراکت ممکن ہو تو قدرتی طور پر خطہ بھر کی توانائی کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔
عوام کی محرومی:
ان حالات سے قطع نظر18ویں سارک اجلاس کے میزبان ملک نیپال کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کھگاناتھ ادھیکرے کا دعوی ہے کہ یہ معاہدہ ماضی سے مختلف ہے کیونکہ اس میں سرکاری اور نجی کمپنیوں کو رکن ممالک کے درمیان بجلی کی خریدوفروخت کی اجازت دی گئی ہے۔لہذااس معاہدے کی وجہ سے رکن ممالک کے درمیان بجلی کی ترسیل کی لائنیں بچھانے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔توانائی کے معاملات پر پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر مصدق ملک بھی سمجھتے ہیں کہ بجلی کی پیداوار کا علاقائی نیٹ ورک خطہ میں توانائی کے مسائل کے تناظر میں ایک کارآمد خیال ہے جبکہ اس مسئلہ کو علاقائی سطح پر قابل قبول شرائط کے تحت حل کرنا ہی مناسب ہے اور ہم نے معاہدہ پر دستخط کرنے سے قبل سیر حاصل بات چیت کی ہے۔خطہ میں بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان میں پہلے ہی ہندوستان سے بجلی کی ترسیل کا نظام موجود ہے جس میں بہتری کے منصوبے موجود ہیں۔گذشتہ ماہ جب سارک کے رکن ممالک کے وزرائے توانائی علاقائی توانائی گرڈ پر ابتدائی بات چیت کیلئے مجتمع ہوئے تھے تو پاکستانی وزیر تو وہاں موجود نہ تھے لیکن اس اجلاس میں ہندوستان کے وزیر توانائی نے کہا تھا کہ دریا ایک ہی سمت میں بہتے ہیں لیکن توانائی کا دریا ہماری مرضی کی سمت میں بہہ سکتا ہے۔ میں آئندہ چند برس میں سارک ممالک کے پاورگرڈ کا خواب دیکھ رہا ہوں۔لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سے ہندوستان کے غیر مستحکم تعلقات کی وجہ سے ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا اور اس معاہدہ پر قائم ہونے والا یہی سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ایسے برفتن حالات میں سرحد کے دونوں جانب کے عوام آج بھی امیدکے دئے روشن کئے بیٹھے ہیں کہ
چراغوں کو آنکھوں میں محفوظ رکھنا
بڑی دور تک رات ہی رات ہوگی

«
»

کیا ہندوستان فاشزم کے راستے پر جارہا ہے؟

مسلمان صحابۂ کرام کو نمونۂ عمل بنائیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے