انتفاضہ اور فلسطین

انہوں نے کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ قبلہ اول کی آزادی کے لئے طیراً ابابیل اور ہد ہد کی جدید تعبیر تلاش کرنے کی کوئی جد وجہد نہیں کی ۔جبکہ دنیا کے بیشتر انصاف پسند غیر مسلم برادری کی طرف سے بھی ان کی غیرت کو للکارا گیا کہ عرب کے حکمراں اگر متحد ہو کر ایک بار بھی اپنے جارحانہ رخ کا مظاہرہ کردیتے تو بعید نہیں کہ فلسطینی مسلمانوں کو ان کا حق مل جاتا اور یہ اپنا کھویا ہوا وقار بھی بحال کرلیتے ۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عرب کے نوجوانوں نے عرب کے ان حکمرانوں کو اپنی پلکوں پر بیٹھایا ہے جس نے اسرائیل کے خلاف جارح رخ اپنایا ہے۔ایران کے صدر احمدی نژاد ہوں یا کرنل قذافی یا صدام حسین یہ لوگ اپنے اسی رویے کی وجہ سے ہی عربوں کے ہیرو تصور کئے جاتے تھے ۔احمدی نژاد نے تو آخری وقت میں اپنا کلمہ بدل دیا اور وقت کے یزید کے ساتھ ہو گئے ۔صدام حسین کو لوگ برا آدمی تصور کرتے تھے مگر اس برے آدمی کو اسرائیل کی دشمنی اور فلسطینیوں کی حمایت میں تختہ دار سے گذرنا پڑا اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ آخری وقت میں وہ عرب نوجوانوں کو تحریک دے گیا کہ تمہاری آزادی اور فلاح کا راستہ اسی موت کے پھندے سے گذرتا ہے ۔خود فلسطینی مسلمانوں نے بھی اپنی غیر معمولی جد وجہد، مزاحمت اور قربانی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر بہار کو خزاں کی لذت کا مزہ ضرور چکھنا ہوتا ہے۔اقبال نے اسی کو یوں کہا کہ ؂ ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام ۔ہے اسی میں مشکلات زندگی کی کشود
یہ دنیا کا دستور ہے اور کائنات کے مالک نے حالات کو اسی طرح بدلا ہے۔عرب حکمرانوں نے اسرائیل سے ۱۹۴۸ اور ۱۹۶۷ کی شکست کے بعد جب یہ تسلیم کرلیا کہ اسرائیل ایک طاقتور ملک بن چکا ہے اور یوروپ کی پشت پناہی کی وجہ سے اسے شکست دینا ناممکن ہے تو اس دوران وہی ماحول پیدا ہوا جو صلح حدیبیہ کے بعد دیکھا گیا ۔یعنی مشرکین کی دہشت سے فرار اختیار کرکے کچھ مسلمانوں نے مدینہ اور مکہ کے بیچ ایک ایسی وادی میں پناہ لے لی جہاں مکہ سے ان کا قافلہ گذرتا تھا،اور پھر ان پر حملہ آور ہوتے رہے ۔جسے آج کے دور میں ہم دہشت گردی کہتے ہیں۔عرب نوجوانوں کی معمولی جھڑپ اور مزاحمت جو بعد میں اسامہ بن لادن کی قیادت میں ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی اس نے افغانستان کو اپنی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جس نے اب عراق و شام میں ایک ریاست کا درجہ تو اختیار کرلیا ہے لیکن جسے ابھی تک جائز طریقے سے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔لیکن اس نوزائدہ تحریک دولت اسلامیہ کی شدت اور عروج کے بعد یوروپ میں ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے کی تحریک زور پکڑتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جنہوں نے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا تھا وہی لوگ قبلہ اول کے سپاہیوں اور محافظوں کو قتل کرنے کے لئے بشارالاسد کو فوجی امداد دے رہے ہیں مگر اسرائیل کو محفوظ پناہ گاہ مہیا کروانے والے یوروپی ممالک اب اپنے گناہ سے توبہ کرنا چاہتے ہیں۔سوئیڈن کے بعد برطانیہ ،اسپین اور کچھ دیگر یوروپی ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی جو تحریک اٹھ رہی ہے اسی عہد کو دوہراتے ہوئے یوروپی یونین کی خارجہ امور کی نئی سربراہ فید بریکا موگیرینی نے غزہ کے اپنے پہلے سفر کے دوران کہا ہے کہ اگر ہم اب بھی بیٹھ کر انتظار کرتے رہے تو اور چالیس سال گذر جائیں گے اس لئے ہمیں عملی اقدام کرتے ہوئے اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے علاقوں پر مشتمل جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہونا چاہئے فلسطینیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کر لینا چاہئے ۔
اسرائیل نے اسی تحریک کی شدت سے خوفزدہ ہو کر کولمبیا کی وزیر خارجہ ماریا انجیلا بالکوئین کو فلسطین کے شہر راملہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ پہلے وہ اپنے سفر کی وجوہات کا خلاصہ پیش کریں ۔یوروپ سے فلسطینیوں کی حمایت میں اٹھنے والی اس تحریک سے متاثر ہو کر اکثر اعتدال پسند اور سیکولر قسم کے تبصرہ نگار وں نے حماس کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ انتفاضہ تحریک سے باز نہیں آئے تو ممکن ہے کہ وہ اپنے غیر مسلم معاونین اور ہمدردوں کی حمایت اور مدد سے محروم ہو جائیں ۔ایسا ممکن بھی ہو سکتا ہے مگر اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ۱۹۸۰ کے بعد حماس کے ذریعے انتفاضہ تحریک کی شروعات کے بعد ہی اسرائیل اوسلو معاہدہ کے لئے رضامند ہوا تھا اور ادھر یوروپ میں فلسطینیوں کی حمایت میں جو تحریک زور پکڑ رہی ہے یہ صورتحال بھی غزہ میں انتفاضہ کی تیسری تحریک اور عرب بہار کی سورش کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ویسے کوئی بھی قوم ایک ناجائز اور حملہ آور ملک کے خلاف اپنی پر تشدد تحریک کے لئے کسی قانون کی پابند نہیں ہوتی ۔ فلسطینیوں کے لئے اس وقت یہی بہتر ہے کہ اگر ان میں سے کچھ لوگ ایک محاذ پر ہندوستانی رہنما گاندھی اور نہرو کی شکل میں مفاہمت کا طریقہ اختیار کرتے ہیں تو اسے جاری رہنے دیں مگر تاریخ میں بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس کے سبق کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے۔اور یہی تاریخ کا سچ بھی ہے کہ دنیا کا ہر سکہ جو قبولیت کا درجہ اختیار کرتا ہے اس کے دو پہلو ہوتے ہیں ۔فطرت کے اسی قانون سے بغاوت کرنے والی دلائی لامہ کی تحریک کا حشر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بودھشٹوں کی یہ پر امن تحریک نہ صرف یہ کہ اپنے علاقے کو حاصل نہ کرسکی بلکہ پوری دنیا میں تبت کی آزادی کے تعلق سے کوئی شور شرابہ بھی نہیں پایا جاتا جبکہ فلسطین کا مسئلہ اگر زندہ ہے اور وہ اپنے اس خواب کی تعبیر کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں یا وہ اپنی تحریک سے ناامید نہیں ہوئے ہیں تو اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ فلسطینی مسلمانوں نے گفتگو کے ساتھ لہو گرم رکھنے کا طریقہ بھی اختیار کر رکھا ہے ۔حماس اور الفتح اسی سکہ کے دو رخ ہیں اور اب انہوں نے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرکے عرب کے نام نہاد حکمرانوں کے منھ پر طمانچہ مارا ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل کی دہلیز پر دولت اسلامیہ کی دستک نے عرب حکمرانوں کی منافقت کو بھی بے نقاب کردیا ہے ۔شام اور سعودی عرب کے حکمراں پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ امریکہ نے اگر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں سنجیدگی نہیں دکھائی تو وہ خود بھی محفوظ نہیں رہے گا۔اب ایران کی طرف سے یہ بیان بھی غیر متوقع نہیں ہے کہ اگر شام میں بشار حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو اسرائیل بھی محفوظ نہیں رہے گا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران اور عرب کا کوئی بھی حکمراں قبلہ اول کی آزادی کے تئیں مخلص نہیں ہے اور اسرائیل ان حکمرانوں کی حکومت میں زیادہ محفوظ ہے ۔سوال یہ ہے کہ پھر دہشت گردی کی تشریح کیسے کی جائے ؟شاید وقت خود اس کا فیصلہ کردے گا!

«
»

خوف

افغان یوٹرن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے