اسلام کی موجودہ تصویر بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں اسماعیلی مسلمان

اور ان کا یہ کام بھی اس لحاظ سے قابل توجہ ہے۔ اس میوزیم میں اسلامی تہذیب اور آرٹ کے نمونے جمع کئے گئے ہیں اور مزید جمع کئے جارہے ہیں۔ یہ میوزیم اس اسلامی سنٹر کا حصہ ہے جس میں اسماعیلیوں کی تمام مذہبی ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ یہاں کمیونیٹی سنٹر ہے جس میں وہ جمع ہوکر کسی بھی اہم مسئلے پر غورو فکر کرنے کے علاوہ شادی بیاہ کی تقریبات بھی انجام دے سکتے ہیں۔ یہاں خوبصورت پارک اور واٹر ٹنک کے علاوہ عبادت گاہ بھی ہے جسے ’’جماعت خانہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں اسلامی لائبریری بھی ہے جس میں دنیا کی مختلف زبانوں میں کتابیں جمع کی گئی ہیں۔ اس کا ایک بڑا مقصد اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب کا مطالعہ کرنا بھی ہے۔ اس میں خاص طور پر اسماعیلیوں کی تاریخ اور اس کے مختلف ادوار کو پیش کیا گیا ہے۔ آغاخان کے خاندان میں جو چیزیں ہزار سال سے پشت در پشت چلی آرہی ہین ان نوادرات کو بھی اس میں جمع کردیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ مہمانوں کے ٹھہرنے کے لئے کمرے وغیرہ بھی ہیں نیز کانفرنس ہال ہے اور سرکاری و غیر سرکاری سفیروں کے استقبال کے لئے بھی انتظامات ہیں۔ یہاں کے ذمہ داران بتاتے ہیں کہ اس سنٹر کا مقصد اسلامی، اخلاقی اور زندگی کی مثبت قدروں کو عام کرنا ہے اور اسلام کے تعلق سے پھیلی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ دنیا بھر میں انسانی تہذیب کے ارتقا کو عام طور پر صہیونیت یا عیسائیت کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے جب کہ اسے اس مقام تک پہنچانے میں اسلام کا بڑا حصہ ہے،جسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس میوزیم کے ذریعے عالم انسانیت پر پڑنے والے اسلامی اثرات کو پیش کیا جائے گا۔ مغرب آج بھی اسلامی اقدار سے ناواقف ہے اور اسے نہیں پتہ کہ اسلام نے دنیا کو کیا دیا ہے جس سے واقف کرانے کا کام یہ میوزیم اور اسلامک سنٹر کرائے گا۔ ٹورنتو سنٹر کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ ہم تہذیبی ٹکراؤ کے نظریہ کو نہیں مانتے ہیں البتہ یہ مانتے ہیں کہ ایک اہم تہذیب اور اس کی اخلاقی اقدار کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ 

اسماعیلیوں کے عالمی مراکز
ٹورنٹو میں قائم اسلامک سنٹر اسماعیلیوں کے مذہبی مراکز کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اس قسم کے سنٹرس پہلے بھی کئی ممالک میں قائم کئے گئے ہیں جو سب کے سب فن تعمیر کا شاہکار ہیں اور یہاں اسلامی آرٹ کے نمونے جمع کئے گئے ہیں۔ اس قسم کا پہلا اسلامک سنٹر ۱۹۵۸ء میں برنابی میں قائم کیا گیا تھا۔اس کے بعد دوسرا ،۱۹۸۵ء میں لندن میں قائم کیا گیا، جب کہ تیسراسنٹر ۱۹۹۸ء میں لزبن میں قائم ہوا اور چوتھا۲۰۰۳ء میں دبئی میں قائم ہوا۔ ۲۰۰۹ء میں تاجکستان کی راجدھانی دوشنبے میں بھی اسلامک سنٹر کا قیام ہوا۔ اس سلسلے میں فی الحال ٹورنٹو میں اس کا قیام عمل میں آیا ہے مگر یہ آخری نہیں ہے ،آگے ہیوسٹن، پیرس اور لاس انجلیس میں بھی قیام کا پروگرام ہے اور ماہرین کام کر رہے ہیں۔ ٹورنٹو والے اسلامک سنٹر کے ڈیزائن اور تعمیر میں دنیا کے معروف ماہرین تعمیرات نے حصہ لیاہے۔ اس کے نقشے پر کام کیا ہے VIadimir Djurovicنے، جو دنیا بھر میں اپنے کام کے لئے جانے جاتے ہیں۔ جب کہ اس کے آرکیٹکٹ Fumihiki Makiبین الاقوامی ایوارڈ یافتہ ہیں۔ اسلامک سنٹر کا ڈیزائن تیار کیا ہے بھارت کے معروف زمانہ آرکیٹکٹ Charles Correa نے ۔ اس کی تعمیر ۱۷ ایکڑ وسیع و عریض زمین پر کی گئی ہے اور تین سو ملین امریکی ڈالر کی لاگت آئی ہے ۔ اس مرکز اور میوزیم کے لئے ٹورنٹو کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس سوال کے جواب میں یہاں کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ چونکہ اس شہر میں اسماعیلیوں کی کثیر آبادی ہے لہٰذا ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے ایسا کیا گیا ہے۔ اسماعیلی حضرات دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس شہر میں ۹۰ ہزار کی تعداد میں ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک سے ہجرت کرکے یہاں آئے ہیں۔ جن جن شہروں میں ان کی تعداد زیادہ ہے ،وہاں وہاں یہ مراکز قائم کئے جارہے ہیں۔ 
اسماعیلی فرقہ اور اس کے رہنما آغاخان
پرنس کریم آغاخان کو اسماعیلی فرقے کا ۴۹ واں روحانی پیشوا مانا جاتا ہے۔ اس فرقے کے لوگ دنیا کے دنیا پچیس ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں مگر اس لحاظ سے متحد ہیں کہ ان کا روحانی پیشوا ایک ہے جس کی رہنمائی میں یہ فرقہ آگے بڑھ رہا ہے۔ ان لوگوں کی آبادی ایشیا، افریقہ اور یوروپ کے مختلف ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اسماعیلی فرقہ کو خوجہ بھی کہا جاتا ہے اور یہ شیعوں کا ایک چھوٹا سا فرقہ ہے جو عام شیعوں کی طرح حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کو کو خلیفۂ اول اور امام مانتا ہے۔حالانکہ اثناعشری شیعہ حضرات کے ہاں بارہ امام ہوئے ہیں مگر ان کے نزدیک یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور کریم آغاخاں موجودہ امام ہیں۔ اسماعیلی شیعہ حضرت امام جعفر صادق کے بیٹے اسمٰعیل کو امام مانتے ہیں جب کہ اثنا عشری شیعہ امام موسیٰ کاظم کوامام مانتے ہیں۔اسمٰعیلی شیعوں کو مصر کے فاطمی خلفاء کی باقیات سمجھا جاتا ہے۔ برصغیر ہندو پاکستان میں ان کے دوگروہ مشہور ہیں ایک آغاخانی اور دوسرے داؤدی بوہرہ۔مصر کے فاطمی حکمرانوں میں ایک حکمراں ابوالقاسم نزار ہوا تھا جس کی مناسبت سے اس گروہ کو نزاری بھی کہا جاتا ہے۔ اس فرقے کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اس کا بانی ایران کے قلعہ الموت کا حکمراں حسن بن صباح تھا جس کے گروہ کو مورخین نے حشیشین کا بھی نام دیا ہے کیونکہ یہ لوگ حشیش (افیم)کا نشہ دے کر لوگوں کو اپنے مقصد میں استعمال کرتے تھے۔ اسماعیلی عام سنی اور شیعہ مسلمانوں سے عموماً الگ رہتے ہیں مگر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ساری دنیا میں ان کی آبادی ۱۵ملین بتائی جاتی ہے۔بھارت اور پاکستان میں ان کی آبادی اچھی خاصی ہے خاص طور پر گجرات اور مہاراشٹرکے علاقے میں ہے۔ یہ لوگ کاروبار کرتے ہیں اور اس میدان میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مشہور Wiproکمپنی کے مالک عظیم ہاشم پریم جی اسی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پرنس کریم آغاخان کے بارے میں ان کے ماننے والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ سید زادے ہیں اور نسلی اعتبار سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے ہیں۔ یہ طبقہ سینکڑوں سال قبل برصغیر ہجرت کر آیا اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ انگریزی عہد میں پرنس کا اصل مرکز سندھ (پاکستان) میں تھا اور پرنس کا خطاب بھی انگریزی حکومت نے ہی دیا تھامگر اب ان کی رہائش اکثر و بیشتر فرانس اور دنیا کے دوسرے کئی ممالک میں رہتی ہے۔ انھیں کناڈا سرکار نے اعزازی شہریت سے نوازا ہے جو صرف چھ افراد کو ہی دی گئی ہے۔ 
ماڈرن روحانی پیشوا
آغاخان کا قائم کردہ آغا خان ٹرسٹ ساری دنیا میں فلاحی کاموں کے مشہور ہے۔ خاص طور پر وہ اسلامی اور تاریخی مقامات کی حفاظت کا کام کرتا ہے۔ مصر میں فاطمی حکمرانوں کی تعمیر کردہ عمارتوں کی دیکھ ریکھ اور تزئین وآرائش نیز ان کے مقبروں کی حفاظت کا کام بھی یہ ٹرسٹ کرتا ہے۔ دلی میں واقع مقبرہ ہمایوں کی دیکھ ریکھ اور سجاوٹ کی ذمہ داری اسی ٹرسٹ نے لے رکھی ہے۔ علاوہ ازیں آگرہ اور دوسرے تاریخی شہروں میں بھی یہ ٹرسٹ تاریخی عمارتوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ پرنس کریم آغا خان اور ان کے فرقے کے لوگ بے حد جدت پسند ہیں اور ماڈرن طریقے پر جینا پسند کرتے ہیں۔وہ عام مذہبی رہنماؤں کی طرح خاص قسم کا لباس نہیں پہنتے ہیں بلکہ ماڈرن قسم کے لباس پہنتے ہیں اور شکل و شباہت بھی ماڈرن ہوتی ہے۔ وہ عام طور پر خبروں سے دور رہتے ہیں اور میڈیا میں بھی تب نظر آتے ہیں جب ان کا کسی سے معاشقہ چلتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ پرنس اپنے کئی معاشقوں اور مغربی خواتین کے ساتھ شادیوں کے لئے جانے جاتے ہیں اور اسی راستے پر چل رہے ہیں ان کے جانشیں صاحبزادے۔ مانا جاتا ہے کہ آغاخان کے پاس بے حساب دولت ہے مگر وہ عرب کے بادشاہوں کی طرح اس کا استعمال صرف نمود ونمائش کے لئے نہیں کرتے بلکہ عوامی اور فلاحی کاموں کے لئے کرتے ہیں۔ ان کے ٹرسٹ کی جانب سے دنیا بھر میں غریبوں اور ضرورت مندوں کے لئے کئی تعلیمی ، فلاحی پروگرام چلتے ہیں۔ وہ اسپتال اور تعلیمی ادارے قائم کرتے ہیں اور سماج میں بیداری کا کام بھی کرتے ہیں۔(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور اسکرپٹ ر ائٹر ہیں) 

«
»

میر تقی میرؔ اور عشق

انقلاب کیسے آئے گا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے