معرکۂ کربلا اور شہادت حسینؓ رہتی دنیاتک عظیم پیغام ، اور دعوت وتبلیغ کا ایک اعلی نمونہ ۔

بلکہ پوری تاریخ کا رخ موڑھ دیا، اور ان کے چھوٹے بڑے اعزا واقربا نے دشمن کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر کہاتھا’’ عزت کی موت ذلت وخواری کی زندگی سے بہتر ہے‘‘ اور شہادت عظمی کا مرتبہ حاصل کرکے دنیائے انسانیت کے سامنے اسلام کے آفاقی پیغام کو ایک ایسے اندازمیں پیش کیا، اور اپنے اوپرہونے والے ظلم وستم کو سہ کرحق وباطل کے درمیان جو حدفاضل کھینچی، اور حق گوئی وشہادت کی ایسی عظیم مثال قائم کی کہ وہ رہتی دنیا کے لئے آزادی، مساوات ، اور جمہوریت کی علامت بننے کے ساتھ اقامت دین و تحریکات اسلامی کے لئے چشمۂ ہدایت بن گئے،نواسۂ رسول کی شہادت تاریخ انسانیت کی بہت بڑی قربانی تھی،یہ کوئی شخصی یاانفرادی واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ چمنستان نبوی کے پورے گلشن (خاندان) کی شہادت کاواقعہ تھا، جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے،اس طرح اسلام ابتداء سے لیکر انتہاء تک قربانیوں کا نام ہے،گویا ایک مسلمان کی زندگی ایثار وقربانی سے عبارت ہے۔ 
آپ ﷺ کے وصال کے بعد ۴۱؍ ھ کے قبل ومابعد زمانہ کو مسلمانوں نے دو حصوں میں تقسیم کردیا،اور ایک کا نام خلافت راشدہ اور دوسرے کا نام ملوکیت رکھا، خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کے دور کا آغاز ہوتا ہے، دھیرے دھیرے ملوکیت اپنے شباب پر پہونچنے لگی،اور یزید کا تخت حکومت اسلامی کا فرماں رواں بنتے ہی دورجاہلیت شروع ہوگیا، وہ ظلم وستم کا ایسانمونہ تھا کہ اسکے عہد ہ جانشینی میں ہی تعلیمات اسلامی بالکل مسخ ہوکر رہ گئی تھی، بیت المال رعایا کہ امانت نہیں بلکہ اس کی جاگیراور ذاتی خزانہ بن گیا،اقربانوازی، کنبہ پروری،اور دوسری اخلاقی خرابیاں جو خلاف راشدہ کے زمانہ میں سخت معیوب تھیں عام ہوگئیں،اور قبائلی عصبیتیں زندہ ہوئیں، ، اسلام کا اجتماعی ڈھانچہ بدل رہا تھا، قیصر وکسری کی سنت زندہ کی جارہی تھی، اسلامی نظام اور اسکے اصول وقاعدے کو الٹ دیا، ظالم وجابر حاکموں نے شدت پسندی اختیار کی،اسلامی ریاست کے دستور، اسکے مزاج،اسکے مقصد میں تبدیلی کرنے، ضمیروں اور زبانوں کو خرید نے کے ساتھ ظلم نے انسان کو خاموش رہنے پر مجبور ہی نہیں کیا، بلکہ باطل نے حق سے بیعت کا مطالبہ کردیا، بقول مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ :’’زخم خوردہ جاہلیت اپنے فاتح حریف سے انتقام لینے پر تلی ہوئی، تھی،اور چالیس برس کا حساب ایک دن میں پورا کرنا چاہتی تھی‘‘۔
ایک صاحب بصیرت، نواسۂ رسول ﷺ کی نگا ہ کو سیاسی حالات نے آنکھیں دکھائیں،وطنی مفاد آڑے آئے،وقت اور ماحول نے ساتھ دینے سے انکار کردیا،مصلحتوں نے دامن پکڑا،مشکلات نے راستہ روکا،ہلاکتو ں کا طوفان نمودار ہوا ،فخر ومباہات کی تیز آندھیاں اپنا زور دکھارہی تھیں، لیکن اہل دین اور صحابہ عظام کا دینی ضمیر اس تبدیلی کو برداشت نہیں کرسکتاتھا،اور امام حسینؓ و ان کے چھوٹے بڑے اعزاء و اقرباء کب یزید کی بیعت کرسکتے تھے اسلئے کہ جنتی جوانوں کے سردا ر حضرت امام حسینؓ حق وباطل کے درمیان ایک فیصل کامقام رکھتے تھے،ان کی تعلیم وتربیت کا گہوارہ آ پ ﷺ کی گودتھی، اور آپ ﷺ کی آغوش میں پل کر اپنی حیات کاآغاز کیا تھا،ان کی رگوں میں ماں فاطمہ زہرا کا دودھ اور باپ علی مرتضیؓ کاخون دوڑ رہا تھا، اخلاق، پیار ومحبت، عظمت وبزرگی، حکمت وشجاعت، صداقت، ایمانداری، عدالت وسخاوت ، صبر وشکر اخلاق وکردار، حکمت وعفت، عدالت اور جود و سخا میں آپ ﷺ کی جیتی جاگتی تصویر اور عملی نمونہ تھے، ان کی ہر ادا سنت مصطفی تھی، وہ قرآن حکیم کے ہر فرمان پر عمل پیکر بن کر رہے، انھوں نے اقتدار کا مقابلہ بلندکرداری سے،کثرت کا مقابلہ قلت سے،ظلم وبربریت کا مقابلہ مظلومیت اور بے بسی سے کرنے کے ساتھ انکی ہمت وجسارت، ان کی جوانمردی ، صبر و استقامت کہ خون کا ایک ایک قطرہ بہادیا، لیکن آپ نے اپنی آواز میں پستی نہ آنے دی، اور خلافت وملوکیت کے درمیان ایک دیوار کھینچ دی،کہ عقیدہ کی پختگی اور صبر واستطاعت سے ہی ایک مسلمان کی زندگی دنیا و آخرت میں کامیاب وسرخ روئی حاصل کرسکتی ہے،اور یہ ثابت کردیا کہ ’’ شہید اپنے خون کے ہر قطرے سے مردہ قوم کی رگوں میں زندگی کی حرارت پیداکرتا ہے، اور شہید کی موت قوم کی زندگی ہے، خود حضرت امام حسینؓ کا قول تاریخ میں موجود ہے، امام وہی ہے جو کتاب اللہ پر عامل،انصاف کا خوگر،حق کاتابع،اور تعلق مع اللہ کی صفت سے متصف ہو۔
چنانچہ مدینہ سے ہجرت کرکے کربلاکی جانب عازم سفر ہوئے، اور دو(۲) محرم ایکسٹھ(۶۱)ہجری سرزمین کربلاپر قدم رکھا،جس میں بچوں اور جوانوں کے علاوہ سن رسیدہ اصحاب رسول

«
»

میر تقی میرؔ اور عشق

انقلاب کیسے آئے گا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے