سراج شولاپوری کی تصنیف ’’تیر نیم کش‘‘

کہتے ہیں کہ زندگی میں سنجیدگی بڑی اہمیت کی حامل شے ہے۔ لیکن منہ پُھلائے رہنے، خواہ مخواہ کی خاموشی اپنے اوپر طاری کر لینے کا نام سنجیدگی نہیں ۔
ہنستے مسکراتے ہوئے بھی زندگی کی سنجید گیوں کی پاسداری ممکن ہے۔بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ مسکراہٹوں کے بغیر سنجیدگی ایک بے معنی شے قرار پاتی ہے۔ پھر مسکراہٹوں اور قہقہوں کو ایک محرک کی بھی ضرورت ہے ، ورنہ اس کے بغیر ہنسنے کوپاگل پن قرار دیاجائے گا۔فطرت نے بعض انسانوں میں یہ صلاحیت بدرجۂ اتم پیدا کر دی ہے کہ وہ اپنے نطق و اظہار اورحرکات و سکنات سے ہنسنے اور قہقہہ لگانے کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔ یا یہ ہوتا ہے کہ خود زبان و بیان کے بعض اسلوب میں ہنسانے کی صلاحیت اندر سے Inbuiltہوتی ہے جس کا تاثر لے کر ایک سامع ہنسے یا مسکرائے بغیر نہیں رہتا۔ خودظریف فن پاروں کا تخلیق کاربھی بسا اوقات اس بات سے بے خبر رہتا ہے کہ وہ کسی لفظ یا الفاظ کے کسی مجموعے کو اپنی زبان یا قلم سے ادا کرکے اپنے سا مع کو مسکراہٹوں، قہقہوں کا تحفہ عطا کرنے جارہا ہے۔
سراجؔ شولاپوری اِن ہی چند خوش قسمت فن کاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں قدرت نے متوحش و گرد آلود چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کی بھرپور صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ان کا حال بھی کچھ ان فن کاروں سا ہی ہے جنہیں اپنی فنکاری کے عوام پر متریتیب ہونے والے تاثر کا پہلے ہی سے احساس ہوتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ میرا یہ مشاہدہ ہے اور یہ بات میں ان کی ایک خوبی کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ مشاعروں میں ان کے کلام کو سن کر سامعین لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں لیکن سراج صاحب ایکLight smileبھی نہیں دیتے۔کہیں وہ اپنے اشعار کے اس ہمہ گیر تاثر پر بوکھلا تو نہیں جاتے۔دراصل اسی بوکھلاہٹ میں، میں ان کی تخلیقی عظمت کا کمال دیکھتا ہوں۔ جو طنزیہ و مزاحیہ شاعر سامعین کو ہنسا ہنسا کر ناک میں دم کردے اور خود اپنے اوپر سنجیدگی اوڑھ لے، وہ دراصل اپنے حقیقی تخلیق کار ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔
مجھے یقین نہیں آیا کہ انہوں نے اس قدر جلد ایک عدد مجموعہ بھی شائع کرنے کی ہمت کر ڈالی ۔کیونکہ بہت کم مزاحیہ فنکار بعض مخصوص وجوہ سے یہ ہمت جٹا پاتے ہیں۔مثلاً،پہلے وہ عوام میں اپنی پذیرائی کی نبض دیکھنا چاہتے ہیں یا اپنی زبان و بیان کو لے کر انہیں تامل ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی وہ کتاب کی اشاعت پر غور کرتے ہیں۔ کوئی Complex ضرورہوتا ہے،جس کی تشریح کر نا مشکل ہے۔میں نام لیے بغیر ایک مزاحیہ شاعرکے خود اپنے بارے میں احساسات بغیر Commentsکے بیان کروں گا، شاید اس سے اندازہ ہو کہ متذکرہ Complex کی حقیقت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’۔۔۔ابتدائی غزلیں دو ایک اساتذہ کو اصلاح کے لیے دکھلائیں۔ چوں کہ میری شاعری طنز و مزاح کا چارلی چپلن ماڈل سوٹ بوٹ پہنے ہوئے تھی، اس لیے شیروانی میں ملبوس تقویٰ زدہ اساتذہ کی اصلاحی کسوٹی پر کھری نہیں اتری یا شاید ان کے پلے نہیں پڑی ۔ کیونکہ مزاحیہ کلام کی اصلاح کے لیے بھی مزاجاً ظریف طبع استاد کا ہونا لازمی ہے۔ ورنہ ان کا طریق اصلاح ’’ اصلاح خانہ‘‘ میں بدل کر رہ جاتا ہے۔ ایسے استاد سے میں آج تک محروم ہوں۔ شاید اسی نقد و نظر کی کمی کے کارن نقادوں نے ہمارا شہر ادب میں بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ ۔۔ حالانکہ نقاد حضرات کو اچھی طرح معلوم ہے کہ فنِ طنز و مزاح ، فنِ سنجیدہ شاعری سے زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر رکھتا ہے۔۔۔‘‘(ایک مزاحیہ شاعر کے احساسات)۔
چلیے،اچھا ہوا کہ ایسے کسی complexکے بغیر مسلسل ہنساتے رہنے کی ان کی ترکیبوں نے بالآخرمنصہ شہود کارخ کر ہی لیا اور اب طنز و مزاح کے ان کے’’تیر نیم کش‘‘ سے مشاعرے کے سامعین کے علاوہ نہ جانے مزید کتنے لوگوں کونیم بسمل ہو کر تڑپنے کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔’’تیرِنیم کش ‘‘ کے لیے تو مبارکباد ہے ہی، اس کی اشاعت کی ہمت پر بھی سراج ؔ مزید مبارکباد کے مستحق ہیں۔
کئی بارمشاعروں کے شہ نشینوں پر ان کے ساتھ مشاعرے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ یہاں بنگلور کے آل انڈیا مشاعرے میں بھی آئے۔ دور سے علیک سلیک بھی ہوتی رہی ۔لیکن ان سے قریب ہونے کا پہلا موقع نرمل(عادل آباد۔آندھرا پردیش ) کے مشاعرے میں ملا۔ کیونکہ ہم دونوں ایک ہی کمرے میں قیام پزیر تھے۔اس کے بعدمیری دعوت پروہ شکاری پور (کرناٹک)کے مشاعرے میں تشریف لائے تو یہ قربتیں دوستی میں بدل گئیں اور اب ہمارا فون پر مسلسل رابطہ ہے اوران کے مجموعۂ کلا م پر اظہار خیال کی پیش کش ان ہی قربتوں کے حوالے سے خود میری اپنی ہے جو تبصرہ نہیں بلکہ کچھ تاثرات کی حیثیت رکھتی ہیں اور بے ساختہ نوک قلم پر آئے ہیں۔
آ ئیے ایک نظر ان کے کلام پر ڈالتے چلیں کہ فی الواقع ان کے تیر نیم کش میں ہم جیسے سخت جانوں کو گھائل کرنے کی کس قدر صلاحیت موجود ہے۔ ہم نے کتاب کا با لاستعاب مطالعہ کیا۔یہ بات مبالغے پر محمول نہ کی جائے تو ہم عرض کریں گے کہ اُن کی کتاب’’ تیر نیم کش‘‘ محض ہنسی مذاق کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ہمارے زوال پزیرمعاشروں کی دُکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتی نظر آتی ہیں۔ کتاب میں کل 79تخلیقات درج ہیں اور ہر ایک میں سراجؔ کئی موضوعات پر طنز و مزاح کے’’ تیر نیم کش‘‘لیے نشانہ سادھے نظر آتے ہیں۔ ابتدا میں حمدو نعت درج ہیں۔نعت کا اختتام بڑا متاثر کن ہے:
جن کے قدموں میں سب امیری تھی ان کو پیاری مگر غریبی تھی
یاد ان کو سدا کروں گا میں ان کی سنت ادا کروں گامیں
سراج غزل کہتے ہیں تو طنز و مزاح کا دامن نہیں چھوڑتے۔لیکن معلوم نہیں ، اس کا کریڈٹ ان کے طنز و مزاح کو جانا چاہیے یا غزل کی وسعتِ دامانی کو۔ چونکہ ان کی تعداد صرف چھ ہے اس لیے تغزل کی ان کی صلاحیتوں کے بارے میں رائے زنی قبل از وقت ہوگی۔ان کی غزلوں کے مجموعہ کا اعلان کتاب میں درج ہے، جس کا انتظار رہے گا۔ان کی غزلوں کے کچھ اچھے شعر : ؂
کیا جئے گی بھلا وہ سہاگن میاں جس کی چھاتی پہ بیٹھی ہو سوتن میاں
ٹھوکریں دفتروں کی وہ کھانے لگی جیسے ڈگری ہو کوئی بھکارن میاں
بارا مہینے چٹنی روٹی کھا کو جی رئی جنتا یہ لیڈر لیکن روز اُڑارئیں مچھلی بھی بریانی بھی
سُنّے چاندی جیسی چھوریاں اپنے گھر میں ویسیچ ہیں سوکاراں کی بک رئی یارولنگڑی بھی اور کانی بھی
جوتے سسرے کے چاٹتا کیا ہے گھر جمائی تجھے ہو اکیا ہے
ساری دنیا یہ بھول بیٹھی ہے شرم کیا چیز ہے حیا کیا ہے
اس غزل (ردیف نمک)کے مصرعوں کی بندش چست ہے اور اس میں شاعر کا فن پختہ نظر آتا ہے:
زخم پر میرے چھڑکنے گر ہے تو لایا نمک یہ بتا دے انّپورنا ہے کہ ہے ٹا ٹا نمک
زخم پر یوں مت رگڑ چبھتا ہے یہ موٹا نمک گر لگانا ہی نمک ہے تو لگا پِسا نمک
محافظ بن کے آتے ہیں خزانہ مار دیتے ہیں یہ لیڈر دیش کے منہ پر طمانچہ مار دیتے ہیں
نہ جانے کون ہیں مسجد میں وہ اللہ کے بندے جو ہر جُمّے کو بس میرا ہی جوتا مار دیتے ہیں
سراجؔ کی غزل کایہ شعر بھی خوب ہے:
ہم غریبی میں غریباں سے غریباں ہو کو ہئیں ہَور تونگر سے تونگر ہے تونگر دیکھ با
ان کی نظموں میں حالات حاضرہ کی سرسراہٹ صاف سنائی دیتی ہے۔معاشرے میں پھیلی بے راہ رویوں، سیاست کی گندگیوں اور جرائم کی نگری میں ہونے والے واقعات کا پرتو ان کی نظموں میں صاف جھلکتا ہے۔’’بلیک اینڈ وائٹ‘‘ میں رزق حلال کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے تو’’مسٹیک‘‘ میں ایک مولانا کی فکری پستی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اسی طرح’’طلاق‘‘ میں ایک بے راہ رو خاتون کو عدالت میں دیے جانے والے عبرت انگیز فیصلے کا ذکر بڑے عبرت ناک طریقے سے کیا گیا ہے۔اس نظم کاایک اچھا شعر :
فرمایا جج نے غور سے سن کر یہ پوری بات گھیری اُجالے کو ہے، بھیانک اندھیری رات
’’دے تڑی دے رے دنا دن‘‘ میں حالاتِ حا ضرہ کی خرابیوں پرکئی طرح سے وار کیا گیا ہے۔ان کی نظمیں ’’پانی‘‘،’’ شاعر اعظم‘‘،’’ منشاء‘‘،’’آج کا سیاست دان ‘‘،’’سال نو‘‘، معاشرے کے مختلف ذمہ داروں جیسے ٹیچر،شاعر،غنڈہ، ڈاکٹر،کی جانب سے کی گئی منظوم تقریریں بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہیں۔نظم’’سیاسی شاعر کی تقریر‘‘میں شاعرکا حوصلہ جۂت مندانہ ہے۔ طنزملاحظہ کیجئے:
یہ کوّے بھی میرے نیتا سے کتنے ملتے جلتے ہیں کہیں ہڈی نظر آتے ہی جھپکا مار دیتے ہیں
یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرہ میں بزرگوں نے ذمہ دارانہ زندگی گزارنا چھوڑ دی ہے۔ یعنی پورے آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ملاحظہ ہو:
نئے دور کی چھاپ تو دیکھو بڈّوں پر بھی کیسی ہے ہلّو ڈسکو فلم کو جا رئیں نانا بھی اور نانی بھی
سیاسی غنڈے کی تقریر کے ان شعروں میں واقعی ایک غنڈہ دندنا تا ہو ا نظر آتا ہے:
کام ایسا کرکے دکھلائے گا ہم صرف گھپلا ہی کرے گا میگزمم
خوش رہے گا سب ہمارے کام پر بیس مرڈر ہیں ہمارے نام پر
میگزمم کا جواب نہیں۔
نظم’’بلیک اینڈ وہائٹ‘‘ میں اسلاف کی پیروی کا درس کس خوبصورت انداز میں دیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیے:
دینے والا ہزار دیتا ہے رزق پروردگار دیتا ہے
بہر کیف ان کی نظموں میں طنزا ور مزاح ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے معنی آفرینی کی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔
اسی طرح ان کے قطعات میں بھی طنز و مزاح کے تیر جم کر برستے ہیں۔ مشاعروں میں یہی قطعات ان کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ان کا کمال یہ ہے کہ کسی قطعے میں تین مصرعوں تک تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہتا ہے لیکن چوتھے مصرعے میں جب کلائمکس پر پہنچ جاتے ہیں تو غضب ڈھادیتے ہیں۔دراصل کسی قطعہ کی کامیابی کا یہی راز ہے۔ملاحظہ فرمائیے:
جس کی نیت ہے اجالے چھین لینا غیر کے
اپنے گھر کی موم بتّی ڈھونڈتا رہ جائے گا
دوسروں کی بیٹیوں کو گھورتا رہتا ہے جو
ایک دن خود اپنی بیٹی دھونڈتا رہ جائے گا
*
اندھیرا ہی اندھیرا ہے ہمارے چار سو یارو
نظر آتے ہیں جو ہم کو دکھاوے کے اجالے ہیں 
کوئی لیڈر اگر اُردو کے حق میں بات کر تا ہو
سمجھ لینا وطن میں پھر الیکشن ہونے والے ہیں
112صفحات پر مشتمل زیر نظر کتاب میں ایک حمد ، ایک نعت ،چھ غزلیں، پچاس قطعات اور مختلف عنوانات پر اکیس نظمیں شامل ہیں۔کتاب میں عرض ناشر کے سوا کسی اور کا مضمون شامل نہیں ہے، خود صاحبِ کتاب نے اپنے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ شاعر کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے قارئین کو آزاد چھوڑدینے کی یہ ایک اچھی روش ہے۔’’ انجمنِ قدیر‘‘ کے ذمہ داران قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اپنے نوجوان شاعر کی پذیرائی میں فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مجلد کتاب کا گیٹ اپ سفید کاغذ اور جاذب نظر سرورق کے معنی خیزڈیزائن کی وجہ سے بہت بڑھ گیا ہے۔ اس لیے ایسی خوبصورت کتاب کے عوض ایک سو پچیس روپے کی ادائیگی جیب پر بار نہیں ہونی چاہیے۔787، جمعہ پیٹھ ، شولاپور413002 مہاراشٹرا کے پتے پرسراج شولاپوری سے یہ کتاب حاصل کی جاسکتی ہے یا ان کے موبائل پر ربط قائم کیا جاسکتا ہے:09923156033۔
ملت کے اس وفا شعار شاعر سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔

«
»

میر تقی میرؔ اور عشق

انقلاب کیسے آئے گا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے