وزیر اعظم کی کشمیر نوازی

اس بار دیوالی کے دن وزیر اعظم کا پروگرام ایسا پروگرام تھا کہ ہندو اُسے چاہے جس نظر سے دیکھتے مگر مسلمانوں کو اس نظر سے دیکھنا چاہئے تھا کہ اس سے بڑا کوئی احسان نہیں ہوسکتا تھا جو انہوں نے کیا ہے۔ انہوں نے سیلاب سے متاثر ہونے والوں سے ملاقات کی اور 570 کروڑ روپئے مکانات کی تعمیر کے لئے دینے کا اعلان کیا۔ قرآن میں کہا گیا ہے: ’’ہل جزاء الاحسان الّا الاحسان‘‘ وزیر اعظم نے 570 کروڑ روپئے کا اعلان اس وقت کیا ہے جب جمعیۃ علماء کے دونوں بازو اور ہمارے جیسے ٹوٹے پھوٹے بے اثر گھر گھر کنڈی بجا رہے ہیں اور دردر ہاتھ پھیلا رہے ہیں کہ ایک کمبل جو کچھ ہے اور گھروں میں فاضل گرم کپڑے جو بھی ہوں کشمیر کے لئے دے دو ہم اسے بھجوا دیں۔
ہم نے کھانے کا سامان بھجوایا تب اور قربانی کے جانوروں کی رقم بھجوائی تب اور اب کمبل اور مکان کی مہم چلا رہے ہیں تب اندازہ ہورہا ہے کہ یہ کام ہزاروں لاکھوں کروڑوں کا نہیں بلکہ پانچ سو کروڑ یا ہزار کروڑ کے کرنے کا ہے اس لئے کہ یہ نہ کسی محلہ کی بات ہے نہ کالونی کی نہ کسی گاؤں کی اور نہ قصبہ یا شہر کی بلکہ یہ پورے ایک صوبہ کی بات ہے جہاں کروڑوں کی آبادی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جس نے ہمارے پھیلے ہوئے ہاتھ پر کچھ رکھا اس کی کیسی عظمت ہمارے دل میں ہے اور جس نے دل کھول کردیا اس کے لئے کیسی دعائیں نکلی ہیں۔ نریندر مودی بے شک وزیر اعظم ہیں لیکن یہ اُن کے اختیار میں ہے کہ وہ تباہ و برباد ہونے والوں کی کتنی مدد کریں۔ وہ جب پہلی بار دورہ پر آئے تھے تو ایک ہزار کروڑ روپئے دیئے گئے تھے پھر انہوں نے وزیر اعظم فنڈ میں رقم دینے کی اپیل کی تو کتنی رقم آئی اور اب وہ آئے ہیں تو 570 کروڑ روپئے دے گئے ہیں اور تاکید کی ہے کہ یہ رقم اس کے ہاتھ میں یا اُس کے بینک کھاتے میں پہونچے جس کا مکان تاراج ہوگیا ہے۔
وزیر اعظم کو یہ صراحت اس لئے کرنا پڑی کہ وہ جانتے ہیں کہ ملک میںیہ بیماری عام ہے کہ مرکزی حکومت صوبوں کو روپئے دیتی ہے کہ سڑکیں بنواؤ تاکہ آنا جانا آسان ہوجائے اور صوبائی حکومت ایک سڑک بنوا لیتی ہے اور باقی روپئے الیکشن میں کامیاب ہونے کے پروگراموں میں لگا دیتی ہے ہم مسلمانوں سے زیادہ اور کسے اس کا تجربہ ہوگا کہ اقلیتوں کے لئے کروڑوں روپئے صوبوں کو دیئے جاتے ہیں وہ یا تو سیاسی سرگرمیوں میں خرچ ہوجاتے ہیں یا سال بھر کے بعد واپس چلے جاتے ہیں کہ مسلمان روپئے لینے ہی نہیں آئے۔ کشمیر میں اس وقت الیکشن بھی سر پر منڈلارہے ہیں۔ جس پارٹی کے ہاتھ میں حکومت ہے وہ لوک سبھا کے الیکشن میں بری طرح مسترد کردی گئی ہے۔ ایسی حالت میں اگر مودی جی کو یہ بدگمانی ہے کہ وہ جو مکانوں کے لئے پیسے دے رہے ہیں وہ کسی اور مد میں خرچ نہ ہوجائیں تو غلط نہیں ہے۔
اس وقت کشمیر کی حالت یہ ہے کہ کہیں کہیں نام کے لئے دکانیں کھل رہی ہیں اس لئے کہ بازار تو سیلاب کھا گیا اسکول بند ہیں مودی جی نے یہ بھی کہا ہے کہ سب سے پہلے بچوں کی کتابوں، کاپیوں اور لکھنے کے سامان کا انتظام کیا جائے تاکہ ان کی تعلیم کا سال برباد نہ ہو۔ ایسی حالت میں بوڑھے گیلانی حریت کانفرنس کشمیر لبریشن فرنٹ دخترانِ ملت اور بار ایسوسی ایشن نے اگر ہڑتال یا بند کا نعرہ دیا تو اس سے بڑی احسان فراموشی اور اس سے زیادہ عوام دشمنی اور کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی مدد کرنے آئے اور بھوکے پیاسے ننگے جسم والے نعرہ لگائیں کہ واپس جاؤ۔
ہم پڑھنے والوں کے لئے اجنبی نہیں ہیں ہزاروں تو پہلے تھے اب تو لاکھوں ایسے ہیں جو اپنے ملک میں ہی نہیں دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں میں پڑھنے جاتے ہیں اور وہ سب گواہ ہیں کہ پوری عمر میں کبھی کسی کی شان میں قصیدہ نہیں پڑھا۔ موجودہ وزیر اعظم کو تو حلف لئے ابھی پانچ مہینے ہی ہوئے ہیں اس مختصر سے عرصہ میں ہی جب کبھی کوئی بات غلط محسوس ہوئی کھل کر لکھا اور ضرورت پڑی تو پھر لکھیں گے لیکن کشمیر کے لئے انہوں نے جو کیا ہم اسے احسان مان کر ان کا شکریہ ادا کریں گے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ کشمیر اپنی خصوصیات کی وجہ سے پورے ملک سے الگ ہے اور وہ ملک کا اکیلا ایسا صوبہ ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس بارے میں بھی منفرد ہے کہ وہ وزیر اعظم کو خوش آمدید کہنے کے بجائے واپس جاؤ کا بھی نعرہ لگا دیتا ہے اس کے باوجود ان کا آنا اور مدد کے لئے رقم دینا اور اس کی فکر کرنا کہ جس کا حق ہے اسے ہی ملے کسی دوسری مد میں نہ خرچ ہو۔ احسان ہے اور ہم مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان کا شکریہ ادا کریں اور اگر رقم خردبرد ہو تو اس کی انہیں اطلاع بھی کریں۔
پنڈت نہرو نے کشمیر کے ساتھ جو کچھ کیا ہے ہم نے ہمیشہ اس پر تنقید کی ہے نہروجی نے جو کچھ شیخ عبداللہ کے ساتھ کیا اسے بھی کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا لیکن اب ہماری بھی سنجیدگی سے رائے یہی ہے کہ کشمیر اپنے کو ہندوستان سے وابستہ کرلے اور ہندوستانی حکومت سے ہمیں یہ کہنا ہے کہ اسے کشمیریوں سے جو سوتیلا تعلق ہے وہ ختم کردے اور یہ بات وزیر اعظم خوب جانتے ہیں کہ گجرات میں کتنے کشمیری نوجوان موت کی نیند سلادیئے گئے اور الزام لگایا کہ وہ مودی جی کو قتل کرنے آرہے تھے۔ اب مودی جی وزیر اعظم ہیں انہیں کوشش کرنا چاہئے کہ کشمیری ان سے محبت کریں اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ان کے ذاتی دفتر میں بھی دوچار کشمیری ہوں اور وہ کشمیریوں پر بھروسہ کریں۔ یہ باتیں تو دیر طلب ہیں اور یہ جب ہوں گی جب دونوں ہاتھوں سے تالی بجے گی۔ فی الحال ہڑتال کا نعرہ دینے والوں کے منہ پر تھوک دینا چاہئے اس لئے کہ یہ شریعت کے خلاف ہے۔ اور احسان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے وہ کوئی بھی کرے اور دعا کرنا چاہئے کہ خدا مودی کو اور توفیق دے کہ وہ اور زیادہ مدد کریں تاکہ کشمیر جلد سے جلد کشمیر ہوجائے۔

«
»

میر تقی میرؔ اور عشق

انقلاب کیسے آئے گا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے