وہ نو سو گیارہ بار مدد کو پکارتا رہا:

گرچہ یہ فہرست سویس بنک میں کالا دھن جمع کرنے والوں کی فہرست کے مقابلے مختصر تھی..ڈاکٹر ذہین کے ہاتھوں بلکہ انکے دماغ کے ہاتھوں شفا پانے والوں کی فہرست بھی طویل تھی، جس میں بر صغیر کے اہل اقتدار سے لے کر امرا و شرفا اور بڑے بڑے سرمایہ دار اور انکے اہل و عیال کے ناموں کے علاوہ مغربی اہل اقتدار و سیاست اور امرائے سلطنت و جاہ و حشمت بھی شامل تھے…..مستند و معتبر اہل خبر و نظر کہا کرتے کہ انکے نفسیاتی و سیاسی راز ڈاکٹر ذہین کے سینے میں محظوظ ہوں یا نہ ہوں لیکن دماغ میں ضرور محظوظ ہونگے ….الغرض ڈاکٹر ذہین کو” برین ہیمریج ” ہونے پر ایمرجینسی میں لندن لے جایا گیا تھا.. وہی لندن جہاں انکی ذہنی علمی اور نفسیاتی پرورش ہوئی تھی….یہ بھی سننے میں آیا کہ ان کے نصف جسم پر فالج کا حملہ ہونے کے آثار بھی ملے تھے …. انکا دماغ، زبان، آنکھ اور کان سب اس حملے کا شکار ہوئےتھے ….اہل فکر و نظریہ سن کر پریشان ہوگئے کہ کان اور آنکھ پر فالج کا نصف حملہ تو پھر بھی اتنا نقصان دہ نہیں ہے کہ دو آنکھوں اور دو کانوں میں سے ایک تو کارگر ہوسکتے ہیں، لیکن دماغ اور زبان پر ایسا حملہ انکی کارگردگی پر مکمل طور سے سوالیہ نشان لگا سکتا ہے….آخر کار ڈاکٹر ذہین کو لندن کے ماہرین کی دیکھ بھال میں دے دیا گیا جنہوں نے جدید ترین سائینسی اصولوں اور آلات کو بروئے کار لا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ انہیں کیا صدمات پہنچے تھے.. اور یہ دہشت گردانہ حملہ ان پر کس نے اور کیونکر کیا تھا یا کروایا تھا….ان کے اعضا کو مختلف سائینسی آلات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور انکے دماغ سے ایک ایسا آلہ منسلک کردیا گیا جو انکے دماغ سے بات چیت کر انکی یادداشت سے تمام تفاصیل کمپیوٹر میں منتقل کرتا….. جسے "ڈی کوڈ” کر کے برٹش ماہرین حیران ہورہے تھے اور مقامی حکومت کو بروقت خفیہ طور پر اطلاعات فراہم کررہے تھے ..اور جسے حکومت "کلاسیفائڈ” کا ٹھپہ لگا کر ماضی کے قید خانوں میں مکفل کر رہی تھی… انکی اس خفیہ کارگردگی کی خبر روس اور امریکہ کو بھی ہورہی تھی جسے اسرائیلی خفیہ ایجنٹ امریکہ کو مفت میں اور روس کو دیگر خفیہ خبروں کے عوض فروخت کر رہے تھے…. اچانک خبر آئی کہ ڈاکٹر ذہین کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں اور وہ شاید اب اس دنیا میں نہیں رہیں گے … بر صغیر کی حکومتوں نے اپنے اپنے سفارتی رابطوں سے ڈاکٹر ذہین کی باز یابی کی بہت کوششیں کی لیکن وہ کارگر نہ ہوسکی…..چند اولو العزم ٹی وی میڈیا نے بھی اپنے اپنے طور پر "ڈنک مارنے” کی کوششیں کر کے دیکھ لی لیکن کوئی بھی "اسٹنگ آپریشن” کامیاب نہ ہوسکا …. ڈاکٹر ذہین کے کمرے میں چرند پرند کجا چاند و سورج کا گزر بھی ناممکن کر دیا گیا تھا..اور سارے آپریشن ناکام ہوچلے تھے یا ناکام کر دئے گئے تھے.. ..بلآخر امریکی حکومت کے ایک باغی "کمپیوٹر ہیکر” یا "برقی نقب زن” نے خبر اچک لی، اور ایک کثیر رقم کے عوض میڈیا کانفرنس کرنے کی پیشکش بھی کر دی… ہر کوئی اسے کروڑوں ڈالرز کی رقم پیش کر رہا تھا اور حقائق جانناچاہتا تھا ….برقی نقب زن نے اس شرط پر رضامندی ظاہر کی کہ وہ حقائق کی تفصیل نہیں جانتا بلکہ صرف دو باتیں جانتا ہے…. مآل آخر عوام کی مانگ پر میڈیا نے اسے اسکرین پر پیش کردیا…برقی نقب زن نے کہا… اول یہ کہ تقریبا ایک دہائی قبل ٢٠١١ میں ہی ڈاکٹر ذہین کا نصف جسم فالج کے حملے کا شکار ہوچکا تھا….. اس لئے اس دوران انکے ہاتھوں نفسیاتی شفا پانے والے تمام مریضوں کی صحتیابی مشکوک ہوجاتی ہے…. دوم یہ کہ کمپیوٹر انکے دماغ سے مسلسل ایک ہی کوڈ اخذ کررہا تھا جو ریاضی کے تین عدد پر مشتمل تھا…. اور جسے امریکی عوام ایمرجنسی مدد کے لئے استعمال کرتی رہی ہے… اور وہ کوڈ ہے نائین ون ون …. .مغربی ماہرین کاکہنا ہے کہ وہ سب ڈاکٹر ذہین کے شاگرد ہیں اور ان کا ذہن اس بات کو قبول نہیں کرتا ہے کہ اس کوڈ سے ڈاکٹر ذہین پر ہونے والے فالج کے حملے کا کوئی تعلق تھا …البتہ یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا ہے کہ وہ تقریبا پچھلی ایک دہائی سے نو سو گیارہ بار مسلسل نفسیاتی مدد کے لئے پکار رہے تھے ….


لاوارث وراثت :

بر صغیر کی جمہوری عدالت میں ایک مقدمہ کا آج فیصلہ کن دن تھا…..خالی کرسیاں منصف کا منہ چڑا رہی تھیں اور منصف خالی کرسیوں کا… برسہا برس سے ایک مقدمہ چلاآ رہا تھا جسے کوئی مسلم پرسنل لا تو کوئی اسلامک لا کہہ کر پکارتا تھا …. کئی ماہرین کی اس مقدمہ میں تبدیلی ہو چکی تھی جن میں اکثر وہ معزز ہستیاں تھیں جو اس قانون میں مہارت تو رکھتی لیکن اس میں عقیدہ نہیں رکھتی تھیں، اور جو ہستیاں عقیدہ رکھتی تھیں وہ مکمل مہارت نہیں رکھتی تھیں….القصہ مختصر ایک باپ یہ وصیت کر دار فانی سے کوچ کر گیا تھا کہ اسکی تمام تر املاک اور وراثت کی حق دار وہ اولاد ہوگی جو مکمل طور سے باپ کے عقائد پر قائم رہے گی، اور صرف اسی کے نقش قدم پر چلے گی…لیکن اولاد اپنا حق ثابت نہیں کرپائی….بے شمار ثبوتوں کی بنیاد پر مرحوم باپ کو مسلمان تو ثابت کیا جا چکا تھا لیکن بیٹوں کے اپنے اپنے مسلک پر اڑے رہنے سے فیصلہ طول پکڑتا گیا…اور جس کی وجہ سے باپ کے عقائد بھی شکوک کے دائرے میں آتے گئے…..ہر ایک بیٹے نے خود کو وراثت کا اہل ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی….اپنی اپنی مساجد کے ایمہ سے لے کر اداروں کے مولیان و ٹرسٹیان سے شہادت دلوائی گئی …عدالت کوحیرت تو تب ہوئی جب بیٹوں نے اپنے اپنے درزیوں، نائیوں، میراثیوں، شبراتیوں، گوالوں، عطر فروشوں، قصابوں، نکاح خوان اور سہرا و مرثیہ خوان حضرات بلکہ اپنے اپنے کتبہ نگاروں اور گورکنوں سے بھی عدالت میں اپنے باپ کو اپنا، خود کو اپنے باپ کا اور وراثت کا اہل ثابت کرنے کی ہر ممکن کوششیں کیں اور خوب گواہیاں بھی پیش کیں ……لیکن وصیت کی اول شرط کے مطابق عقائد کا مسئلہ ہی عدالت میں تنازعہ کا باعث بن گیا ….چہ جائیکہ نقش قدم پر چلنے کی گواہی دی جاتی اور ثبوت پیش کئے جاتے…منصف نے فیصلہ سنا دیا کہ مرحوم کی اولاد وصیت کی شرائط پرپوری نہیں اترتی اس لئے مرحوم کے عقائد و املاک کو لا وارث قرار دیا جاتا ہے…. اور اسے حکومت کی تحویل میں دے دیا جاتا ہے…لاوارث عقائد و املاک کے لئے جمہوری قوانین میں بہتر انصاف مہیا کیا گیا ہے……اب یہ جمہوری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ورثہ کو جیسے چاہے استعمال میں لائے….

«
»

اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

تھکن دور کرنے والی غذائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے