اپنی تحریروں کے آئینے میں غوث سیوانی

وہ اب تک دوہزار سے زیادہ مضامین لکھ چکے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں ٹی وی چینلوں کے لئے رائٹنگ اور پروڈکشن بھی کرچکے ہیں۔ بعض ٹی وی پروگراموں میں انھیں اینکر کے طور پر دیکھا گیا تو بعض میں وہ انٹرویو کرتے ہوئے نظر آئے۔ انھوں نے بیرون ملک کے چینلوں کے لئے بھی پروگرام بنائے ہیں۔ جب کہ عنقریب دوردرشن پر ’’ غزل اس نے چھیڑی‘‘ میں وہ معروف شاعر جگرؔ مرادآبادی کے رول میں دکھائی دینگے۔ راجدھانی دلی میں رہائش پذیر اس قلم کار کا اصل کارنامہ اس کی کتابیں ہیں جن کی تعداد ۱۳ تک پہنچ چکی ہے اور ان کی ہزاروں کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ ان کی بیشتر کتابیں تصوف کے موضوع پر ہیں جن کے ذریعے وہ سماج کو جوڑنے کا کام کررہے ہیں اور نفرت بھری اس دنیا میں محبت پھیلانے میں حصہ دار بن رہے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ موجودہ دور کے تمام مسائل مادیت اور جدیدیت کے شکم سے جنم لے رہے ہیں اور ان کا حل صوفیہ کی تعلیمات میں موجود ہے۔انھوں نے تصوف کو عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی کے ساتھ چونکہ وہ شاعر بھی ہیں لہٰذا ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے ۔ ان کا ایک بڑاشعری کارنامہ ہے ،فارسی کے گیارہ اساتذہ شعراء کی منتخب غزلوں کا منظوم ترجمہ، جو دنیا میں پہلی بار ہوا ہے اور دوآتشہ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔یہاں ہم ان کی چند کتابوں کا تعارف پیش کرتے ہیں۔ 
جدید دنیا کے مسائل اور تصوف
۲۸۰ صفحات کی اس کتاب میں آج کے اہم عالمی مسائل تشدد، دہشت گردی،بدعنوانی، حقوقِ انسانی کی پامالی، عالمی معاشی بحران، ڈپریشن وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان کا حل صوفیہ کی تعلیمات میں ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انھوں نے اس بات کی شکایت کی ہے کہ آج مدرسوں کے نصاب تعلیم میں بھی تصوف شامل نہیں ہے، جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے ملک کے تمام اسکولوں میں صوفیہ کی اخلاقی تعلیمات کو شامل کیا جائے ، اس سے طلبہ کی نفسیات کو پاکیزہ بنایا جاسکتا ہے اور پورے ملک سے بڑھتے جرائم اور حقوقِ انسانی کی پامالی کو روکا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اس کتاب کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ محبت کو اگر سماج میں عام کیا جائے تو نفرت خود بخود کم ہوجائے گی اور اس سے سماجی بندھن مضبوط ہوگا۔ وہ ایک جگہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں:
’’اللہ پاک کے نزدیک وہ دل بہت ہی پیارا ہے جو اپنے بھائیوں پر زیادہ نرم اور مشفق ہے۔‘‘
کتاب کی زبان بہت ہی آسان ہے جو کم پڑھا لکھا آدمی بھی سمجھ سکے اور موقع محل کی مناسبت سے اشعار کے استعمال نے شگفتگی میں اضافہ کردیا ہے۔تصوف کے موضوع پر یہ اپنی طرح کی پہلی اور واحد کتاب ہے۔
تصوف اور کشمیری صوفیہ
یہ کتاب ۴۵۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ ابتدائی صفحات میں تصوف کیا ہے؟ اس سوال پر گفتگو کی گئی ہے اور باقی صفحات میں کشمیر میں تصوف کے انقلابی رول پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کشمیر کی تاریخ یہ رہی ہے کہ یہاں چند صدی قبل تک کوئی اسلام کا نام لیو انہ تھا مگر صوفیہ نے یہاں قدم رکھا اور عوام میں تبلیغ دین کا انقلابی کام کیا جس کے سبب آج یہاں توحید کا بول بالا ہے۔ صوفیہ نے صرف اسلام کی تعلیمات سے ہی لوگوں کو روشناس نہیں کرایا بلکہ انھیں ایسی صنعتیں اور آرٹس بھی سکھائے جو آج کشمیر کی پہچان بن گئے ہیں۔ اس کتاب پرصحافی و ادیب ڈاکٹر افضل مصباحی کا تبصرہ یوں ہے :
’’پوری کتاب عام فہم اور سادہ اسلوب میں محققانہ رنگ و آہنگ کے ساتھ ترتیب دی گئی ہے، حوالوں کا بھرپور التزام ہے، ہر موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، کسی بھی جگہ قاری کو تشنگی کا احساس ہونے نہیں دیا۔‘‘ 
کتاب کا پیش لفظ ہمدرد یونیورسیٹی ، نئی دہلی میں شعبۂ اسلامک سٹڈیز کے صد ر ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم نے لکھا ہے جو خود اپنے آپ میں اہمیت کا حامل ہے۔ 
انوارِ تصوف
صوفیہ کی تعلیمات میں اسلام کا جمالیاتی رخ پیش کیا گیا ہے اور انسانوں کو خالق ومالک سے جڑنے کی طرف مائل کیا گیا ہے۔ آج ہم مذہب کو احکامات کے حوالے سے دیکھتے ہیں اوراختلافات میں الجھ کر اصل مقصود سے دور رہ جاتے ہیں۔ صوفیہ کی تعلیمات ہماری نظر کو ان اختلافات سے ہٹاکر ہمیں اصل کی جانب مائل کرتی ہیں۔’’ انوارِ تصوف‘‘ جو کہ ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہے صوفیہ کی تعلیمات کا نچوڑ ہے ، جسے صوفیہ کی قدیم کتابوں، ملفوظات اور مکتوبات سے جمع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں خاص طور پر امام تصوف شیخ عبدالکریم قشیری، سید علی ہجویری(داتاگنج بخش)، مولانا جلال الدین رومی، شیخ عبدالقادرجیلانی ،امام محمد غزالی، شیخ نظام الدین اولیاء، مخدوم شرف الدین یحیٰ منیری اورمجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی علیہم الرحمہ کی تعلیمات کے کچھ خاص حصے مختلف حوالوں سے پیش کئے گئے ہیں ۔ انداز تحریر دلنشیں ہے جو قاری کو مسحور کردیتا ہے۔ ابتدائیہ کا ایک حصہ ملاحظہ ہو:
’’حسنِ ازل نے اپنی صراحی سے شرابِ عشق جن کے ساغروں میں انڈیلی وہ بیخود و سرشار ہوئے، مست مئے اخیار ہوئے، صاحب دلِ بے قرار ہوئے۔ کوئی رومیؔ کی شکل میں امامِ عاشقاں ہوا تو کوئی قشیریؔ کی صورت سردارِ کاروانِ عرفاں ہوا۔ کوئی غزالیؔ کے روپ میں صاحب دستار ہوا تو کوئی علی ہجویری کی صورت داتا ئے گنج بے شمار ہوا۔ کوئی نظام الدین کے پیکر میں محبوبِ کردگار ہوا تو کوئی شرف الدین کے سراپا میں مخدومِ بہار ہوا۔ کاروانِ محبت کے انہیں شہسواروں کو دنیا ’صوفی‘ کے لقب سے یاد کرتی ہے اور عشق و عرفان کی اسی تحریک کو ’تصوف‘ کہا جاتا ہے۔‘‘
دوآتشہ
اردو شاعری پر فارسی کے زبردست اثرات ہیں کیونکہ اردو کے شعراء پہلے پہل فارسی میں ہی شعر کہا کرتے تھے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فارسی شاعری کے بطن سے اردو شاعری نے جنم لیا ہے۔ البتہ آج کے بیشتر اردو داں فارسی سے واقف نہیں۔ فارسی شاعری کا اردو میں ترجمہ بھی ہوتا رہا ہے مگر تمام ترجمے نثری تھے لہٰذا شاعری کے مطالعے کا جو لطف ہے اس سے عام اردو داں محروم ہوجاتے تھے۔ اردو میں پہلی بار غوث سیوانی نے فارسی کے گیارہ اساتذہ شعراء کی منتخب غزلوں کا منظوم ترجمہ کیا ہے اور اس خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے کہ فارسی کا ترجمہ بھی ہوجائے اور اس کا حسن بھی باقی رہے۔ نظامی ، خاقانی ،عطارؔ ، رومی، حافظ، سعدی، عراقی ،خسرو، عرفی ،صائب اور بیدل جیسے شاعروں کے خیالات کو اردو نظم میں پیش کرنا ایک چیلنج بھرا کام تھا مگر انھوں نے اسے بہت خوبی کے ساتھ کیا ہے۔ ترجمہ شدہ چند شعر ملاحظہ ہوں:
سو سال کا سفر ہے راہِ وصالِ یار
لیکن جو تو بلائے تو بس نیم گام ہے
خاقانیؔ 
سبزتر وہ پیڑ شعلے سے ہوا
برق و آتش سے کھلا ہے گلستاں
رومی
میں نے کہا کہ عہد وفا پورا کیجئے
کہنے لگے اس عہد میں باقی وفا نہیں
عجیب زلفِ معنبر ہے فتنۂ ساماں
تمہارے ساتھ بھی رہ کر کے جو پریشاں ہے
سعدیؔ 
ترا خیال ہے شب ہے قمر کو کون تکے
دراز رات ہے لیکن سحر کو کون تکے
خسروؔ 
طاقِ حرم ہے ٹھیک نہ بتخانہ خوب ہے
جس جا ہے اس کا جلوۂ جانانہ خوب ہے
عرفیؔ 
برگد کی چھاؤں
فارسی سے منظوم ترجمے کے علاوہ بہ طور شاعر غوث سیوانی کے اپنے خیالات بھی ہیں جو ان کے شعری مجموعے ’’برگد کی چھاؤں‘‘ میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہ کتاب اردو کے ساتھ ساتھ دیوناگری رسم الخط میں بھی ہے اور زبان بھی بے حد آسان ہے، جسے ایک ساتھ اردو اور ہندی دونوں کہہ سکتے ہیں۔ بلند خیالات کو آسان لفظوں کا پیرایہ دینے کی کامیاب کوشش اس مجموعے میں نظر آتی ہے۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں۔
پوربی پون نہیں، بگیا نہیں، کویل نہیں
کیوں تمہارے شہر میں برگد نہیں پیپل نہیں
کبھی خطا کی طرح تو کبھی سزا کی طرح
زندگی ہم نے گزاری ہے بددعا کی طرح
وہ میرے دل میں تھا میرا نہیں تھا
کبھی بھی فاصلہ ایسا نہیں تھا
بھیگی بھیگی برکھا رت کے منظر گیلے یاد کرو
دو ہونٹ رسیلے یاد کرو، دو نین کٹیلے یاد کرو
یہ اور اس قسم کے بہت سے اشعار اس مجموعے میں موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آسان الفاظ میں بھی بلند خیالات پیش کئے جاسکتے ہیں۔
اوپر مذکور کتابوں کے علاوہ بھی غوث سیوانی کی کچھ کتابیں بچوں کے لئے شائع ہوئی ہیں اور ’’اکیسویں صدی کی ضرورت، قرآن وسیرت‘‘ ’’امن کے سفیر‘‘اور کچھ دوسری کتابیں زیر طباعت ہیں۔ ان کتابوں کوبہترین کاغذ اور خوبصورت ڈایزائنوں کے ساتھ عرشیہ پبلیکشنز ،نئی دہلی نے شائع کیا ہے اور مکتبہ امام اعظم، ۷/۴۲۵ مٹیا محل ، دہلی ۶ سے انتہائی کم قیمت پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 

«
»

اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

تھکن دور کرنے والی غذائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے