وہ ریل کہاں گئی ؟

گاؤں و چھوٹے قصبات میں یہ کھیل کبھی کبھی دیکھنے کو مل جاتا ہے فلموں میں ریل کے بہت خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ہیرو ہیروئن کے رومانس ، دوستی ، ملنا اور مل کر بچھڑنے کے دلکش نظارے یادداشت کا حسہ بن گئے ہیں ۔ڈاکوؤں کا ریل کو لوٹنے کے سین ہماری قدیم فلموں کی یادیں ہیں ۔
ریل ملک میں آمد و رفت کا سستا اور سب سے بڑا ذریعہ تھا ۔گاندھی جی نے آزادی کی تحریک کے لئے اسے مفید اور کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ۔ گاندھی جی ہمیشہ تیسرے درجہ میں سفر کرتے تھے اس زمانے میں تیسرے درجہ میں سفر کرنے والے ملک کے عام لوگ ہوتے تھے ۔ گاندھی جی نے آزادی کی مہم کو اسی کے ذریعہ عوام تک پہنچایا ،۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ ریل میں بڑی جلدی دوستی ہو جاتی ہے سفر کرنے والے ایک دوسرے کو نہ پہلے سے جانتے ہیں نہ انہوں نے کبھی ایک دوسرے کو دیکھا ہوتا ہے ۔یہ کسی ایک جگہ کے بھی نہیں ہوتے پھر بھی اپنوں کی طرح پیش آتے ہیں اکثر ریل کی دوستی ریل تک ہی محدود ہوتی ہے ۔ بعد میں کوئی کسی کو یاد نہیں رکھتا ۔سفر میں دنیا بھر کے مسائل پر بات چیت ، بحث و مباحثہ اور تبادلہ خیال ہوتا ہے یہ سب بھی ٹائم پاس کے لئے ہوتا ہے البتہ اگر کوئی بات یا کوئی شخص ایسا مل جاتا ہے جو آپ کو متاثر کردے تو پھر وہ یاد بھی رہتا ہے ۔ اس کی بات یا نظریہ کئی اور لوگوں کے ذریعہ بھی آپ کے سامنے آجائے تو پھر انسان اس کے ساتھ جڑ جاتا ہے گاندھی جی نے اس کا فائدہ اٹھایا اور آزادی کی سوچ کو گھر گھر تک پہنچانے کی کوشش کی ۔اسی عوام نے انہیں باپو بنا دیا ۔
مودی کے ذریعہ ریل میں کی گئی خیر سگالی کی باتیں اس وقت سامنے آئیں جب وہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بننے کے دعویدار بنے ۔ ان واقعات نے عوام کے سامنے ان کی انسانی ہمدری کو پیش کیا لوگ ان کو دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کی طرف مائل ہونے لگے جس کا فائدہ انہیں پارلیمانی انتخابات میں ملا وہ وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچ گئے ۔ ریل کم وقت میں زیادہ لوگوں تک باتیں پہنچانے کا اچھا ذریعہ ہے ۔ آج مودی بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں گے ۔
طلباء یا روزگار کے لئے روزانہ سفر کرنے والوں کی زندگی میں ریل لائف لائن کی طرح ہے یہ سیاسی پارٹیوں کے لئے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ریل پر قبضہ کرکے پارٹیوں کی ریلیوں میں بھیڑ کو لانے کا رواج بہت پرانا ہے یہ بھیڑ مفت کی سواری کے ساتھ سیاسی لوگوں کی شہ پر کیا کیا کرتی ہے اس کا تصور کرکے بھی روح کانپ جاتی ہے اسٹیشنوں پر لوٹ کر کھانا پینا ، ہاکروں کو مارنا اس کی انتہا گودھرا کی شکل میں موجود ہے ۔ریل روکو آندولن ، چکا جام کرنا ، سیاسی روایت رہی ہے ۔ اب سماجی تحریکوں کا غصہ بھی ریل کو بھگتنا پڑتا ہے وہ چاہے گوجروں کے ریزورشن کی مانگ ہو یا جاٹو ں کے ۔ الگ صوبے کی مانگ ہو ، یا کسانوں کے مسائل ۔ ایک مہینہ تک راجستھان کے ریل روٹ متاثر رہے یہ کون نہیں جانتا ، پٹرویوں کو اکھاڑ دینا ، ریلوں کو روک دینا ، یہ ملک میں عام بات ہے ۔ انہیں ریلوں کے بل بوتے پر کئی لیڈر پیدا ہوئے ہیں ان میں اسٹوڈینٹ لیڈروں کو جوڑلیا جائے تو یہ فہرست طویل ہوجائے گی ۔اس میں سبھی پارٹیاں شامل ہیں ۔کوئی یے نہیں کہہ سکتا کہ ریلی میں بھیڑ جٹانے کے لئے اس نے ریل پر قبضہ نہیں کیا ہے ۔
ملک کی سیاست نے کروٹ بدلی کئی پارٹیوں کے مل کر اتحادی Coalitionسرکار بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اس میں وزارت ریل سرکار میں حصہ دار پارٹی کو دیا جانے لگا ۔اٹل جی کی سرکار میں نتیش کمار وزیر ریل بنے یوپی اے کی پہلی حکومت میں یہ عہدہ لالو پرسا د یادو کے پاس رہا لیکن دوسری پاری میں یہ وزارت ترنمول کانگریس کے حصہ میں آئی ۔ریل کا بجٹ ہمیشہ عام بجٹ سے پہلے پاس کرنے کی روایت رہی ہے جب ایک پارٹی کی سرکار ہوتی تھی تو ریل کا کرایہ بڑھنے پر اپوزیشن کی مخالفت اور کرایاس کم کئے جانے کی دلیلیں دیکھنے لائق ہوتی تھیں ۔ کلکتہ میں ٹرام یا بس کا کرایا پچاس پیسے بڑھنے پر ہڑتال ہو جاتی تھی ۔بازار بند کرا دےئے جاتے تھے چکہ جام کردیا جاتا تھا ۔ ریل کے بجٹ میں ہمیشہ گھاٹا دکھایا جاتا رہا ہے ۔ پہلی مرتبہ لالو پرساد کے زمانے میں ریلوے منافع میں بتایا گیا ۔کسی جانکار سے ریلوے کے گھاٹے اور فائدے کے بارے میں معلوم کیا تو پتا چلا کہ ریلوے پہلے سے یہ طے کرتا ہے کہ اس سال کتنا منافع ہوگا اس تخمینہ میں جو کمی رہ جاتی ہے اسے ریلوے کی زبان میں گھاٹا کہا جاتا ہے ۔
اتحادی سرکاروں نے ریلوے میں منافع خوری کا سلسلہ شروع کیا پچاس فیصد ٹکٹ تتکال کیٹگری میں فروخت کئے جانے لگے تتکال ٹکٹ عام ٹکٹ سے ڈیڑھ سو دو سو روپے مہنگا ہوتا تھا ۔عام ٹکٹ کی واپسی پر دس بیس فیصد پیسہ کاٹ کرواپس مل جاتا تھا لیکن تتکال ٹکٹ کی واپسی پر دس فیصد پیسہ بھی واپس نہیں ملتا ۔ایسا نہیں ہے کہ ٹکٹ رد ہونے پر سیٹ خالی جائے بلکہ یہاں تو انتظار کرنے والوں کی لائن بھی اتنی لمبی ہوتی ہے کہ آخر وقت تک سیٹ کنفرم نہیں ہوتی ۔اس لئے ریلوے کی یہ کھلم کھلا عوام کو لوٹنے کی سازش ہے ۔ ریلوے کے ایجنٹوں اور اسٹاف خاص طور سے ٹیٹیوں کی لوٹ اس سے الگ ہے ۔ اس پر اپوزیشن یا کمیونسٹ جو اپنے آپ کو غریب مزدوروں کی پارٹی کہتے ہیں وہ بھی خاموش رہے اور ہیں ۔یہی نہیں ریلوے میں انگریزوں کے زمانے کے ایسے قانون لاگو ہیں جو ریل میں چلنے والے ٹکٹ چیکروں کو مسافروں کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں مثلا کوئی شخص عام ٹکٹ لیکر کسی ریزور ڈبے میں چڑھ گیا تو اسے بھاری پینلٹی دینی ہوگی اس سے کہا جائے گا کہ اسے جنرل ڈبہ میں سفر کرنا چاہئے تھا جنرل ذبہ کئی کئی ٹرینوں میں ہوتے ہی نہیں اور جن میں ہوتے ہیں وہ بھی ایک یا دو ۔ ان پر بھی قلی اور ریلوے پولس کے لوگوں کا قبضہ ہوتا ہے وہ سو دو سو روپے جیسا گراہک مل جائے اس لحاظ سے سیٹ فروخت کرتے ہیں۔ پولس ، قلیوں اور ٹکٹ چیکروں کی من مانی سے سب واقف ہیں لیکن ان پر انکش لگانے کی کوئی بات نہیں کرتا ۔
بھاجپا مودی کی سربراہی میں مہنگائی کے سوال پر ہی چن کر اقتدار میں آئی اس نے زمامے اقتدار سنبھالتے ہی ریل کے کرایوں میں 24فیصد کا تاریخی اضافہ کیا ۔کہا یہ گیا کہ ریلوے میں بہتر سہولیات فراہم کی جائیں گی ابھی آرام دہ بہتر سہولیات والی ٹرینوں کا انتظار ہو ہی رہا تھا کہ ریلوے نے 50فیصد تتکال ٹکٹوں کو ڈمانڈ و سپلائی کے ساتھ جوڑ دیا ۔اب تہوہاروں کے موسم میں ٹکٹ کی قیمت مانگ کے لحاظ سے کم یا زیادہ ہوگی ایک عام اندازے کے مطابق دہلی سے لکھنؤ جانے کے لئے تین ہزار روپے تک خرچ کرنے پڑ سکتے ہیں ۔ جو سفر پانچ سو سات سو روپے میں پورا ہو رہا تھا اس کے لئے چار پانچ گنا رقم خرچ کرنی پڑے گی ۔ جبکہ ہوائی جہاز میں یہ سفر ساڑھے تین ہزار روپے میں کیا جا سکتا ہے ۔
ریلوے کی حالت پر غور کیا جائے تو ٹرینوں کے پہیےئے اور پٹریاں گھس چکی ہیں جس کی وجہ سے اکثر ٹبہ پٹری سے اترنے کی خبریں آتی رہتی ہیں سگنل کی خرابی سے ٹرینیں آمنے سامنے لڑ جاتی ہیں اس میں کچھ لا پرواہی کا دخل بھی ہوتا ہوگا ۔ ٹرینوں کے دیر سے آنا تو اب کسی گنتی میں ہی نہیں ہے ہمارے وزیر اعظم ہائی اسپیڈ اور بلٹ ٹرینیں چلانا چاہتے ہیں تاکہ ترقی کی رفتار تیز ہوجائے یہ اچھی بات ہے لیکن یہ سوچنا بھی ہوگا کہ اس کی کیا قیمت ادا کرنی ہوگی ۔ احمد آباد سے ممبئی تک بلٹ ٹرین چلانے کے پروجیکٹ پر دو ملکوں کی کمپنیاں کام کررہی ہیں جاپان کی کمپنی نے اس پروجیکٹ کی Viabilityپر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس پروجیکٹ پر جو پیسہ خرچ ہوگا اس کی واپسی کے لئے بہت لمبا وقت چاہئے ۔کم وقت میں پیسہ کی واپسی کے لئے کرایا اتنا مہنگا ہوگا کہ لوگ ٹرین کے بجائے ہوائی جہاز میں سفر کرنا پسند کریں گے اس کی تجویز ہے کہ الگ الگ رفتار کی کئی ٹرینیں چلائی جائیں اور ان کے کرائے بھی الگ الگ رکھے جائیں تو شاید یہ پروجیکٹ کامیاب ہو جائے ۔
ملک کو بازار بنانے کی چاہ میں وہ ریل کہیں گم ہوتی جا رہی ہے جو ملک میں پرانسپورٹ اور آمد و رفت کا قابل برداشت (Affordable)سب سے بڑا ذریعہ تھا ۔پیسے کمانے کے چکر میں ریل کا سفر کہیں غریبوں کے لئے خواب بن کر نہ رہ جائے ۔کیونکہ جو بھی شعبے نجی زمرے میں دےئے گئے ہیں وہ عام آدمی کے دکھ کا ذریعہ ہی بنے ہیں ریل میں ایف ڈی آئی لاگو ہونے سے یہ دہلی کی بیلو لائن بس بن کر رہ جائے گی بس کے کرائے پر کم از کم سرکار کا کنٹرول تھا لیکن یہاں تو خود سرکار ہی ٹکٹ منگا کرنے پر اتارو ہے اس پر کنٹرول کون کریگا ۔ ہمیں تو ایسی ریل کی ضرورت ہے جو وقت پر حفاظت اور سہولت کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا سکے ۔ تیز رفتار ٹرینیں ضرور چلائی جائیں لیکن موجودہ ریل کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دور دراز کے پچھڑے علاقوں کا سفر حفاظت کے ساتھ سستا ، وقت کی پابندی اور آرام کے ساتھ پورا ہو سکے ۔ عوام کے من میں سوال ہے کہ وہ ریل کہاں گئی جو صاف ستھری ہو اور عام آدمی کی دست ترس میں ہو ۔۔

«
»

’’ننگا نگر ‘‘جہاں کپڑے پہننے والے بیوقوف سمجھے جاتے ہیں۔

مودی کچھ زیادہ ہی سچ بولنے لگے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے