’’خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد ‘‘

سچر کمیٹی اور محمود الرحمن کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹرا کے مسلمانوں کے حالات درجِ فہرست اقوام سے بھی خراب ہیں ۔اور بد قسمتی یہ ہے کہ 1947سے آج تک قائم ریاست کی کسی بھی حکومت نے مسلمانوں کے معاشی ‘ تعلیمی اور سماجی حالات سدھارنے کی جانب کبھی کوئی توجہ نہیں دی ہے ۔
مہاراشٹرا کے تعلق سے ایک بات مزید کہی جاتی ہے کہ یہاں ملک میں سب سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ہیں اور یہاں کے جیلوں میں بند قیدیوں کی کُل تعداد میں27فیصد سے زائد قیدی مسلمان ہیں ۔ملک کے دیگر ریاستوں کی طرح مہاراشٹرا کے مسلمانو ں کی اس خراب حالات کے کئی وجوہات ہوسکتی ہیں‘ جن میں ایک ایسی وجہ بھی ہے جو آج کل ملک میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔ وہ وجہ ہے مہاراشٹرا کے مسلمانوں کی سیاسی کمزوری یا جمہوری ایوانوں میں یعنی اسمبلی ‘کونسل اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی بہت ہی کم نمائندگی۔ ہندوستان کے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ’مہاراشٹرا کا مسلمان خود بادشاہ تو بن نہیں سکتا تھا لیکن بادشاہ گر بن سکتا تھا ‘ وہ بھی نہیں بن سکا۔ سچ بات تویہ ہے کہ 1952ء میں منعقد پہلے عام انتخابات سے لے کر15؍اکتوبر 2014ء کو منعقد ہونے والے 14ویں اسمبلی انتخابات تک کبھی بھی مہاراشٹرا کے مسلمان اپنی طاقت دکھانا تو درکنار اپنے وجود کا احساس بھی دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ‘ حالانکہ مہاراشٹر املک کی اُن کچھ ریاستو ں میں سے ایک ہے جہاں ایک مسلمان وزیر اعلی کے عہدہ تک پہنچ چکا ہے ۔
اسمبلی انتخابات : مہاراشٹرا اسمبلی کے پہلے عام انتخابات 1951-52ء میں ملک کی دیگر ریاستوں کے ساتھ منعقد ہوئے تھے ۔ اُس وقت یہ ریاست بمبئی اسٹیٹ کہلاتی تھی ‘اس میں گجرات بھی شامل تھا ۔ بمبئی اسٹیٹ جو بعد میں مہاراشٹرا کہلایا کی اسمبلی کیلئے منعقد پہلے انتخابات میں کُل 315نشستوں کیلئے انتخابات ہوئے ‘ جس میں13مسلم ارکان منتخب ہوئے تھے ۔اس طرح نمائندگی کا تناسب صرف 4.13فیصد تھا جبکہ اُس وقت بمبئی اسٹیٹ میں مسلمانوں کی آبادی7.63 فیصد تھی ۔
1957ء میں جب دوسرے عام انتخابات منعقد ہوئے اُس وقت تک ریاستِ حیدرآباد کا مراہواڑہ علاقہ بمبئی سے جُڑ جاچکا تھا‘ اور بیلگام ڈیویژن کو بمبئی اسٹیٹ سے علیحدہ کرکے ریاستِ میسور کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا ۔1957میں بمبئی اسمبلی کی 396نشستوں کیلئے الیکشن ہوئے تھے جس میں صرف10نشستوں پر مسلم اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ا س بار بمبئی اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف2.53فیصد تھی جبکہ مسلم آبادی 8فیصد کے قریب تھی ۔
1962ء میں جب ملک بھر میں تیسرے عام انتخابات منعقد ہوئے تب تک مہاراشٹرا موجودہ شکل میں وجود میں آچکا تھا اور مہاراشٹرا اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد 264مُختص کی گئی تھی ۔جن کیلئے انتخابات منعقد ہوئے اورجس میں سے صرف 11نشستیں مسلم نمائندوں کے ہاتھ آسکی تھیں ۔ اس الیکشن میں مسلم نمائندگی 4.34فیصد تک ہی بڑھ سکی تھی ۔
1967کے انتخابات ملک بھر میں سیاسی اتار چڑھاؤ کیلئے یاد کئے جاتے ہیں‘ ان انتخابات سے کانگریس کا زوال کا آغاز ہوا تھا اور جہاں تک مہاراشٹرا اسمبلی کا سوال ہے‘ 1967ء میں مسلم نمائندگی سب سے کم رہی تھی اس بار270نشستوں میں سے صرف ور صرف 10نشستوں پر مسلم اُمیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔اور نمائندگی کا تناسب صرف 3.70 فیصد تھا۔
1972ء میں اندرا گاندھی کی لہر کے بیچ مہاراشٹرا اسمبلی کیلئے پانچویں عام انتخابات منعقد ہوئے تھے اس بار بھی نشستوں کی تعداد 270ہی تھی جس میں سے 13نشستیں مسلمانوں کو ملی تھیں ۔ اور نمائندگی کا تناسب 4.81فیصد ہوگیا تھا ۔
1978ء میں جب مہاراشٹرا اسمبلی کے چھٹے انتخابات منعقد ہوئے تھے تب نشستوں کی تعداد 288تک پہنچ گئی تھی اس بار11مسلم اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔اورنمائندگی کا اوسط3.81فیصد تک پہنچا تھا ۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مہاراشٹرا اسمبلی میں داخل ہونے والے مسلم ارکان کی اکثریت ہمیشہ کانگریس پارٹی سے تعلق رکھتی رہی ہے لیکن 1978ء میں پہلی بار 11میں 9مسلم ارکان جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے جو آج تک کا ریکارڈ ہے ۔
1980ء میں اسمبلی کیلئے پہلی بار درمیانی مدت کے انتخابات منعقد ہوئے تھے اس الیکشن میں 288نشستوں میں سے 15نشستیں مسلمانوں کے ہاتھ لگیں تھیں اور نمائندگی کا تناسب 5.20ہوگیا تھا‘ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ 1952سے اب تک 13بار مہاراشٹرا اسمبلی کے انتخابات ہوچکے ہیں لیکن1980میں ہی مسلم نمائندگی5.12فیصد تک پہنچ سکی تھی یہ ریکارڈ جاریہ انتخابات میں بھی برقرار رہتا ہے یا ٹوٹتا ہے یہ دیکھنا ہوگا۔ 
1985ء میں مہاراشٹرا اسمبلی کیلئے8ویں عام انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا اور اس بار 288میں سے صرف11نشستوں پر مسلم اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے‘ بد قسمتی سے مسلم نمائندگیوں کا گراف اور نیچے یعنی3.81فیصد تک گر گیا تھا ۔
1990ء میں مہاراشٹرا اسمبلی کے 9ویں اور 1995ء میں دسویں اسمبلی کیلئے ہوئے انتخابات میں مسلم نمائندگی کم ہو تی گئی ۔1990میں 7اور1995میں8مسلمان اسمبلی میں داخل ہوسکے تھے ۔نمائندگی کا تناسب 1990ء میں 2.43اور1995میں 2.77فیصد رہا تھا ۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مہاراشٹرا میں فرقہ پرست پارٹیوں کا وجود شروع سے رہا ہے ‘مراہٹی بولنے والوں کے مفاد کی بات کرنے والی شیو سینا کا نشانہ ہمیشہ سے مسلمان ہی رہے ہیں ۔بابری مسجد کا تنازعہ اُٹھنے کے بعد ملک بھر میں بی جے پی کو جو طاقت حاصل ہوئی اُس سے مہاراشٹرا کا ماحول اور خراب ہوگیا ‘جس کا اثر 1995کے انتخابات پر صاف نظر آیا‘ ویسے اسمبلی میں مسلم نمائندگی پر زیادہ اثر نہیں دیکھا گیا ۔1999کے انتخابات میں 13مسلمان کامیاب ہوئے اور نمائندگی کا تناسب 4.51تھا ۔
سال2004ء میں مہاراشٹرا اسمبلی کے 12ویں انتخابات منعقد ہوئے اس بار بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔اس بار11نشستیں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں اور نمائندگی کا تناسب 3.18فیصد ہوگیا تھا ۔
مہاراشٹرا اسمبلی کیلئے13ویں عام انتخابات 2009ء میں منعقد ہوئے تھے اُن میں 10مسلمان کامیاب ہوئے تھے اور نمائندگی کا تناسب3.47رہا تھا۔ریاستِ مہاراشٹرا موجودہ شکل میں آنے کے بعد یعنی1962سے آج تک کہ اسمبلی انتخابات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چل سکتا ہے کہ کبھی بھی وہاں کے مسلمانوں کو اُن کی آبادی کے تناسب میں اسمبلی میں نمائندگی حاصل نہیں ہوئی۔یہی حال مہاراشٹرا سے لوک سبھا میں نمائندگی کا بھی رہا ہے ۔جہاں تک دیگر جمہوری ادارہ جات ہیں یعنی مہاراشٹرا لیجسلیٹو کونسل اور راجیہ سبھا وہا ں بھی مسلم نمائندگی کسمپرسی کا شکار رہی ہے۔
جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے مسلم نمائندگی کے بارے میں کسی بھی پارٹی کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا ہے۔ملک کے دیگر ریاستوں کی طرح مہاراشٹرا کے مسلمان بھی کانگریس کا ساتھ دیتے رہے ہیں ‘لیکن کانگریس کی جانب سے بہت کم نمائندگی دی جاتی رہی ہے ۔دیگر سیاسی پارٹیوں میں جنتا پارٹی اور جنتادل ہی ایسی پارٹیاں ہیں جنھوں نے کچھ حد تک مسلمانوں کی شناخت کی ہے۔ شیو سینا اور بی جے پی تو بنیادی طورپر مسلم دشمن پارٹیاں ہیں اس کے باوجود کبھی کبھی دو چار مسلمان ان پارٹیوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں ۔شیوسینا ٹکٹ پر ایک دو بار مسلمان اُمیدوار جیت بھی چکے ہیں ۔
یہ سچ ہے کہ مہاراشٹرا کے مسلمانوں کی اسمبلی میں کمزور موجودگی کا اثر وہاں کے مسلمانوں کی معاشی ‘تعلیمی‘ اور سماجی پسماندگی کی واحد وجہ نہیں مانی جاسکتی ۔مسلمانوں کی پسماندگی کے کئی اور وجوہات بھی ہیں لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت میں سبھی اہم فیصلے اسمبلی اور کابینہ میں ہوتے ہیں اور اُن ایوانوں میں غیر موجود گی اورکمزور شرکت سے جو نقصانات اب تک ہوچکے ہیں یا مستقبل میں ہوسکتے ہیں اُس کا حساب لگانا ممکن نہیں ہے۔
ہندوستان کے جمہوری ایوانوں میں مسلمانوں کی کمزور نمائندگی دور کرکے مسلمانوں کوسیاسی طورپر بااختیار بنانے کے تعلق سے سیاسی ماہرین اور سوشیل سائنٹسٹ غور و فکر کررہے ہیں لیکن اس کا مثبت نتیجہ نکلتا نظر نہیں آرہا ہے ۔مہاراشٹرا میں اب جو انتخابات ہورہے ہیں اُن سے مسلمانوں کو زیادہ اُمید نہیں ہے ‘کیونکہ بڑی سیاسی پارٹیوں کے اُمیدواروں کی فہرستوں میں مسلمانوں کی تعداد ہمیشہ کی طرح کم ہے ‘ویسے کچھ مسلم پارٹیوں نے اپنے اُمیدوار کھڑے کئے ہیں لیکن مہاراشٹرا کا جغرافیہ کچھ ایسا ہے کہ وہاں صرف مسلمانوں کے ووٹ کی بنیاد پر الیکشن جیتا نہیں جاسکتا۔

«
»

’’ننگا نگر ‘‘جہاں کپڑے پہننے والے بیوقوف سمجھے جاتے ہیں۔

مودی کچھ زیادہ ہی سچ بولنے لگے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے