مہاراشٹرا کا سیاسی منظر نامہ : مسلم سیاست کو مضبوط کرنے کا بہترین موقع

جس نے صاف ظاہر کر دیا ہے کہ اس محاذ کو نہ جمہوریت کی فکرہی نہ سیکولرازم کی بقاء مطلوب ہی اور نہ ہی عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی ہے، وہ صرف اقتدارکے بھوکے ہیں اور اقتدار کے لئے اقدار کو قربان کرنا ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا، ان کے سیکولرازم کا دعویٰ محض ایک دکھاوا ہے جس کا مقصد صرف عوام کو بیوقوف بنانا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے کانگریس اور این سی پی اتحاد کی ضرورت پہلے سے زیادہ آج شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی تھی۔ اس اتحاد کی وجہ سے ممکن تھا کہ فرقہ پرستوں کے انتشار کا بھر پور فائدہ سیکولر طاقتوں کو حاصل ہوتا اور مہاراشٹرا میں پھر ایک بار سیکولر محاذ کی حکومت قائم ہو جاتی۔ مگر یہ اُسی وقت ممکن تھا جب سیکولر محاذ کے پاس سیکولرازم مقدم ہوتا، صرف اقتدار کے طلب گاروں سے یہ امید رکھنا فضول ہے۔ سیکولرمحاذ کی اس ٹوٹ پھوٹ نے ملک میں سیکولرازم کی ڈوبتی نیّا کو منجدھار میں ڈھکیل دیا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ کانگریس پہلے ہی اپنا وقار کھو چکی ہے، اس کے پاس نہ کوئی ڈھنگ کی قیادت ہے اور نہ ہی فرقہ پرستوں سے نپٹنے کا کوئی جامع منصوبہ ہے۔ این سی پی کو صرف مراٹھا سیاست سے مطلب ہے ، وہ اقتدار کے بغیر ماہی بے آب کی طرح تڑپ جاتی ہے۔ موجودہ تبدیل شدہ سیاسی منظر نامہ میں این سی پی سیاسی وفاداریاں نبھانے سے زیادہ اس بات کے لئے فکر مند ہے کہ آئیندہ اقتدار میں اپنی حصہ داری کو کس طرح یقینی بنایا جائے، قیاس تو یہ بھی کیا جارہا ہے کہ انتخابات کے بعد این سی پی اپنے نئے ساتھی تلاش کر لے جو بی جے پی ، منسے، یا شیو سینا بھی ہو سکتی ہے۔ماضی میں پنچایت سمیتی سے لیکر بلدیہ عظمیٰ تک ایسے گٹھ جوڑ کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ویسے بھی ان سیکولر جماعتوں کا سیکولرازم اس بات سے عیاں ہوجاتا ہے کہ کانگریس نے ۲۸۸ میں سے صرف ۱۶ نشستوں پر اور این سی پی نے ۱۴ نشستوں پرہی مسلم امیدواروں کو امیدواری دی ہے جب کہ ہر پارٹی کی جانب سے یہ تعداد کم سے کم ۳۰ سے۳۲ تک ہونی چاہئے تھی۔ جس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ نام نہاد سیکولر جماعتیں سیکولرازم کی بقاء کی دہائی دے کر مسلمانوں کے ووٹ تو حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن خود مسلمانوں کو سیاسی طور پر اپاہج بنا کر رکھنا چاہتی ہیں، یہی وجہہ ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں مسلم قیادت بتدریج زوال پذیر ہے اور مسلمان سیاسی طور پر بے وقعت ہو تا جا رہا ہے۔
کہتے ہیں ہر شر میں کوئی خیر کا پہلوں پنہا ہوتا ہے، مسلسل نا انصافیوں اور زیادتیوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہم کب تک سیکولرازم کے نام پرسیاسی بے وقوف بنائے جاتے رہیں گے، کب تک ہمارا سیاسی استحصال ہو تا رہیگا؟ کب تک ہم بندھوا مزدور کی طرح سیاسی آقاؤں کی غلامی کرتے رہیں گے؟ کب تک ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے رہیں گے؟ جب کہ مسلمان کی فراست اس امر میں پوشیدہ ہے کہ وہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسا نہیں جاتا۔ مہاراشٹرا کے مسلمانوں میں یہ احساس گذشتہ دو دہائیوں سے گردش کر رہا ہے لیکن کوئی بہتر متبادل نہ ہونے کی وجہہ سے ہر بار وہ مجبوراً نام نہاد سیکولرازم کا ساتھ دیتے رہے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں فرقہ پرستی کا عفریت ہم پر مسلط نہ ہو جائے۔ لیکن کانگریس کی ناقص کارکردگی کی وجہہ سے مرکز میں فرقہ فرستوں کی کامیابی نے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جس چیز کا ڈر تھا وہ تو ہوگیا، اب جب کہ فرقہ پرست مرکزی اقتدار پر قابض ہو ہی گئے ہیں تو پھر کیوں نہ ہم اپنی سیاست کریں؟ کیوں نہ ہم اپنے متبادل تلاش کریں ؟ کیوں نہ ہم روایتی ووٹ بنک بننے کی بجائے اپنے ووٹوں کا استعمال اپنی سیاسی قوت کو مضبوط کرنے کے لئے کریں؟ 
ایک کہاوت ہے ’’ بِلّی کے بھاگو چھینکا ٹوٹا‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی قسمت سے اتحاد ٹوٹا۔ اس کی وجہہ سے ایک تو سیکولر جماعتوں کی قلعی کھل گئی کہ وہ لوگ سیکولر ازم کی بقاء کے لئے کوئی قربانی دینے تیار نہیں ہیں،ان کا مقصد صرف حصول اقتدار ہے۔ دوسری طرف بھگوا محاذ کے انتشار نے وہ خوف بھی دل سے نکال دیا کہ نئے تجربات کے چکر میں کہیں فرقہ پرستوں کو فائدہ نہ پہنچ جائے۔ اب مہاراشٹرا کا مسلمان آزاد ہے شاید پہلی مرتبہ وہ بغیر کسی ڈر اور خوف کے اپنا ووٹ اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے گا۔ فرقہ پرستوں کے ڈر سے نہ چاہتے ہوئے بھی نام نہادسیکولرازم کی بھینٹ چڑھنے والا مسلمان اب اپنی سیاسی بقاء کے لئے بہت سوچ سمجھ کر جہاں جہاں بھی اُسے متبادل میسر ہے وہ اس کے حق میں اپنے ووٹوں کا استعمال کریگا۔ اس کی پہلی پسند مسلم قیادت والی پارٹی کا مسلم امیدوار ہوگا، دوسری پسند نام نہاد سیکولر جماعتوں کا مسلم امیدوار، اور جہاں مسلم امیدوار نہ ہو وہاں اپنی پسند کے مطابق کسی قابل اور ہمدرد امیدوار کو ترجیح دیگا چاہے اس امیدوار کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، اور ایسا ہونا بھی چاہئے۔جہاں مسلم امیدوار نہ ہو وہاں مسلمانوں کو اپنی سیاسی اہمیت جتانے کا ایک اور طریقہ ’ناٹو‘ کا استعمال بھی ہو سکتا ہے جس کے ذریعہ وہ یہ بتاسکیں کہ ہماری نظر میں کوئی بھی امیدوار ہماری نمائندگی کرنے کے لائق نہیں ہے۔ جمہوریت میں حق رائے دہی کی بڑی اہمیت ہے، ہندوستانی مسلمانوں کے ہاتھ میں وہی ایک موثر ترین ہتھیار ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی سیاسی قوت کو منواسکتے ہیں اور اپنے مطالبات کی تکمیل کو یقینی بنا سکتے ہیں ۔ مسلمانوں کو اس حق کی اہمیت کا صحیح اندازہ کرکے اس کا بھر پور استعمال کرناآج وقت کا تقاضہ ہے۔ 
حال ہی میں منعقد ہوئے پارلیمانی انتخابات میں مسلم ووٹوں کے انتشار کی وجہہ سے تقریباً ۳۲؍ مسلم امیدواروں کو یو پی اور بہار میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔کانگریس، سماجوادی، آر جے ڈی اور بی ایس پی کے حق میں مسلم ووٹوں کے بٹوارے نے ملکی سطح پر ہماری سیاسی اہمیت کو بے وقعت کرکے رکھ دیا۔ آج مسلمانوں کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کے انتشار کا فائدہ اُٹھائیں اور اپنے اتحاد سے ان ۳۲؍ مسلم امیدواروں کی شکست کا بدلہ لیں جو بہت ہی کم ووٹوں کے فرق سے شکست سے دوچار ہوئے تھے ، وہ ہار ہمارے انتشار کی وجہہ سے ہوئی، اس پیٹرن کو امیت شاہ مہاراشٹرا میں بھی دہرانا چاہتے تھے لیکن بھگوا اتحاد کے ٹوٹ جانے کی وجہہ سے ان کا یہ خواب شائد ہی شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ اس کے بر خلاف مسلمانوں کو یہ موقع نصیب ہوا ہے کہ وہ بھگوا اتحاد کی ٹوٹ پھوٹ اور مفاد پرست سیکولر پارٹیوں کی آپسی رسہ کشی سے فائدہ اُٹھائیں اور پورے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ ترتیب سے اپنے ووٹوں کا استعمال کریں اور مسلم سیاست کو نئی جہت پر لیجانے میں معاون ثابت ہوں۔ ہم کو سیکولرازم کے سحر کو توڑ کر اپنی سیاسی بقاء کے لئے جد و جہد کرنا ہوگی۔ موثر سیاست کے لئے موقع شناس اور کسی قدر خود غرض ہونا لازمی ہے۔صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنا اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانایہی سیاست ہے۔ اس کے لئے ہمیں پارٹیوں کی وابستگی سے زیادہ ملّی مفادات کی فکر کر نا ہوگی۔ اگر مسلمانوں نے اپنی سیاسی قوت کو یکجاء نہیں کیا تو ہو سکتا ہے کہ پھر کسی سچّر یہ کہنا پڑے کہ برسو سے پچھڑے ہوئے دلتوں سے بدتر مسلمان اب اس ملک میں’’ اچھوت ‘‘ ہوتے جا رہے ہیں ۔

«
»

نظر کی کمزوری سے بچاؤ کے فطری طریقے

نریندر مودی کا دورہ امریکہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے