یہ کون بول رہاہے خداکے لہجے میں؟

یادرہے کہ اس حملہ سے ایک دن قبل پاک افغان سرحدسے متصل سپین وام کے علاقے میں’’ ڈنڈی کچھ‘‘ کے مقام پر فرنٹئیر کور کی چوکی پربھی حملہ کیاگیاتھاجس میں۱۱دہشتگردہلاک اورایک کوزندہ گرفتارکرلیاگیاتھا۔ اس حملے کے بعدچغہ پوش مسخرے صدرافغانستان حامدکرزئی نے غیرملکی نمائندہ کوانٹرویودیتے ہوئے کہاکہ اب ہمارے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیاہے۔اب وقت آگیاہے کہ ہم بھی ان افرادکوگھروں میں گھس کر قتل کریں گے۔ یہ لوگ افغانستان میں بدامنی اورہمارے بچوں،جوانوں اوربوڑھوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔
یہ سب کچھ امریکی صدر،برطانوی وزیراعظم‘اقوام متحدہ کے ترجمان یانیٹوکے کمانڈر نے نہیں بلکہ حامدکرزئی نے کہاہے۔۔۔جی ہاں۔۔۔حامد کرزئی نے جوابھی تین عشرے قبل پاکستان میں پناہ گزین تھا۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں آباد اسلام آباد کے ایک پرآسائش علاقے میں رہائش پذیر، چین کی بانسری بجاتا تھا۔ وہ ان افغانوں میں سے ایک تھا جس نے افغانستان میں روسی افواج کے داخلے کے بعد پاکستان کارخ کیا۔نہ وہاں رہ کرمدافعت کی جنگ لڑی نہ یہاں آکر مزاحمت کی کوشش کی۔ ایک قبائلی اور نیم متمدن معاشرے سے نکل کر ایک مہذب اور متمدن سوسائٹی میں آیا تویہاں کی رنگینیوں میں کھوگیا۔ حامدکرزئی توخیرکچھ عرصے بعدخدا کی شان دیکھنے یورپ کی طرف نکل گیا لیکن اس کے لاکھوں ہم وطن پاکستان بھرمیں پھیل گئے۔
انہوں نے پاکستان میں جائیدادیں خریدیں،تجارت کی، پاکستان کی قومیت اختیار کی، پاکستان کاپاسپورٹ حاصل کیا اوربھول گئے کہ افغانستان میں ان کے بھائیوں پرکیاگزررہی ہے۔ افغانستان توخیردورکی بات تھی۔ آنکھ اوجھل پہاڑاوجھل ،ان موقع پرستوں کوتوان افغانوں کی بھی پروا نہیں تھی جوروسی جارح افواج کے ہاتھوں تباہ ہوتے علاقوں سے خالی ہاتھ نکلے تھے اورافغانستان کی سرحدسے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں خاردار تاروں کے پیچھے بسائی گئی خیمہ بستیوں میں ٹھہرادئیے گئے تھے۔ہجرت توگلبدین حکمت یاراور ان کے رفقاء نے بھی کی تھی۔ اسلام آباد کاسفرگلبدین حکمت یارنے بھی اختیار کیاتھالیکن یہاں کی پرآسائش زندگی اختیارکرنے کے لئے نہیں بلکہ یہاں کے حکمرانوں سے اپنے ہم وطنوں کی جدوجہد آزادی میں تعاون حاصل کرنے کے لئے،اپنی زمین کو روسیوں کے نوکیلے پنجوں سے چھڑانے اورناپاک قدموں سے پاک کرنے کے لئے۔
جب حامدکرزئی معطرلباس میں ملبوس محفوظ اورمامون اسلام آباد کی خوبصورت اور خشک شاموں میں چہل قدمی کے لئے گھر سے باہرنکلتے تھے تب گلبدین حکمت یارافغان مہاجر کیمپوں میں مقیم پناہ گزینوں کو’’ مجاہد‘‘ بنانے میں مصروف ہوتے تھے یاان مجاہدوں کے ساتھ مل کرافغانستان پرقابض روسی افواج کے محفوظ ٹھکانوں پرشب خون مارنے کی تیاریاں کررہے ہوتے تھے۔ حامدکرزئی کوکیامعلوم اس وقت کراچی سے پشاورتک پاکستانیوں کے جذبات کیاتھے۔ وہ افغان مہاجروں کے میزبان بھی تھے اور افغانستا ن کی آزادی کے لئے لڑنے والے مجاہدین کے پشتیبان بھی۔صرف پاکستان ہی نہیں دنیابھرکے مسلمانوں نے روسی جارحیت کے خلاف مزاحمتی تحریک کی حمایت کی تھی،سرمایہ فراہم کیاتھا،اپنی جوان اولادیں افغانوں کے دوش بدوش لڑنے کے لئے بھیجی تھیں۔ ان مجاہدین کو افغانستان کی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں ہی میں اپنے کیمپ قائم کئے تھے۔ ہرچندکہ ایران کی طویل سرحد افغانستان سے ملتی تھی لیکن انقلاب ایران کے شیعہ پس منظرمیں مجاہدین کے لئے وہاں قیام آسان نہیں تھا۔ تب افغانستان کی آزادی کے لئے لڑنے والوں نے پاکستان میں تربیتی مراکزبھی قائم کیے تھے اور گوریلاکارروائیوں کے لئے لانچنگ کیمپ بھی۔ یہ ایک پرخطرراہ تھی جوپاکستانی حکمرانوں اور عوام نے بہت سوچ سمجھ کر اختیارکی تھی۔
تب نورمحمدترہ کئی اورببرک کارمل جیسے حکمران پاکستان کے بارے میں ایسی ہی زبان استعمال کرتے تھے۔تب کے جی بی اورخادنے ’’را‘‘کے ساتھ مل کر پاکستان کے طول وعرض میں دہشت گردی کابازار گرم کررکھا تھا۔ شہروں شہروں بم دھماکے کئے تھے۔پاکستانیوں کوموت کے گھاٹ اتاراتھااور ان کے پاکستانی ایجنٹوں نے یہ کہہ کر قوم کے زخموں پرنمک چھڑکا تھا کہ جب پاکستانی حکمران افغانستان کے معاملات میں مداخلت کریں گے توجواب میں ان پرپھول نہیں بم ہی برسیں گے لیکن اس تمام اشتعال انگیزی کے باوجودپاکستانیوں نے افغانستان کے جہادکی پشتیبانی کی تھی،اپنے سپوتوں کے وہ لاشے بھی صبر کے ساتھ دفنائے تھے جوپاکستان میں دہشت گردی کاشکار کئے گئے تھے اور ان جوانوں کے لاشوں کو بھی عزیمت کے ساتھ وصول کیاتھا جنہوں نے افغانستان میں جامِ شہادت نوش کیاتھا۔
بات یہیں تک محدودنہیں رہی ،وہ فوجیں جواس عزم کے ساتھ دریائے آموکے پاراتری تھیں کہ ان کاایک قدم افغانستان میں اوردوسرا پاکستان میں ہوگا،جس کے بعدگرم پانیوں کے سمندران کی دسترس میں ہوں گے اور زمانہ ان کے قدموں میں،جب افغانستان میں مارکھاکر واپس پلٹیں توکابل کے حکمرانوں کادنیا میں کوئی نام لیوا نہیں رہااور دنیاپرحکمرانی کا خواب دیکھنے والے ملک یوایس ایس آرکے ٹکڑے ہوگئے ،کوئی یہاں گرا توکوئی وہاں گرا۔
لوگ کہتے ہیں کہ افغانستان سے روسی پسپائی کے نتیجے میں افغان مجاہدین خوامخواہ اس وہم میں مبتلاہوگئے کہ یہ جنگ انہوں نے جیتی ہے۔ان کاخیال ہے کہ یہ جنگ امریکیوں کے اسلحے،پیسے اورٹیکنالوجی نے جیتی ہے ممکن ہے یہ لوگ ٹھیک کہتے ہوں لیکن ایک تھیسس یہ بھی ہے کہ روس نے یہ جنگ افغانیوں کی جانبازی اور پاکستانیوں کی پشت پناہی کے سبب ہاری ہے۔تبھی توفلسطینی جنگجوحسرت سے کہتے تھے کہ اگر فلسطین کی سرحدیں پاکستان سے ملی ہوتیں تواسرائیل کی سرحیں پھیلنے کی بجائے سکڑناشروع ہوجاتیں۔
روس کی شکست کاسبب افغان جذبہ اورپاکستان کی پشت پناہی ہو یا امریکی اسلحہ ،سوال یہ ہے کہ اس ساری کشمکش میں حامدکرزئی کہاں تھے؟وہ گلبدین حکمت یارکے ساتھ نہیں تھے گوریلاجنگ نہیں لڑی ،وہ حکمت یارکی طرح اپنے بھائی کی لاش کے ٹکڑے نہیں سمیٹے۔۔۔اگروہ افغان پناہ گزین کیمپوں،مجاہدین کے تربیتی کیمپوں یاطورخم کی سرحد کادورہ کرنے والے امریکی سفیر کے ہمراہ ہوتے اوراس لمحے کے گواہ بن جاتے جب امریکی سفیراللہ اکبرکے نعرے لگاکرافغان مجاہدین سے اظہار یکجہتی کرتاتھاتوبھی ہم مان لیتے کہ حامدکرزئی کاافغانستان میں بسنے والوں سے کوئی تعلق تھا۔پاکستان کے خلاف بات کرنے سے قبل حامدکرزئی کوسوچناچاہئے کہ وہ تواپنی ’’مادروطن‘‘ کوچھوڑ کر بھاگ گیاتھا۔ اگرپاکستان اورعرب ملکوں سے آئے ہوئے مجاہدین اپنی جانوں پرکھیل کر روسی ریچھ کوواپس پلٹنے پرمجبور نہ کرتے تووہ اس وقت کہاں ہوتا؟
حامدکرزئی صاحب!آپ کومعلوم ہوناچاہئے افغانستان میں خونریزی اور انتشار کے اصل ذمہ دار وہ لوگ ہیں جوروس کی پسپائی کے بعد افغانستان میں اسلام کے غلبے کے تصور سے خوفزدہ تھے۔ انہی لوگوں نے افغانستان میں افغانوں کوآپس میں لڑا یا،طالبانائزیشن کوفروغ دیا اور بالآخر افغانستان پرنیٹوافواج کے ذریعے قبضہ کرلیا۔ مجھے بتائیے کہ افغانستان پر روسی فوج کے قبضے اورنیٹوفوج کے قبضے میں کیا فرق ہے؟ اگرکل روسی فوج کے خلاف جدوجہد جائزتھی ،اگر تب آپ کا پاکستان میں قیام جائزتھاتوآج نیٹوافواج کے خلاف جدوجہد کیوں ناجائزہے؟
مجھے نہیں معلومتمہاراقبیلہ کتنا بڑااورکتناطاقتورہے لیکن یہ توآپ بھی جانتے ہیں کہ آل تیمورآپ کے قبیلے ہی نہیں پوری افغان قوم سے تعداد میں زیادہ اورقوت میں بڑھ کرتھے۔ تبھی وہ آپ کو روندتے ہوئے ہندوستان تک آئے تھے اور دہلی میں بیٹھ کر افغانوں پرحکمرانی کی تھی۔ لیکن اسلام دشمنی اورسیکولرازم نے آل تیمور کوکہیں کانہیں چھوڑا۔ پھریوں ہوا کہ۔۔۔حمیت نام تھاجس کا ،گئی تیمورکے گھرسے۔۔۔دلی میں نقارے پرچوٹ لگتی تھی اور نقیب کی صدا گونجتی تھی’’ ملک اللہ کا،حکومت بہادر شاہ ظفرکی،حکم ایسٹ انڈیاکمپنی کا‘‘لیکن یہ دور زیادہ دیرتک نہیں چلا۔بہادرشاہ ظفر کواپنے جوان صاحبزادوں کے ’’بریدہ سر‘‘خوانِ نعمت کے طورپرقبول کرناپڑے۔فرزندِ تیمورکو جلاوطن ہونا پڑا اور بات یہاں تک پہنچی کہ.. ۔۔۔ دوگززمیں بھی نہ ملی کوئے یارمیں۔
حامدکرزئی!تم سے پہلے نورمحمد ترہ کئی اورببرک کارمل کے زمانوں میں بھی افغان حکومت کابل تک محدود تھی۔تب عملاً یہ صورتحال تھی کہ۔۔۔’’ملک افغانوں کا‘ حکومت نورمحمدترہ کئی ، ببرک کارمل کی ،حکم روسی افواج کا۔‘‘اور تمہاری حکومت بھی کابل شہرتک محدود رہی۔آج صورتحال یہ ہے کہ ’’ملک افغانوں کا‘حکومت حامدکرزئی کی‘حکم نیٹوافواج کا۔‘‘
بھائی!پہلے کابل سے طورخم تک کاعلاقہ نیٹوافواج سے خالی کراؤ،یہاں افغان فوج کوتعینات کرو،پھربے شک انہیں پاکستان میں داخلے کاحکم دے دینا۔اگرتم یہ بھی نہیں کرسکتے اور یقیناًنہیں کرسکتے ،اگرنیٹو افواج کے بل بوتے پرہم سے بدزبانی کررہے ہوتویادرکھو کہ روسی فوج کے بل بوتے پردھمکیاں دینے والے نورمحمدترہ کئی اورببرک کارمل رہے نہ روسی فوج اورنہ روس۔۔۔لکھ رکھو،نہ تم رہوگے نہ امریکی فوج نہ امریکہ بہادر۔تاریخ میں لکھاجاچکا’’یوایس ایس آر‘‘ تھا۔ تاریخ میں لکھا جائے گا ’’یوایس اے‘‘تھا۔رہ گئے ہم۔۔۔تواگرہم اپنے گھروں میں قتل کردئیے گئے،تب بھی روزِ محشر سرخرواٹھیں گے اور اگرتم اپنے محل میں برسہابرس جی لیے تب بھی روزِ محشر سیاہ رورہوگے۔کیاتمہیں اپنے اس انجام سے خوف نہیں آتا۔!!

«
»

حج کے نام پر ایرانڈیا کو سبسڈی دینا بند کیا جائے

بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے