ریلائنس اسلام دشمنی پر کمربستہ ؟

ریلاینس کی ملکیت والے ٹی وی چینلوں نے بی جے پی کے لئے الیکشن پرچار کیوں کیا اور نریندر مودی کے حق میں ماحول کیوں تیار کیا؟ آخر مکیش امبانی نے وقف کی زمین پر کیوں قبضہ جمایا اور یتیم خانے کی جگہ پر اپنا پانچ ستارہ محل کیوں تعمیر کرایا؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتااور ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنا بھی ضروری ہے۔ اس وقت ملک کی سب سے مالدار کمپنی ہے ریلائنس اور سب سے دولت مند آدمی ہیں مکیش امبانی۔ خواتین میں سب سے مالدار ہیں مکیش امبانی کی بیوی ٹینا امبانی جو کبھی فلم اداکارہ ہوا کرتی تھیں۔یہ صنعتی گھرانہ ملک کا سب سے بارسوخ گھرانہ بھی ہے جو ہر سرکار میں اپنی دخل رکھتا ہے اس کے لئے وزیر بنوانا اور وزیروں کو ہٹوانا معمولی کام سمجھاجاتا ہے۔ ان دنوں یہ مسلم دشمنی پر کمر بستہ دکھائی دے رہا ہے اور اس کے درجنوں ٹی وی چینلوں پر دن رات مسلمانوں کے خلاف پرچار کیا جارہا ہے۔ صحافت جو کبھی حق گوئی کا ذریعہ ہوا کرتی تھی ،آج کسی اور مقصد کے لئے استعمال ہورہی ہے اور ٹی وی چینلوں کو جھوٹے پرچار اور افواہیں پھیلانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
مسلم دشمنی کی حدہوگئی
اس وقت ہندوستانی میڈیا کا سکۂ رائج الوقت ہے ’’لوجہاد‘‘ ۔ ٹی وی چینل والے روزانہ جھوٹی کہانیاں لاکر یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس ملک کے مسلمانوں کا اب کوئی اور کام نہیں رہا، صرف ایک کام ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو عشق کے جال میں پھنسائیں اور انھیں مسلم بچے پیدا کرنے کی مشین بنائیں۔ اس پرچار میں ریلائنس کی ملکیت والے ٹی وی چینل پیش پیش ہیں۔ ان چینلوں میں جو آزاد سوچ رکھنے والے صحافی تھے انھیں باہر کردیا گیا ہے اور تمام بے ضمیر اور معمولی صلاحیت والے لوگوں کو رکھا گیا ہے جو کمپنی کی لائن پر چلیں اور ہر ناجائز کام کرنے کو تیار رہیں۔ ویسے بھی میڈیا میں اب ایسے ہی لوگ نظر آتے ہیں جن کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی ہے اور وہ صرف نوکری کے لئے اس لائن میں آتے ہیں۔ ٹی وی 18نیٹ ورک کے چینلوں پر اب راجیب سر دسائی،آسوتوش ،پردیپ اور ان کے ساتھ والے دیگر صحافی نہیں دکھائی دیتے ،اس کا سبب یہی ہے کہ اس گروپ کا مالک اب ریلائنس ہوچکا ہے اور اسے ایسے صحافیوں کی ضرورت نہیں جو کسی خبر کی سچائی جاننے کی کوشش کریں۔ اس وقت ملک میں دھیرے دھیرے وہ ماحول ختم ہورہا ہے جو لوک سبھا الیکشن سے تیار ہوا تھا اور میڈیا کے پرچار کے سبب جو امیدیں عوام نے مودی سے وابستہ کی تھیں اب ان کا بھی خاتمہ ہورہا ہے اسی لئے اب سرکار کی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے میڈیا ’’لوجہاد‘‘ جیسے معاملات کو چھیڑ رہا ہے ۔ حالانکہ یہ خیال ہی جھوٹ اور افواہ پر مبنی ہے۔ کیرل اور کرناٹک میں کورٹ کے حکم پر اس کی انکوائری ہوچکی ہے اور کہیں بھی ایک واقعہ درست نہیں پایا گیا۔ اس بات کو میڈیا نہیں بتا رہا ہے اور ایک ہوّا کھڑا کر رہا ہے جو مسلمان اور اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریلائنس اپنے ٹی وی چینلوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا ہے؟ کیا مکیش امبانی خود چاہتے ہیں کہ ان کے چینلوں پر مسلمانوں کے خلاف پرچار چلتا رہے؟ 
مودی کو وزیر اعظم بنوایا امبانی نے؟
نریندر مودی کو وزیراعظم کا امیدوار بنانے کی بات سب سے پہلے مکیش امبانی نے گجرات میں ایک کانفرنس کے دوران کہی تھی، اس کے بعد ہی سے میڈیا نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور مودی کو وزیر اعظم بنانے کی تیاری کرانے لگا ۔جب آر ایس ایس نے دیکھا کہ انھیں میڈیا میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، ان کے دامن کے دھبوں کی میڈیا صفائی کر رہا ہے اور ایک قومی ہیرو کے طور پر پیش کر رہا ہے تو اس نے پہلے بی جے پی کی پرچار کمیٹی کا انھیں چیرمین بنوایا اور پھر وزیر اعظم کا امیدوار بنوا دیا۔ اگر گزشتہ بیس سال کا رکارڈ اٹھاکر دیکھیں تو ٹی وی چینلوں نے کسی ایک آدمی کو اتنا طویل کوریج نہیں دیا ہوگا جتنا کہ نریندر مودی کو دیا۔مودی کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کرنے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ مکیش امبانی انھیں وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے اور بیشتر ٹی وی چینلوں کے مالک وہی ہیں لہٰذا ان کا شارہ پاتے ہی پورا الکٹرانک میڈیا اس کام پر لگ گیا۔ ٹی وی چینل بھیڑ چال چلتے ہیں اور جس خبر کو دو بڑے ٹی وی چینل اٹھالیں اسے باقی چینل بھی چلانا شروع کردیتے ہیں لہٰذا جب مکیش امبانی کے ٹی وی چینلوں نے مودی کا گن گان شروع کیا اور ان کی ایک ایک مٹینگ کو LIVEکوریج دینا شروع کیا تو باقی تمام چینل بھی اسی کام میں لگ گئے۔ غورطلب ہے کہ تقریباً دو درجن چینلوں کا مالک ریلائنس ہے اور جب اتنی بڑی تعداد میں ٹی وی چینل مودی کی تشہیر کا کام کر رہے ہوں تو باقی چینلوں کے لئے اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہ جاتا۔گزشتہ لوک سبھا الیکشن سے پہلے پورے ملک کا میڈیا تمام کام چھوڑ کر مودی کے پرچار پر لگ گیا تھا۔ ملک کے اندر کانگریس مخالف لہر تھی جسے مودی لہر کا نام دے دیا گیا اور پھر عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مودی سے بہتر کوئی وزیر اعظم نہیں ہوسکتا۔ وہ اگر اقتدار میں آگئے تو ملک کے تمام مسائل حل کردیں گے اور یہاں دودھ کی ندی بہنے لگے گی۔ حالانکہ یہی میڈیا تھا جس نے گجرات فسادات (۲۰۰۲ء) کے بعد مودی کو اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ انھوں نے میڈیا سے بات کرنا اور اسے انٹرویو دینا تک چھوڑ دیا تھا۔ اسی میڈیا نے فرضی انکاؤنٹرس میں ان کے رول کے لئے انھیں ملامت کا نشانہ بنایا تھا اور یہی میڈیا ہے جس نے ایک لڑکی کی جاسوسی کے معاملے میں انھیں ہدف تنقید بنایا تھا۔ آخر کیا ہوا کہ راتوں رات ان کے سارے پاپ دھل گئے اور وہ ٹی وی چینلوں کی نظر میں ایک قومی ہیروبن گئے؟ ان کے پل پل کی خبریں پیش کی جانے لگیں اور انھیں ایک ایسے لیڈر کے طور پر پیش کیا جانے لگا جس نے گجرات کے تمام مسائل حل کردئے ہوں۔ ٹی وی چینلوں نے ان ناکامیوں کی طرف سے اچانک آنکھیں کیوں موند لیں جو گجرات میں آج بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں؟ کیا گجرات میں غریبی نہیں ہے؟ بھکمری نہیں ہے؟ بچے اسکول جانے سے محروم نہیں ہیں؟ سڑکیں خراب نہیں ہیں؟ اور کرپشن نہیں ہوتا ہے؟ اصل میں یہ سب جوں کا توں ہے مگر صرف اس لئے میڈیا ان کی خوشامد کرنے لگا کیونکہ مکیش امبانی مودی کی حمایت میں آچکے تھے اور انھیں لگتا تھا کہ ایک ایسا وزیر اعظم ان کی کمپنی کے مفاد میں ہوگا جو، ان کے احسان تلے دبا ہوا ہو۔ مودی کو وزیر اعظم بنانے میں صرف آر ایس ایس کا ہی ہاتھ نہیں ہے، بلکہ سب سے بڑا ہاتھ تو ریلائنس کا ہے جس نے انھیں عوامی ہیرو کے طور پر پیش کیا اور سرف اکسیل کی طرح ان کے دامن کے دھبوں کو صاف کر کے چمکادیا۔ 
ریلائنس میں یہودیوں کی سرمایہ کاری
اس وقت ریلائنس کی ملکیت میں بڑے بڑے ٹی وی چینل ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ریلائنس میں کیا یہودیوں نے بھی سرمایہ کر رکھی ہے؟ اور انھین کی دولت سے یہ تمام چینل اور میڈیا گروپ خریدے گئے ہیں؟ موجودہ دور میں ہندوستانی کمپنیوں میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے اور اس میں یہودی سب سے پیش پیش ہیں۔چونکہ ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہوتی لہٰذا وہ ایسی جگہیں ڈھونڈتے رہتے ہیں جہاں سرمایہ لگاسکیں اور اس وقت انھیں بھارت سے بہتر کوئی ملک نہیں دکھائی دیتا جوکہ ایک ابھرتی معیشت ہے۔ یہ ضروری نہیں کی وہ اسرائیل سے ہی آئیں وہ فرانس، جرمنی، امریکہ اور انگلینڈ کے راستے سے بھی یہاں آرہے ہیں اور سرمایہ لگا رہے ہیں۔ عام طور پر ان کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے لہٰذا وہ اپنی ایک شہریت دکھاتے ہیں اور اسرائیل کی نہیں دکھاتے۔ اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کیاہندوستانی میڈیا اور خاص طور پر ریلائنس میں یہودیوں کی سرمایہ کاری تو نہیں؟ یہ شک یقین میں اس لئے بھی بدلتا جارہا ہے کہ یہاں کا میڈیا ان دنوں مسلمانوں کے تعلق سے زیادہ سخت رویہ اپنا رہا ہے اور ریلائنس کے چینلوں کے بارے میں یہ بات اور بھی یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے۔ ریلائنس گروپ نے تمام بڑے بڑے ٹی وی چینلوں کو خرید لیا ہے یا ان میں سرمایہ کاری کر ررکھی ہے۔ اس میں مختلف زبانوں کے نیوز چینل ، تفریحی اور معلوماتی چینلس سے لے کر بچوں کے چینل بھی شامل ہیں۔ اس نے ای ٹی وی گروپ کے تمام چینلوں کو ای نائیڈو گروپ سے خرید لیا ہے تو اسی کے ساتھ ٹی وی 18نیٹ ورک کو بھی اپنے کنٹرول میں کر لیا۔ اس طرح وہ کئی درجن چینلوں کا مالک بن چکا ہے۔ ان چینلوں میں CNN-IBN

«
»

حج کے نام پر ایرانڈیا کو سبسڈی دینا بند کیا جائے

بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے