عراق وشام کا علاقہ جہاں مختلف مسلکوں اور فرقوں کا ظہور ہوا

اور رہے سہے کچھ علاقوں پر خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں قبضہ ہوگیا۔ اسی زمانے میں ایران بھی خلافت اسلامی کے دائرے میں آیا۔ اسلامی مقبوضات میں شامل ہونے سے پہلے یہاں ایران و روم کی شہنشاہیتوں کا قبضہ تھا۔ مسلمانوں نے یہاں قدم جمانے کے بعد اسی علاقے کو اسلامی مملکت کی راجدھانی کے لئے منتخب کیا اور علم و فن کو ترقی دیااور اسی خطے میں وہ اسلامی اور غیر اسلامی نظریات ابھرے جن کا سر چشمہ اسلام تھا۔یہیں علم حدیث، تفسیر، عقیدہ تصوف اور فنِ اسماء الرجال کی تدوین ہوئی تو اسی علاقے میں یونانی منطق و فلسفہ کو نئی زندگی مسلمان اہل علم اورعلم نواز حکمرانوں کے ہاتھوں ملی۔ یہیں علم کیمیا کو مسلمان کیمیا گروں نے نئے نئے تجربوں سے گذارا تو اسی علاقے میں فن طب کو ایک نئی بلندی ملی اور ابن سینا جیسے طبیب پیدا ہوئے۔ یہیں شیعہ اور سنی گروہوں کی الگ پہچان قائم ہوئی جہاں ایک طرف مسلمانوں کے دو اعتقادی گروپ اشاعرہ اور ماتریدیہ کا ابھر کر سامنے آئے تو یہیں معتزلہ جیسا طاقت ور گروہ بھی سامنے آیا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ یہیں خارجیوں اور قرامطہ نے اسلام کی بام بلند کو زمیں بوس کرنے کی کوششیں اسلام کے نام پر کیں تو یہی خطہ حشیشین کی سازشوں کا گواہ بھی بنا۔ اسی علاقے میں حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی فقہی مسالک کو پروان چڑھنے کا موقع ملا تو اسی خطے نے اسلامی آرٹ
اور کلچرکو بھی عروج کی منزلیں طے کرتے دیکھیں اور قرآن کی خطاطی کے ایسے ایسے نمونے سامنے آئے کہ جن پر فنکاری بھی رشک کرے۔ 
خارجیوں نے مسلم حکمرانوں کو پریشان کئے رکھا
اسلامی فرقوں میں بہت سے آج بھی موجود ہیں مگر ایسے فرقوں کو بھی کمی نہیں جن کا ظہور تو اسلام کے نام پر ہوا اور انھیں عروج بھی حاصل ہوا مگر پھر ان کا خاتمہ ہوگیا۔ ایسے ہی فرقوں میں ایک فرقہ خارجی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جن دنوں خلیفۂ چہارم حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ اور جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے تھے یہاں تک کہ ان کے بیچ صفین کے مقام پر جنگ بھی ہوئی۔ اسی دوران ایک فرقہ خارجی کے نام سے پیدا ہوا تھا جو حضرت علی کا شدید مخالف تھا۔یہ وہ لوگ تھے جو دونوں بزرگوں کی صلح کی کوشش کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سیاسی معاملات میں حضرت امیر معاویہ سے صلح نہ کریں۔ حضرت علی نے انھیں سمجھانے کو لاکھ کوششیں کیں مگر کچھ بھی کام نہ آیا۔ ایک موقع پر ان کے ایک سردار نے خلیفہ چہارم کے خلاف کفر کا فتویٰ بھی دے دیا تھا اور پھر اس کے بعد حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی اس جماعت نے کفر کا فتویٰ صادر کیا تھا۔ یہ لوگ مملکت اسلامی میں فتنہ اندازی کیا کرتے تھے اور ان کی سازش اس قدر بڑھی کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش بھی رچنے سے گریز نہ کیا۔ ایک خارجی نے آپ پر عین حالت نماز میں حملہ کر کے شہید کردیا جب کہ دگر دو خارجیوں نے دوسرے دو بزرگوں کے قتل کی سازش کی جن میں ایک تو حضرت امیر معایہ تھے اور دوسرے مصر کے گورنر عمربن العاص رضی اللہ عنہما تھے۔ شیعان علی کی حمایت کے ردعمل میں پیدا ہونے والے خارجیوں کی دہشت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ ان کے خوف سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خفیہ طور پر دفن کیا گیا۔مورخین کے مطابق آپ کی قبر آج بھی لاپتہ ہے۔ حالانکہ شیعہ حضرات اسے نجف اشرف میں بتاتے ہیں۔ بنوامیہ کی تاریخ کے ضمن میں بھی خارجیوں کا ذکر ملتا ہے۔عبدالملک بن مروان نے جب حجاج بن یوسف کو کوفہ کو گورنر بنایاتو اس نے خارجیوں کے خاتمے کی کوششیں کیں مہلب بن ابو صفرہ کو اس کی سرکوبی کے لئے متعین کیا جس نے ان کی طاقت کو توڑ دیا۔ بعد میں بھی وہ کبھی کبھی سر اٹھاتے رہے مگر یہ تب ہی سر اٹھاتے جب انھیں لگتا کہ خلیفۂ وقت کمزور ہے۔انھوں نے اموی خلیفہ مروان بن محمد کے دور میں بھی سراٹھایا تھااوربنو عباس کے دور میں بھی کبھی کبھی منظر عام پر آئے۔ خوارج عام طور پر باہمت تھے اور اپنے سے زیادہ لوگوں کی جمعیت کو ہرادیتے تھے۔ ان کا مرکز عراق اور خراسان کا علاقہ رہا ہے۔
فرقہ راوندیہ نے اپنے خدا سے لڑائی کی
فرقہ راوندیہ کا ظہور خلیفہ ابوجعفر منصور عباسی کے عہد میں ہوا۔ یہ ۱۳۷ھ میں تخت نشیں ہوا تھا۔ اس دور میں فقہ حنفی کے بانی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ موجود تھے۔راوندیہ فرقہ کے لوگ راوند علاقے میں رہتے تھے اسی مناسبت سے انھیں راوندیہ کہا گیا حالانکہ یہ بنیادی طور پر ایران اور خراسان کے رہنے والے تھے۔ یہ لوگ عموماً جاہل تھے اور خلافت و امامت کے عقائد رکھتے تھے مگر اسی کے ساتھ وہ بعض جاہلانہ عقائد بھی رکھتے تھے جن میں سے ایک تو یہ تھا کہ خلیفہ منصورکے اندر خداداخل ہوگیا ہے اور اس کا دیدار کرنا باعث ثواب ہے۔وہ یہ بھی مانتے تھے کہ حضرت آدم کی روح عثمان بن نہیک میں داخل ہوگئی ہے اور فرشتہ جبرئیل علیہ السلام نے ہثیم بن معاویہ میں حلول کرلیا ہے۔ یہ لوگ جب دارالخلافہ میں آکر اپنے عقائد کا کھلم کھلا اظہار کرنے لگے تو خلیفہ نے ان میں سے ڈھائی سو افراد کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ اب جوان کے ہم عقیدہ باہر رہ گئے تھے انھوں نے جیل خانے پر حملہ کردیا اوراپنے ساتھیوں کا آزاد کرانے کے بعد خلیفہ منصور کے محل کا بھی محاصرہ کرلیا۔ یہ عجیب بات تھی کہ جس منصور کو وہ خدا مانتے تھے اسی کا محاصرہ کرچکے تھے اور اسی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ انھوں نے اس شدت کے ساتھ لڑائی لڑی کہ خلیفہ کو مشکل سے جیت ملی اور اس کی جان بچی۔اس فرقے کا جلد ہی خاتمہ ہوگیا اب تاریخ میں صرف اس کا تذکرہ ہی باقی رہ گیا ہے۔ 
معتزلہ جو قرآن کو مخلوق مانتے تھے 
مامون رشید عباسی کے دور حکومت میں ایک فرقہ ابھرا تھا جس کا اس دور میں بڑا زرو تھا اور خود خلیفہ وقت بھی اس کے زیر اثر آگیا تھا۔ اس فرقے کا نام معتزلہ تھا۔ عباسی خلافت کا زمانہ کئی لحاظ سے اہم تھا خاص طور پر علم و فن کے فروغ کے لئے یہ موزوں دور تھا۔ ساری دنیا کے اہل علم کا مرکز بغداد بن چکا تھا جہاں یوروپ سے ہندوستان تک کے علماء جمع ہوا کرتے تھے اور مختلف علوم و فنون پر تحقیق اور بحث و 
مباحثے کیا کرتے تھے۔اس کھلے بحث و مباحثے کا یہ اثر ہو اکہ ’’ خلق قرآن‘‘ کے مسئلے نے جنم لیا۔ یونانی فلسفہ اور منطق کے زیر اثر دینی علوم بھی آنے لگے اور قرآنی علوم سے لے کر صرف و نحو تک میں اس کی شمولیت ہونے لگی۔ اسی کا نتیجہ تھایہ سوال کہ قرآن مخلوق ہے یا نہیں؟ معتزلہ مانتے تھے کہ قرآن مخلوق ہے۔جب کہ اس دور کے عام علماء کا کہناتھا کہ قرآن خالق کا کلام ہے لہٰذا مخلوق نہیں ہوسکتا بلکہ وہ صاحب کلام کی طرح ہی قدیم ہے۔ اس بحث نے اس قدر طول پکڑ لی کہ مسلمانوں میں دو گروہ بن گئے اور خلیفہ بھی معتزلی ہوگیا۔ حکومت کی طرف سے ان لوگوں پر مظالم ڈھائے جانے لگے جو قرآن کو مخلوق نہیں مانتے تھے۔ بڑے بڑے علماء اس کی زد میں آئے۔ حالانکہ خلیفہ مامون رشید خود بھی ایک دیندار انسان تھا اور علماء کی قدر کرتا تھا۔معتزلی ہر اسلامی عقیدے کو عقل کے ترازو میں تولنے کے قائل تھے۔ اس دور میں فرقہ معتزلہ کا اس قدر زور تھا کہ اس کے خلاف کچھ بھی اظہار رائے کرنا جرم کے دائرے میں آتا تھا مگر پھر اس کا خاتمہ ہوگیا اور آج پڑھے لکھے لوگ بھی اس کے نام سے وقف نہیں۔ 
قرامطہ نے سنگ اسود کو توڑ ڈالا
عراق کے شہر کوفہ میں ۲۷۸ھ میں ایک شخص پیدا ہوا جس کا نام حمدان تھا اور قرامطہ عرف تھا۔ اسی کے نام پر اس سے منسوب فرقے کی بنیاد پڑی کیونکہ اس کا بانی یہی شخص تھا۔ اس فرقے کا عقیدہ تھا کہ اماموں کی تعداد بارہ نہیں بلکہ صرف سات ہے۔ حمدان کا مانناتھا کہ ساتویں امام عبیداللہ بن محمد ہیں اور یہ خود کو ان کا نائب کہتا تھا۔ یہ محمد بن حنفیہ بن علی بن ابی طالب کو رسول مانتا تھا۔ چنانچہ اذان میں با قاعدہ طور پر’’ اشہد ان محمد بن حنفیہ رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کا اضافہ کردیا تھا۔ ان کے مطابق دن ورات میں صرف دو نمازیں فرض تھیں اورقبلہ خانہ کعبہ کے بجائے بیت المقدس کو قرار دیا تھا۔ اسی طرح روزے بھی سال بھر میں صرف دو فرض قرار دیئے تھے۔ اس شخص کے عقیدے کے مطابق شراب حلال تھی اور غسل جنابت غیر ضروری تھا۔ حمدان نے اپنا لقب قائم باالحق رکھا اور جو اس کے فرقے کی مخالفت کرتا اسے واجب القتل مانتا تھا۔ اس کے عقائد سے واقف ہوکر حکومت وقت نے اسے قید میں ڈال دیامگر وہ کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا اور اپنے خیالات کی اشاعت کرنے لگا۔ اس کے ساتھ کچھ لوگ جمع ہوگئے اور اس کا مذہب پھیلنے لگا۔ ان لوگوں نے رفتہ رفتہ طاقت حاصل کرلی اور کئی علاقوں پر قابض بھی گئے۔ اسلامی سلطنت کمزور ہوگئی تھی جس کا فائدہ بھی انھیں ملااور یہ لوگ سفر کے راستوں میں مسافروں کے ساتھ لوٹ مار کرنے لگے۔ ان کے اثرورسوخ عراق، شام، بحرین تک قائم ہوگئے تھے۔ کچھ شہروں پر ان کی حکومت قائم ہوچکی تھی۔۳۱۸ھ میں قرامطہ نے حج کے دوران حاجیوں کو قتل کیا اور خانۂ کعبہ کے اندر بھی قتل و غارتگری کی۔کعبہ کی محرابوں کو توڑنے کی کوشش کی اور پہلے توسنگ اسود کو گرز مارکر توڑ ڈالا پھر مقدس حجر اسود کو خانہ کعبہ سے اٹھا لیا اور اسے بحرین لے گئے جہاں ان کی حکومت تھی۔ بیس سال تک یہ مقدس پتھر
بیت اللہ سے دور رہا۔ 
قرامطہ کا خاتمہ بھی ایک دن ہوگیا اور آج اس کا تذکرہ صرف کتابوں میں ملتا ہے مگر بعض تاریخ نویسوں کا ماننا ہے کہ موجودہ دور میں آغا خانی اسی کی باقیات میں سے ہیں جو پرنس آغا خان کو اپنا رہنما مانتے ہیں۔ انھیں خوجہ بھی کہا جاتا ہے۔ 
حشیشین جو نشیلی دواؤں کا استعمال ہتھیار کے طور پر کرتے تھے
اسلام کے نام پر جن مختلف فرقوں کا ظہورہوا ان میں یک فرقہ حشیشین بھی تھا۔ یہ لوگ اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے حشیش کا استعمال کرتے تھے اور اپنے حامیوں کو اس کے نشے میں بھی مبتلا کرتے تھے لہٰذا تاریخ میں انھیں حشیشین کہا جانے لگا۔ اس کا بانی حسن بن صباح تھا جو بے حد عیار اور مکار انسان تھا۔ اس نے قلعہ الموت خرید لیا تھا اور اسی کے اندر اپنا اڈہ بنا رکھا تھا۔ وہ انتہائی خفیہ طریقے سے اپنے دشمنوں کا کام تمام کردیتا تھا۔ یہ کام اس کے فدائی کیا کرتے تھے جو اس کے اشارے پر کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے تھے۔ یہ لوگ امام موسیٰ کاظم کے بجائے ان کے بھائی اسمٰعیل کو امام مانتے تھے اوراسمٰعیل بن جعفر صادق کو پیغمبر مانتے تھے۔ اسی طرح یہ لوگ محمد بن مکتوم بن جعفر صادق کو بنی مانتے تھے۔ یہ قرآن کو قابل عمل نہیں جانتے تھے۔ حسن بن صباح کی قائم کردہ حکومت تقریباً پونے دوسو سال تک قہستان میں قائم رہی جس کا خاتمہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔

«
»

’’17ستمبر‘‘۔۔۔یومِ نجات نہیں یومِ ماتم !

مسئلہ فلسطین کا حل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے