’’ننگا نگر ‘‘جہاں کپڑے پہننے والے بیوقوف سمجھے جاتے ہیں۔

لیکن ایسے لوگ اس دنیا میں ہیں اور یہ کسی آدیباسی طبقے سے تعلق نہیں رکھتے،یہ افریقہ کے صحراؤں کے باشندے نہیں ہیں، یہ بھارت کے ناگا یا جینی سادھو نہیں ہیں،یہ جاہل اور ان پڑھ وگنوار طبقے سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ آج کی مہذب دنیا کے باشندے ہیں اور پڑھے لکھے ہیں نیز امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا کے مہذب باشندے ہیں۔کیا آپ کو تعجب نہیں ہوا؟ آئیے ہم آپ کو اس کی کچھ تفصیلات بتاتے ہیں۔
نیچرزم کیا ہے؟
دنیا میں پہلی بار فرانس میں۱۷۷۸ء میں اس خیال نے جنم لیا کہ انسان کو فطرت پرست ہونا چاہئے۔ یہ ان انسانوں کی سوچ تھی جو شہری زندگی کی ہلچل سے عاجز آچکے تھے اور ایک فطری زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ایسے کچھ لوگوں نے ایک فطری ماحول میں جینا شروع کیا۔ وہ پیڑوں ،پودوں اور مظاہر فطرت کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے۔ انھیں میں کچھ لوگوں نے مزید فطری زندگی گزارنے کے ارادے سے ننگے رہنا شروع کردیا۔اس سوچ کو ابتدا میں تو کچھ خاص قبولیت نہیں حاصل ہوئی مگر جیسے جیسے انسان زیادہ ہلچل بھری اور تناؤ سے پر زندگی گزارنے کا عادی ہوا ،اسے اس زندگی سے فرار کی چاہت بھی اسی قدر زیادہ ہوتی گئی اور اس نظریے کو فروغ ملنے لگا کہ آدمی کو جانوروں کی طرح ہی ایک قدرتی ماحول میں جینا چاہئے نیز اسے ویسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ اسے خدا نے دنیا میں بھیجا تھا۔ اس سوچ نے نیچرزم یا نیوڈزم کو جنم دیا۔اسے ہم اردو میں فطریت، فطرت پرستی یا عریانیت پرستی کہہ سکتے ہیں۔نیچرزم کی اصطلاح پہلی بار ۱۷۷۸ء میں فرانس میں استعمال ہوئی۔
نیچرزم کا فروغ:
نیچرزم یا عریانیت پرستی کو بیسویں صدی کی ابتدا میں خاص مقبولیت حاصل ہوئی اور یہ نظریہ دنیا کے لگ بھگ ان سبھی ملکوں میں پھیل گیا جو شہریت کے مسائل سے عاجز آچکے تھے اور ذہنی تناؤ سے چھٹکارا چاہتے تھے۔ اس نظریے کے ماننے والے آج دنیا کے تقریبا تمام ترقی یافتہ ملکوں میں موجود ہیں ،مگر سب سے زیادہ یہ امریکہ،کناڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، نیدر لینڈ، کروشیا،آسٹریلیا، پولینڈ، سلووینیا اور اسپین میں ہیں۔انٹرنیشنل نیچرسٹ فاؤنڈیشن کے اعلان کے مطابق ہرسال جون مہینے کے پہلے اتوار کو یہ لوگ ’’یومِ عریانیت پرست‘‘ کے طور پر مناتے ہیں۔یہ نظریہ انسان کو خلوت اور عوامی زندگی میں ننگے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ابتدا میں ہی ننگے رہنے والوں کے کلب مغربی ملکوں میں کھلنے لگے تھے مگر دھیرے دھیرے مقبولیت اس قدر بڑھی کہ ان کی کالونیاں بھی آباد ہونے لگیں۔اب ان کے ہولی ڈے سینٹرس، ریسورٹس اورسویمنگ پولس ہیں،جہاں سائن بورڈ پر جلی حرفوں میں لکھا ہوتا ہے’’یہاں سترپوشی ممنوع ہے‘‘۔ مغربی ملکوں کے ساحلِ سمندر پر اس فرقے کی سینکڑوں افراد پر مشتمل ٹولیاں نظر آتی ہیں۔ جرمنی اور ڈنمارک میں ’کلاتھ فری ساحل ہیں،جہاں کپڑے پہنے اگر کوئی نظر آجائے تو اسے حیرت سے لوگ تکتے ہیں۔بارسلونا میں اس قسم کے دو ساحل ہیں جبکہ میامی میں ایک پارک ہے جہاں بے لباسی شرط ہے۔ اسپین میں VERA PLAYAنامی مقام پر ان کے اپارٹمنٹ ہیں،مکانات ہیں،بازار وغیرہ ہیں۔ یہاں ایک چھوٹے سے شہر کی تمام سہولتیں مہیا ہیں۔ان کے میگزین اور اخبار شائع ہوتے ہیں اور انٹرنیٹ پر ان کی بڑی تعداد میں ویب سائٹس ہیں۔ان کی بینالاقوامی انجمنیں بھی ہیں۔THE NATURIST SOCIETY اورAMERICAN ASSOCIATION FOR NUDE RECREATION.امریکہ کی دو معروف نیوڈسٹ تنظیمیں ہیں۔
دنیا میں نیچرسٹ کتنی تعدادمیں ہیں اس تعلق سے کوئی ٹھوس جانکاری دستیاب نہیں ہے البتہ انٹرنیٹ پر ان کی تعداد چالیس ملین تک بتائی گئی ہے،جو مشکوک ہی لگتی ہے۔انٹرنیٹ پر موجود جانکاری کے مطابق امریکہ کی 0.1فیصد آبادی نیچرسٹ ہے ۔ ایک سروے کے مطابق ان میں54 فیصدریپبلکن پارٹی کے حامی ہیں جب کہ 45 فیصد ڈیموکریٹ ہیں اور ایک فیصد آزادانہ سیاسی سوچ رکھتے ہیں۔
عریانیت پرستوں میں جاہل اور ان پڑھ لوگ بالکل نہیں ہیں۔ ان میں بیشتر افراد بہت زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ یہ قانون ساز ہیں، قانون داں ہیں، جج ہیں، پروفیسر ہیں، انجنیر ہیں، سرکاری آفیسر، الکٹریشین، پلمبر اورٹرک ڈرائیور ہیں۔
طرزِ زندگی:
نیچرزم کے ماننے والے مادرزاد برہنہ رہتے ہیں۔یہ جسم پر کسی قسم کا لباس نہیں پہنتے۔ ان کا ماننا ہے کہ انسان کو اللہ نے جیسا دنیا میں بھیجا ہے اسے اسی طرح رہنا چاہئے ۔ یہی سبب ہے کہ یہ کسی بھی قسم کے لباس سے عاری رہتے ہیں۔چونکہ اب ان کی تعداد خاصی بڑھ گئی ہے لہذا اب ان کی الگ کالونیاں بھی بن گئی ہیں۔ یہ اپنی کالونیوں میں آزادی کے ساتھ ننگے رہتے ہیں۔ یہاں عمر کی کوئی قید نہیں،جنس کی کوئی قید نہیں،سبھی ایک ساتھ بغیر کپڑے کے رہتے ہیں اور اپنے روزمرہ کے معمولات پر عمل کرتے ہیں۔ خواتین کسی بھی مرد کے سامنے لباس نہیں پہنتیں ،وہ ان کا شوہرہو،بیٹا ہو ،باپ یا کوئی اجنبی۔ یہی حال مردوں کا بھی ہے۔ ان کی کالونیوں میں فٹبال میدان ،کرکٹ میدان،ٹینس اور دوسرے کھیلوں کی جگہوں پر لوگ برہنہ حالت میں کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور تماشائی بھی اسی حالت میں ہوتے ہیں۔سویمنگ پول میں ہر کوئی اسی حالت میں ہوتا ہے اور چرچ میں بھی سب بے لباس ہوتے ہیں۔ان کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ تقریبا ساری دنیا میں عوامی مقامات پر پوری طرح بے لباس ہونا جرم ہے۔ ایسے میں یہ لوگ اپنے گھر ،گارڈن اور مخصوص مقامات پر تو بے لباس رہتے ہیں مگر جب عام لوگوں کے بیچ جانا ہو تو ستر پوشی کرلیتے ہیں۔
۱۹۹۵ء میں پاؤل اکامی(PAUL OKAMI)نامی ایک محقق نے ان پر تحقیق کی تو پایا کہ جن بچوں کو ابتدا سے ہی ننگے رہنا سکھایا گیا ان پر اس کے کچھ بھی برے اثرات مرتب نہیں ہوئے،یہاں تک کہ وہ اٹھارہ سال کے ہو گئے تب بھی نہیں۔اس سلسلے میں امریکہ اور دوسرے ملکوں میں کئی سروے اور ریسرچ ہوچکے ہیں۔
مذہبی نظریہ:
نیچرزم یا نیوڈزم کے ماننے والے عام طور پر عیسائی ہوتے ہیں مگر ان میں ایک آدھ فیصد یہودی بھی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انسان اس دنیا میں ننگا آتا ہے، پیدا ہونے والے بچے کے جسم پر کوئی لباس نہیں ہوتالہذا انسان کی فطری حالت یہی ہے اور اسے اسی حالت میں ہونا چاہئے۔ آدم وحوا کو اللہ نے ننگا پیدا کیا اور انھیں اسی حالت میں زمین پر اتارا۔اسی طرح عیسیٰ کو جب سولی دی گئی تو وہ بے لباس تھے نیز جب وہ دوبارہ اپنی قبر سے زندہ ہو کر باہر آئے تو اپنا کفن قبر میں ہی چھوڑ آئے تھے۔ ننگے رہنے والے ان لوگوں کی دلیل ہے کہ عیسائیت کے ابتدائی ہزار برس تک لوگ چرچ میں برہنہ جاتے تھے لہذا عیسائی دھرم کے ماننے والوں کی اصلی حالت یہی ہے۔تعجب اس میں نہیں ہونا چاہئے کہ ایک عیسائی ننگے رہتا ہے بلکہ تعجب اس میں ہونا چاہئے کہ ایک عیسائی کپڑے پہنتا ہے۔یہ فرقہ کرسمس سے ایک دن پہلے خاص طور پر جمع ہوتا ہے اور اپنی عریانیت کی فضیلت میں تقریریں کرتا ہے۔ اس فرقے کا ماننا ہے کہ انسان ایک دوسرے کی عزت اس کے لباس کی بنیاد پر کرتا ہے مگر یہ غلط ہے، لوگوں کو ایک دوسرے کا احترام اس کی شخصیت اور انسانیت کی بنیاد پر کرنا چاہئے۔ عریانیت پرستی انسان کو انسان کا حترام کرنا سکھاتی ہے نہ کہ اس کے لباس کا۔ 
آسٹریلیا کے مسٹر جم ایک نیچرسٹ ہیں۔ وہ چرچ میں ننگی حالت میں لوگوں کے مذہبی رسوم کی پیشوائی کرتے ہیں اور اس چرچ میں موجود تمام عقیدت مند مرد وخواتین بھی ننگے ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے لئے چھپانے کو کچھ نہیں ہے۔میں اسی حالت میں گزشتہ تیس برسوں سے رہتا ہوں اور اسی حالت میں اپنے تمام کام بھی کرتا ہوں۔ یہاں تک کہ بائبل مقدس کی تلاوت کرتا ہوں اور لوگوں کے مذہبیرسوم کی ادائیگی بھی کراتاہوں۔ مجھے کوئی دشواری نہیں ہے۔ مجھے خدا نے اسی حالت میں لوگوں کی لیڈرشپ کے لئے چنا ہے۔ مسٹر جم نیشنل جیوگرافک چینل کے صحافیوں سے جس وقت یہ باتیں کہہ رہے تھے تب بھی ان کے ہاتھ میں بائبل کا ایک نسخہ موجود تھا اور یہی نسخہ کیمرے کی نظر سے ان کی ستر پوشی کر رہاتھا۔
مس لیلی ایک صحتمند بزرگ خاتون ہیں جو عریانیت پرست طبقے کی ایک فرد ہیں۔ وہ بالکل عریاں حالت میں ہی اپنے موٹے اور بھدے جسم کولئے لگ بھگ ایک درجن بے لباس مردوخواتین کے ساتھ برف پردوڑتی ہوئی ٹی وی چینل کے کیمرے میں قید ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں ہاں میں جانتی ہوں میرا جسم موٹا اور بھدا ہے، میرے کولہے پر چربی کی موٹی تہیں ہیں مگر اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ میرے خدا نے مجھے ایسا ہی بنایا ہے۔ میں خود کو اسی حالت میں پسند کرتی ہوں جیسا کہ مجھے بنانے والے نے بنایا ہے،دوسروں کو بھی چاہئے کہ مجھے اسی حالت میں قبول کریں۔مس لی لی کو اسی حالت میں ٹی وی پر آنے میں کسی قسم کا مضائقہ نہیں لگتا،وہ اسی حالت میں انٹرویو دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ننگے پن کا سیکس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ لباس کی عادت انسان کو جنسی خواہش کی جانب راغب کرتی ہے،یہی سبب ہے کہ جب وہ عریاں ہوتا ہے تو سیکس کے بارے میں سوچتا ہے۔ اگر آدمی عریانیت کا عادی ہوجائے تو وہ سیکس کے بارے میں سوچنا بند کردے۔ (مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور راسکرپٹ ائٹر ہیں) 

«
»

اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

تھکن دور کرنے والی غذائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے