داعش ،اسلام کا دوست یا دشمن؟

کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ مسلمانوں کو برادر کشی کی اجازت ہے؟ خون بہانے اور مرنے مارنے کے تمام حقوق ہم نے اپنے پاس ہی محفوظ رکھے ہیں؟ اس وقت جوخبریں آرہی ہیں وہ دل کو دہلادینے والی ہیں اور اسلام ہی نہیں انسانیت کو بھی شرمندہ کرنے والی ہیں؟ جو تصویریں اور ویڈیو عراق اور شام سے آرہے ہیں ان میں انسانوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ ذبح کرتے ہوئے دکھایا جارہا ہے، سوال یہ ہے کہ اگر یہ تصویریں درست ہیں تو داعش کا یہ عمل کس قدر ہیبت ناک اور انسانیت سوز ہے؟ وہ تنظیم جو خود کوپرچم اسلام کی علمبردار کہتی ہے اور اسلامی خلافت کے قیام کی دعویدار ہے اس کی جانب سے اس قسم کی حرکتیں شکوک و شبہات پیدا کر تی ہیں۔ اسلام تو امن و سلامتی کا مذہب ہے، یہاں خون خرابے کے لئے کیا جگہ ہے؟ یہ تو اعتدال کا دین ہے یہاں انتہا پسندی کی گنجائش کہاں؟ عراق اور شام سے آنے والی تصویریں جن ذرائع سے آرہی ہیں وہ مغربی ہیں یا مغرب نواز ہیں اس لئے تمام تصویروں کی سچائی پر یقین کرنا مشکل لگتا ہے مگر اسی کے ساتھ دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ خود داعش کے ذمہ داران الزامات کی تردید کیوں نہیں کرتے جو ان پر لگائے جارہے ہیں؟ ان دنوں ایک بحث یہ بھی شروع ہوچکی ہے کہ داعش اور شدت پسند گروہ کیا آج کے خارجی ہیں؟ یہ بحث اس لئے اٹھ رہی ہے کہ اسلام ایک اعتدال کا مذہب ہے اور یہاں انتہاپسندی کی کوئی گنجائش نہیں مگر تاریخ میں خارجیوں کا جو کردار رہا ہے وہ ان انتہا پسندوں سے ملتاجلتا ہے جو آج ساری دنیا میں خلفشار مچائے ہوئے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ان کے ساتھ محض اس بنیاد پر ہمدردی رکھتا ہے کہ یہ امریکہ اور اسرائیل جیسے دشمنان اسلام سے مقابلہ کر رہے ہیں اور جن بیرونی طاقتوں نے عالم اسلام پر قبضہ کر کھا ہے نیز ان کے وسائل کو مغرب لے جارہے ہیں ان سے یہ مقابلہ کر رہے ہیں۔ 
خارجی کون ہیں؟
ساتویں صدی عیسوی میں ،جب کہ خلیفہ راشد حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا دورخلافت تھا سب سے پہلے اسی زمانے میں خارجیوں کا ظہور ہو اتھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اسلام کے احکامات پر شدت کے ساتھ عمل پیرا تھے اور اعتدال کے راستے سے بھٹکے ہوئے تھے۔ یہ اپنے مقاصد کی بر آوری کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے یہاں تک کہ ہتھیار بھی اٹھاتے تھے اور مسلمانوں کا قتل کرنے سے بھی گریز نہ کرتے تھے۔ ’’خارجی ‘‘کا لفظی مفہوم ہے’’باہر نکل جانے والا‘‘۔ دوسرے الفاظ میں باغی بھی کہا جاسکتا ہے۔تاریخ کی کتابوں میں ان کا سب سے پہلے ذکر جنگ صفین کے حوالے سے ملتا ہے۔ یہ جنگ صفین کے مقام پر ۳۷ ؁ھ میں لڑی گئی تھی اوردونوں جانب مسلمانوں کے ہی دو گروہ تھے۔ ایک گروہ کی قیادت حضرت علی رضی اللہ عنہ کر رہے تھے جب کہ دوسرے کی امیر معاویہ۔جنگ کا خاتمہ صلح پر ہوا اور جب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کوفہ کی طرف لوٹ رہے تھے تو ان کی فوج میں دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ ان کے احکام پر عمل پیرا تھا اور انھیں خلیفہ برحق مانتا تھا مگر دوسرے گروہ نے ان کی مخالفت شروع کردی اور یہ کہنا شروع کیا کہ انھوں نے صلح کر کے غلط کیا ہے۔ اس گروہ نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور راستے میں ہی الگ ہوگیا۔ اس کا ماننا تھا کہ کوئی خلیفہ نہ رہا اور نہ ہی کوئی عالم اسلام کا حکمراں رہا۔ اب مسلمان خود ہی اپنے طور پر اپنا نظام چلائیں ۔ انھوں نے حضرات علی و امیر معاویہ دونوں کی مخالفتت کی اور اس میں وہ اس قدر سخت ہوئے کہ انھیں قتل کرنے کی سازش بھی رچی۔ یہی وہ گروہ تھا جسے خارجی کہا جانے لگا۔ بعد کے دور میں ان کے اثرات بڑھے اور کئی مقامات پر اس گروہ کا ہاتھ فتنہ پردازیوں میں دیکھا گیا۔ 
مسلم کشی خارجیوں کی عادت
برادر کشی کی ابتدا تو مسلمانوں مین پہلے ہی ہوچکی تھی مگر خوارج نے اسے بڑھاوا دیا۔انھوں نے بعض معتبر صحابہ کے قتل کی سازشیں کیں اور انھیں کافر قرار دے کر واجب القتل سمجھا۔ ایک مقام پر کچھ خارجی جمع ہوئے اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ تین لوگ تین حکمرانوں کا قتل کردیں۔ جن میں ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے جن کا دارالخلافہ کوفہ تھا۔ دوسرے امیر معاویہ تھے جن کی راجدھانی دمشق تھی اور تیسرے عمروبن العاص تھے جو مصر کے گورنر تھے۔ منتخب شدہ تینوں لوگوں نے یہ طے کیا کہ ایک مخصوص دن میں وہ جائیں اور ایک مخصوص تاریخ میں فجر کی نماز کے دوران ان تینوں حکمرانوں کا قتل کردیں۔ چنانچہ پلان کے تحت تینوں اپنی اپنی جگہ پہنچے اور حملہ بھی کیا۔ امیر معاویہ اس حملے میں معمولی طور پر زخمی ہوئے مگر بچ گئے۔ مصر کے گورنر عمروبن العاص اس دن اتفاق سے بیمار تھے اور فجر کی نماز میں موجود نہیں تھے ان کی جگہ پر کوئی دوسرے صاحب نماز کی امامت کر رہے تھے جن پر حملہ کر کے ایک خارجی نے قتل کردیا۔ البتہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ابن ملجم خارجی کا حملہ کامیاب ہوگیا جس کی تاب نہ لاکر آپ شہید ہوگئے۔ اس دور میں خارجیوں کی دہشت اس قدر چھائی ہوئی تھی کہ حضرت علی کو خفیہ طور پر دفن کیا گیا۔ اندیشہ تھا کہ وہ آپ کے جسم مبارک کو قبر سے نکال کر بے ادبی کریں گے۔ خارجیوں کا فتنہ یہیں پر نہیں تھما انھوں نے تو آپ کے صاحبزادے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی کفر کا فتویٰ جاری کردیا اور واجب القتل قرار دے دیا۔ 
خارجیوں کی پہچان شدت پسندی
کارجیوں کی پہچان تھی شدت پسندی۔ وہ مذہب کے معاملے میں بے حد شدت پسند ہوتے تھے اور اعتدال سے بہت دور تھے جبکہ اسلام اعتدال کا دین ہے۔ اسی شدت پسندی نے ان کے دل میں اسلام کے عظیم بزرگوں کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کی ۔ خارجی عام طور پر عبادت گزار اور دین کے پابند ہوتے تھے۔ وہ گناہ کبیرہ کو بھی کفر سمجھتے تھے اور ان کاماننا تھا کہ یہ معاف نہیں ہوسکتا اور اس کے ارتکاب سے آدمی اسلام سے کارج ہوجاتا ہے۔ اسی لئے وہ مسلمانون کوکافر قرار دینے میں جلد بازی کیا کرتے تھے۔ مسلمانوں میں اس قسم کے گروہ بعد میں بھی پیدا ہوتے رہے اور آج بھی ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جو مسلمانوں کو مشرک و بدعتی کہنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں۔ ایسا کرنے والے صرف اپنے آپ کو اور اپنے گروہ کو ہی پکا موحد اور مسلمان مانتے ہیں، باقی ساری دنیا کو گمراہ سمجھتے ہیں۔
آج کے شدت پسنداورگروہِ خوارج
اس وقت جو ساری دنیا میں اسلام کے نام پر اعتدال سے دوری کا راستہ اپنایا جارہا ہے اورقتل و غارت کا سلسلہ چل رہا ہے اس میں بھی وہی خارجیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کا نام لیتے ہیں اور بہت ہی شدت کے ساتھ اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ یہ نماز روزہ اور احکام ااسلام کی پیروی میں دوسروں سے آگے ہیں ۔ کہیں یہ لوگوں سے زبردستی نماز پڑھواتے ہیں تو کہیں داڑھی منڈوانے والوں یا ایک مشت سے کم کرنے والوں کو کوڑے لگواتے ہیں۔ خواتین کو پردہ کرانے میں اس قدر شدت برتتے ہیں جو اسلام کے حکم سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔ حالانکہ رسول اکرم ﷺ نے کسی بھی شخص کو زبردستی نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا۔ کسی کو کوڑے مار کر داڑھی نہیں رکھوایا اور اس انداز میں کواتین سے پردہ نہیں کرایا جس انداز میں یہ شدت پسند گروہ کراتے ہیں۔ مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست کا قیام ہوا اور یہاں تمام لوگوں نے اپنی مرضی سے اسلامی شریعت کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ 
داعش خارجیوں کی جماعت ہے؟
عراق میں جو ان دنوں داعش نامی گروہ ابھرا ہے وہ بھی اسلام کا پابند ہے اور خلافت اسلامیہ کئے قیام کا داعی ہے۔ عام سنی مسلمان بھی خلافت کے حامی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شیعہ مسلمانوں کا قتل کیا جائے یا غیر مسلموں کے اوپر مطالم ڈھائے جائیں۔ اسلام کی نظر میں کسی بھی جاندار کا قتل سب سے بڑا جرم ہے۔ قرآن کریم میں ایک جاندار کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے آدمی کے احترام کو کعبہ کے احترام سے بڑھ کر قرار دیا ہے۔ ایسے میں داعش کے تعلق سے جو خبریں آرہی ہیں اگر وہ درست ہیں تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ یہ جماعت بھی خارجیوں جیسی جماعت ہے۔ اسلام نے کسی کے بے گناہ کے قتل کی اجازت نہیں دی ہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ البتہ اس امر کی تصدیق ضروری ہے کہ داعش کے تعلق سے جو خبریں آرہی ہیں وہ درست ہیں۔ 
(مضمون نگار ٹی وی جرنلسٹ اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں) 

«
»

ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف سازش

ہم کریں تو لو جہاد اور وہ کریں تو قومی یکجہتی۔۔۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے