قدرت کا قہر یا اللہ کا عذاب

پندرہ سو گاؤں پوری طرح ڈوبے ہوئے ہیں سیکڑوں آدمی ایسی جگہ پھنسے ہوئے ہیں کہ نہ آگے جاسکتے ہیں نہ پیچھے اور لاکھوں آدمی چیخ رہے ہیں چلاّ رہے ہیں دہائی دے رہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ کسی سرکار کی طرف سے کوئی مدد نہیں آرہی۔
ہم بھی جتنا دیکھ سکے وہ دیکھا پھر ٹی وی بند کردیا دُکھ اس بات کا تھا وزیر سے لے کر سپاہی تک کوئی ایک سرکاری آدمی نظر نہیں آرہا تھا گذرے ہوئے اپریل اور مئی میں حالت یہ تھی کہ اگر اندھیرے میں ڈھیلااُٹھانا چاہو تو وزیر پر ہاتھ پڑتا تھا ٹریکٹر کا خیال کرو تو کھیت میں ہیلی کاپٹر دھول اُڑاتا ہوا نظر آتا تھا۔ آج چاہے وہ ہیں جنہوں نے اترپردیش سے 71 سیٹیں جیتی ہیں یا وہ ہوں جن کی اترپردیش پر حکومت ہے دونوں میں سے کسی کا کوئی بندہ نظر نہیں آتا پندرہ سو گاؤں پورا ایک ضلع ہوتا ہے ابھی چار دن پہلے وزیر اعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے تالیوں کی گونج میں اعلان کیا تھا کہ ہر ممبر پارلیمنٹ اپنے حلقہ کے ایک گاؤں کو مثالی گاؤں بنائے۔ آج کی صورت حال ایسی ہے کہ اُڑیسہ، راجستھان، اُتراکھنڈ، بہار اور اُترپردیش میں کم از کم سو حلقے ایسے ہوں گے جہاں کوئی ممبر پارلیمنٹ کسی گاؤں کی نشاندہی نہیں کرسکتا اس لئے کہ آج ملک میں ہزاروں گاؤں ایسے ہیں جن کے باسی گھروں سے صرف پیسے یا اگر زیور ہوا تو وہ یا دو چار کپڑے لے کر بھاگے ہیں۔ ہر گھر میں آٹا چاول شکر نمک مرچ مسالے ماچس جلانے کا ایندھن تیل گیس سب پانی میں تیر رہے ہیں اور سامان کے مالک کھیتوں یا باغوں میں کھلے آسمان کے نیچے بلک بلک کر رو رہے ہیں بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں بڑے سیلاب کا گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں اس لئے کہ ہر طرف تاحد نگاہ بس وہی پانی ہے۔
ہر ٹی وی چینل کا رپورٹر اسے قدرت کا قہر قرار دے کر تفصیل بیان کررہا ہے لیکن ہم اس میں یہ اضافہ کریں گے کہ صرف قدرت کا قہر ہی نہیں عذابِ الٰہی بھی ہے اور اللہ کا عذاب یوں ہی نہیں آتا۔ اس وقت آتا ہے جب انسان اپنے پیدا کرنے والے کا باغی ہوجاتا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ حکمراں پارٹی کی حیثیت سے اترپردیش میں سماجوادی پارٹی، بہار میں جے ڈی یو، اڑیسہ میں بیجو جنتادل، اتراکھنڈ میں کانگریس اور راجستھان میں بی جے پی کی حکومت ہے اور ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہر صوبہ کا ہر وزیر دھوتی کمر پر باندھے باڑھ کے ماروں کے ساتھ کھڑا نظر آتا اور ہیلی کاپٹروں سے اور کشتیوں اور اسٹیمروں سے ضرورت کی ہر چیز اُن مصیبت کے ماروں کو پہونچا کر ان کی دعائیں لے لیتا لیکن اُتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہریش راوت کے علاوہ کسی وزیر اعلیٰ کو نہیں دیکھا کہ وہ سیلاب کے ماروں اور پانی میں ڈوبے دیہاتوں اور کھیتوں کا جائزہ لینے کے لئے نکلے۔
جس قادر مطلق کی قدرت کا قہر ہے اس نے صاف صاف کہا ہے کہ ہم نے جنات اور انسانوں کو صرف عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ عبادت کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ دن و رات نماز پڑھے جاؤ ہر دن روزہ رکھو ہاتھ میں تسبیح لے کر اللہ اللہ کرتے رہو بلکہ بتادیا ہے کہ فرض کا ادا کرنا عبادت ہے۔ سرکاری ملازم ٹھیک وقت پر دفتر پہونچے آٹھ گھنٹے بغیر سر اُٹھائے کام کرے نہ رشوت لے نہ وقت ضائع کرے وہ بھی عبادت ہے۔ ایک وزیر اپنے محکمہ کا ہر کام دیانت داری سے کرے، محکمہ سے وابستہ ہر ملازم سے ناجائز کام نہ کرائے، عام آدمی کی بھوک کا خیال کرکے اس کے گھر اپنی نگرانی میں کھانے کا سامان بھجوائے اور وہ جب تک مصیبت میں ہے اپنے کو بھی بے قرار محسوس کرے یہ بھی عبادت ہے۔ ایک دُکاندار وقت پر دُکان کھولے، گاہک کو اچھی چیز دے، تولنے میں یا ناپنے میں گاہک کا پلڑا جھکا رہے۔ دُکان بند کرکے گھر آئے بیوی بچوں کی ہر ضرورت پوری کرے ان سے ہنسے بولے ان کے ساتھ کھائے پئے وقت پر نماز پڑھے اور سونے کے وقت سو جائے یہ بھی عبادت ہے۔ لیکن دُکھ کی بات یہ ہے کہ کچھ نہیں ہورہا ہے ہر بات اُلٹی ہورہی ہے اور بلامبالغہ ہر دن جو کسی کی آبروریزی کی جارہی ہے کسی معصوم کو ناپاک کرکے قتل کیا جارہا ہے گھروں کے روشن چراغ بے وجہ بجھائے جارہے ہیں وہ پولیس جسے مظلوم کا ساتھ دینے اور انصاف کرنے کی تنخواہ ملتی ہے وہ پیسے والوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ پیدا کرنے والے پاک پروردگار کو پکارنے والے اور محلہ کی مسجدوں میں جمع ہوکر اس کے سامنے سر جھکانے اور رو روکر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے والوں کے لئے زمین تنگ کی جارہی ہے اس کے لئے قدرت کا فیصلہ ہے کہ قہر نازل کیا جائے گا اور قہر نازل ہورہا ہے۔
اللہ گواہ ہے کہ آدھے ہندوستان کی جو صورت حال ہے اس کا حق تو یہ تھا وزیر اعظم خود اس مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہر جگہ ساز و سامان کے ساتھ فوج کو مدد کیلئے بھیجتے کھانے پینے کا سامان پانی سے بھیگی راتوں میں سردی سے بچانے کے لئے کہیں سر چھپانے کے ترپال، محترم کو کیوں یہ خیال نہیں آیا کہ یہ سب وہی ہیں جن کے سامنے انہوں نے ووٹ کے لئے ہاتھ پھیلایا تھا جن سے کہا تھا کہ ساٹھ مہینے مجھے دے دو میں تمہیں نیا ہندوستان دوں گا۔ اگر موصوف پورے مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے تو واقعی نئے ہندوستان کی شروعات ہوجاتی لیکن وہی سب کچھ ہورہا ہے جو ہر سال ہوتا ہے کہ بارش پہاڑوں پر ہوتی ہے ڈیم بھرتے ہیں پانی چھوڑا جاتا ہے آبادیاں ڈوب جاتی ہیں نیپال سے پانی چھوڑا جاتا ہے تو آدھا بہار ڈوب جاتا ہے جبکہ نیپال میں جتنے ڈیم بنے ہیں ان کا کنٹرول ہمارے ملک کے پاس ہے۔ مودی جی نے اٹل جی کی تجویز دہرائی تھی کہ تمام ندیوں کو ایک دوسرے سے جوڑا جائے گا۔ وہ تو برسوں کا لمبا کام ہے اور دس بیس برس میں بھی ہوجائے تو بڑی بات ہے۔ فی الحال کرنے کا کام یہ ہے کہ شاردا اور گھاگھرا وغیرہ (جو اُترپردیش کے اس پورب کو جو پہلے ہی سے آدھا پیٹ کھا رہا ہے) ان کی سرکشی کو روکا جائے اور بغیر بارش کے جو ڈیم کے پانی کا سیلاب آرہا ہے اس کا رُخ موڑا جائے۔ لیکن کہیں کچھ نہیں ہورہا کوئی سہارن پور کی رپورٹ پر بحث کررہا ہے اور کوئی شہید کے مسئلہ پر پاکستان سے بات کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ ان لاکھوں کی کسی کو فکر نہیں جنہوں نے یوپی میں ملائم سنگھ کو اور ملک میں مودی کو شاہوں کا شاہ بنا دیا۔

«
»

لاکھوں انسانی جانوں کے محافظ ڈاکٹر یوسف حمیدکو نوبل پرائز کیوں نہیں؟

مالکی اقتدار کا خاتمہ ایک ڈراونے خواب سے نجات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے