مالکی اقتدار کا خاتمہ ایک ڈراونے خواب سے نجات

اس تناظر میں دیکھا جائے تو جس طرح عراق ان دنوں عارضی طور پر دو ریاستوں اہل عراق جس عراق میں متحد ہیں اور دوسرا عراق داعش کی غیر قانونی اسلامی ریاست کی صورت میں بٹا ہوا۔ بالکل اسی طرح عراق میں اس وقت دو وزیراعظم ہیں، پہلا وزیر اعظم حیدر العبادی جس پر سب متفق ہیں اور جو پارلیمنٹ میں موجود سبھی نمائندوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور دوسرے نوری المالکی، جن کی مدت اقتدار تو ختم ہو چکی لیکن وہ ابھی بھی اپنے وزیر اعظم ہونے پر مصر ہیں۔
عبادی کو نوری المالکی کے غلط اور برے کارناموں کی وجہ سے عدیم المثال حمایت ملنے کا امکان ہے کیونکہ مالکی کی وجہ سے پورا عراق مشکلات اور تباہی سے دوچار رہا ہے۔ فرقہ واریت، کردوں کے ساتھ معاملہ، دہشت گردی اور وسیع علاقوں میں قتل عام کی واردتیں ان سب کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ مالکی دور کی تصویر بنے گی۔ اس سب خونریزی کی ذمہ داری مالکی حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ اس حکومت کا مقصد صرف نوری الماکی کی آشاوں کو پورا کرنا، ان کی ذات کی خدمت کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہنا تھا۔ گویا مالکی کی حکومت صرف مالکی کے لیے تھی۔ تاہم اس کے سارے اخراجات اہل عراق اور ریاست عراق کو پورے کرنا ہوتے تھے۔
اس وجہ سے مالکی نے اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ لیکن بالآخراس میں بھی ناکام ہو گیا۔ اس مقصد کے لیے نوری المالکی نے اپنے اقتدار کے خاتمے سے ایک رات پہلے ٹینک بھی کھڑے کر دیے اور الزام عائد کیا کہ نیا صدر آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ دو روز قبل مالکی نے ملک کی آئینی عدالت کے نام سے ایک بیان منسوب کر کے جاری کرنے کی کوشش کی تاکہ اپنی وزارت عظمی کو بچانے کے لیے آئینی عدالت کا سہارا لے سکے، ان کی یہ چال بھی ناکام رہی۔ اگرچہ انہوں نے اسی دوران دعوی پارٹی کے مٹھی بھر لوگوں کو جمع کر کے ان سے یہ کہلوا لیا کہ عبادی دعو پارٹی کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ وہ صرف اپنی ہی نمائندگی کرتے ہیں۔
میری دانست میں ہم اب بغداد کے معمولات بحال ہوتے ہوئے اور اس میں زندگی کو رواں دواں دیکھیں گے۔ عرب، ایران اور اہل مغرب کے وفود عراقی عوام کے متفقہ وزیر اعظم کو مبارکباد دینے آئیں گے، عراق میں حقیقی حب الوطنی کی بنیاد پر باہم تعاون کو وسعت ملے گی۔
عبادی کو کردوں کا اعتماد بحال کرنا ہو گا، عرب سنیوں کے ساتھ مفاہمت اختیار کرنا ہو گی اور ناراض شیعہ طبقات کے ساتھ تعلقات کو از سر نو بحال کرنا ہو گا، خلیجی ممالک کے ساتھ بھی معاملات میں بہتری لانا ہو گی اور عراق کے کردار کو زندہ کرتے ہوئے ملکی تعمیر و ترقی کے لیے کوششوں کی طر ف بڑھنا ہو گا ۔ تاکہ پورے اہل عراق کے لیے روزگار اور خوشحالی کے راستے کھل سکیں۔ (

«
»

مکوکا کے تارِ عنکوب میں الجھی بے قصوروں کی زندگیاں

اے اہل عرب! اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے