اس لئے اب اندیشہ پیدا ہوچلا ہے کہ اسکولوں میں آر ایس ایس والی تاریخ پڑھائی جائے گی ، سنگھ کا جغرافیہ پڑھایا جائے اور بچوں کو گائے کی سیوا کرنے کی تعلیم دی جائے گی۔ طلبہ کی اخلاقیات کو بہتر بنانے کے لئے وید کی اخلاقیات کا درس دیا جائے گا اور زندہ انسانوں و حقیقی کرداروں کے بجائے دیوتاؤں، سنتوں، دیووں اور بھوتوں کی کہانیوں کا درس دیا جائے گا۔ہندووں کی دیومالائی کہانیاں جو بچوں کے دل پر اثر انداز ہوتی ہیں،اب نصاب میں داخل کی جارہی ہیں ۔بھارت کا جو نقشہ اقوام متحدہ نے بین الاقوامی ضابطوں کے تحت بنایا ہے اب آر ایس ایس اس سے الگ ایک نقشہ پیش کر رہا ہے اور یہ بھی بچوں کے سامنے آرہا ہے۔ صرف تاریخ ہی نہیں بلکہ تہذیب، سماجیات اور اخلاقیات سب کا بھگوا کرن شروع ہوچکا ہے اور اس کی تجربہ گاہ وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات بن رہی ہے۔آر ایس ایس کے پروردہ اور اس کے نظریات کے ماہراور ۸۵ سالہ متنازعہ مصنف دینا ناتھ بترا کی تحریر کردہ ایک درجن کتابیں اس بار گجرات کے نصاب تعلیم میں شامل کی گئی ہیں اور ان کی ہزاروں کاپیاں یہاں سرکاری اسکولوں میں بچوں کے بیچ تقسیم کی گئی ہیں۔ ان کتابوں کا گجراتی میں ترجمہ خود آر ایس ایس کے ’’ماہرین تعلیم‘‘ نے کیا ہے۔اس پر پورے ملک کے ماہرین تعلیم میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ بی جے پی اگر ملک میں بھگوا نصاب تعلیم لاگو کرتی ہے تو یہ اس ملک کے تعلیمی سسٹم کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ ماہرین اسے تعلیمی نصاب کے بجائے عجائب کا مجموعہ مان رہے ہیں جو حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر تعلیم کا بھگوا کرن کیا گیا تو یہ ملک کی تاریخ ہی نہیں بلکہ ہماری ملی جلی تہذیب کے بھی خلاف ہوگا۔
مودی کو پسند ہیں بترا کی کتابیں؟
آر ایس ایس کے ماتحت تعلیم پانے والے دینا ناتھ بترا سنگھ پریوار سے اپنے رشتے کو سر عام قبول کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے ایک ٹی وی چینل پر ایک بحث میں حصہ لیا اور جب میزبان نے ان کا تعارف آر ایس ایس کے حوالے سے پیش کیا تو انھوں نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ حالانکہ ان کا ماضی آر ایس ایس سے جڑا رہا ہے اوروہ جو نصاب تعلیم ترتیب دینے میں لگے رہے ہیں وہ سنگھ کے ہی نظریات کا غماز ہے۔ وہ اسے تعلیم کا بھارتیہ کرن کہتے ہیں مگر حقیقت میں یہ بھگواکرن ہے۔ بترا کا کہنا ہے کہ ان کا نریندر مودی سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر ان کی تمام گجراتی نصابی کتابوں کی ابتدا میں نریندر مودی کا گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے پیش لفظ موجود ہے۔ مودی اپنے پیش لفظ میں ان کی تحریروں کو علم و حکمت کا بیش بہا خزانہ قرار دیتے ہیں اور اس کی افادیت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ابھی گجرات میں ان نصابی کتابوں کو تجربے کے طور پر لاگو کیا جارہا ہے اور اس کے بعد دھیرے دھیرے بی جے پی کی حکومت والی تمام ریاستوں میں ان کتابوں کو داخل نصاب کیا جائے گا۔ مرکز میں چونکہ بی جے پی کی سرکار ہے لہٰذا مرکز کے تحت چلنے والے اسکولوں میں بھی وہی تاریخ پڑھانے کا پروگرام ہے جس کی اب تک آر ایس ایس وکالت کرتا رہا ہے۔ دینا ناتھ بترا اس وقت لوگوں کی نظر میں آئے تھے جب انھوں نے کئی مصنفوں کی کتابوں پر بھارت میں پابندی عائد کرائی تھی۔ ان کتابوں میں پینگوئن سے شائع ہونے والی "HINDUISM”بھی شامل ہے۔ انھوں نے ۲۰۱۱ء میں این سی آر ٹی کی ایک کتاب پر کورٹ سے پابندی لگوائی جس میں بھگت سنگھ کو دہشت کرد لکھا گیا تھا۔ انھوں نے ۲۰۰۸ء میں دہلی یونیورسیٹی کی ایک کتاب سے رامائن کا ایک صفحہ نکلوایا تھا جو ان کی نظر میں قابل اعتراض تھا۔
آر ایس ایس کا نظریاتی نصاب
دینا ناتھ بترا ایسے نصاب پر ایک مدت سے کام کرتے رہے ہیں جو آر ایس ایس کے نظریا ت کو بچوں کے ذہن میں راسخ کرسکے اور اس کے لئے انھوں نے ایک ایسا تعلیمی بورڈ بنایا ہے جس میں ۳۱ ماہرین تعلیم شامل ہیں۔ یہ بورڈ مغربی دہلی میں اپنے چھوٹے سے دفتر سے کام کر رہا ہے اوربترا اس کے کنوینر ہیں۔ غور طلب ہے کہ وہ سنگھ کے ’’شکشا بچاؤ آندولن سمیتی‘‘ کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بھی اس میں آر ایس ایس کے کئی سینئر ممبران موجود ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسیٹی کے سابق پرووائس چانسلرکپل کپور، کمایوں یونیورسیٹی کے سابق وائس چانسلربی ایس راجپوت، نیشنل اوپن اسکولس کے سابق چیئر مین ایم۔سی پنت جیسے اہم لوگ اس کے ممبر ہیں یا رہ چکے ہیں۔
یہ سبھی لوگ ایک مدت سے تعلیم کو آر ایس ایس کے نظریے کے مطابق ڈھالنے میں لگے ہوئے تھے اور اب جب کہ بی جے پی اقتدار میں آچکی ہے اور نریندر مودی پوری اکثریت کے ساتھ سرکار میں ہیں تو اس نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہناناشروع کردیا ہے۔ اس کی ابتدا اگرچہ اسکولوں سے کی جارہی ہے مگر آگے کا منصوبہ ہے کہ سبھی تعلیم اداروں میں اسکول سے لے کر یونیورسیٹی تک اس کا نفاذ کیا جائے۔
کیا ہے بترا کی کتابوں میں؟
دینا ناتھ بترا کی کتابوں میں تاریخ، سائنس، جغرافیہ اور معلوماتِ عامہ سب کی ایسی کی تیسی کی گئی ہے اور یہ سب آر ایس ایس کے نظریات کے مطابق کیا گیا ہے۔ پہلے جو باتیں آر ایس ایس کے ماتحت چلنے والے اسکولوں میں پڑھائی جاتی تھیں اب انھیں باتوں کو تمام تعلیمی اداروں میں شامل نصاب کیا جارہا ہے۔ بھارت کا جو نقشہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے اس کے برخلاف آر ایس ایس کے نقشے میں پاکستان، افغانستان، بھوٹان، نیپال اور برما کو بھی اس کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس کی تعبیر میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھارتی تہذیبی اثرات کا نقشہ ہے۔ یعنی ان ملکوں میں بھارت کی تہذیب پھیلی ہے۔ یہی نقشہ دینا ناتھ بترا کی کتاب میں بھی شامل ہے۔ ذرا سوچیں کہ جب چین نے اپنے ایک نقشے میں اروناچل پردیش کو چین کا حصہ دکھایا تھا تو اس پر ہنگامہ مچ گیا تھا اور بترا کی کتاب جو گجرات میں نصاب کا حصہ ہوگی اس میں پڑھایا جائے گا تو طلبہ کے ذہن پر کیا اثر ہوگا؟
مہابھارت اور رامائن کو آج تک محض قصہ مانا جاتا تھا اور مورخین نے ان کی کہانیوں کی تصدیق نہیں کی تھی مگر اب جو کتابیں پڑھائی جارہی ہیں ان میں ان کتابوں کی باتوں کو تاریخ سے بھی پڑھ کر حقیقت مان لیا گیا ہے اور کئی جگہ تو سائنس کی بھی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیلی ویزن کی ایجاد ۱۹۲۶ء میں اسکاٹ لینڈ کے ایک عیسائی پادری نے کی تھی، یہ ایک حقیقت ہے اور ساری دنیا میں طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے مگر گجرات میں طلبہ کو یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ عہد قدیم میں بھارت کے رشیوں اور منیوں کے پاس وہ روحانی طاقت تھی جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے رابطہ کیا کرتے تھے۔ اسے دنیا کا پہلا دور درشن قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح کار کے سلسلے میں لکھا ہے کہ مہابھارت کے عہد میں اس کی ایجاد ہوچکی تھی اور جہاں کچھ بگھیاں گھوڑوں سے چلتی تھیں وہیں کچھ بغیر گھوڑوں کے بھی چلتی تھیں اور یہ اصل میں کاریں تھیں جو ہزاروں سال قبل بھارت ایجاد کرچکا تھا۔ اس قسم ک اور بھی حماقتیں ان کتابوں میں موجود ہیں جو ہمارے تعلیمی سسٹم کا ستیاناس کردیں گی مگر ہندتو اور ہندوستانی ثقافت کے نام پر انھیں بچوں کے ذہن میں بٹھایا جارہا ہے۔ گجرات کے وزیر تعلیم بھوپیندر سنگھ چوداسما اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے کتراتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کا کائی جواب نہیں ہے۔ وہ پہلے بغلیں جھانکتے ہیں پھرکہتے ہیں کہ یہ بچوں کے لئے ریفرنس بک ہیں جو ہندوستانی ثقافت کے بارے میں جانکاریاں فراہم کرتی ہیں۔ یہ نصاب کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ ضمنی مطالعاتی کتابیں ہیں۔ قارئین کی یاد میں ہم یہ بھی تازہ کردیں کہ یہاں پڑھائی جانے والی کتابوں میں لکھا ہے کہ جاپان نے امریکہ پر ایٹم بم برسایا تھا۔ یونہی بابائے قوم مہاتما گاندھی کا یوم شہادت بھی غلط درج ہے،مگر تمام کتابیں اسی طرح پڑھائی جارہی ہیں۔
ہمارے ملک میں کئی دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں جن میں سے سات کا ذکر دیناناتھ جی نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ رہا ہے مگر انھوں نے ان بم دھماکوں کا ذکر بالکل نہیں کیا جن کے پیچھے آر ایس ایس سے جڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھ تھے۔ مکہ مسجد بم دھماکہ، سمجھوتہ اکسپریس بم دھماکہ، مالیگاؤں بم دھماکہ اور اجمیر شریف درگاہ کے بم دھماکے کا انھوں نے ذکر نہیں کیا ہے جن میں سوامی اسیمانند، سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور کرنل پروہت جیسے لوگ آج بھی جیلوں میں بند ہیں اور ان سے ملنے کے لئے سنگھ پریوار کے لوگ جیلوں میں جاتے رہے ہیں۔
دینا ناتھ بترا کی ان کتابوں میں صلیبی جنگوں کا ذکر ہے،جن کی ہلاکت خیزی کو بھی پیش کیا گیا ہے اور اس بہانے سے عیسائیوں کو ظالم بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ صلیبی جنگیں ایک حقیقت ہیں اور تاریخ کا اہم حصہ ہیں مگر ان کے بارے میں ساتویں کلاس کے بچوں کا پڑھانا کوئی اچھے اثرات نہیں چھوڑتا ہے۔ یہ تو یونیورسیٹیوں کا موضوع ہے اور اس پر اسکالرس کو ریسرچ کی ضرورت ہے نہ کہ ننھے اور معصوم ذہنوں کے اس بہانے سے عیسائیوں سے متنفر کرنے کی ضرورت۔ اسی طرح مسلمانوں کے حملوں کا بھی ان کتابوں میں ذکر کیا گیا جس سے بچوں میں یہ پیغام جاتا ہے کہ گویا مسلمان بیرونی حملہ آور کی اولاد ہین۔ دینا ناتھ بترا کی کتابوں میں بیان تاریخ و ثقافت کو معروف تاریخ داں رومیلا تھاپر اور مسلم یونیورسیٹی علی گڑھ کے پروفیسر عرفان حبیب نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے علمِ تاریخ کے ساتھ مذاق قرار دیا ہے مگر دینا ناتھ جی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر تنقید ہوتی ہیں تو اچھا لگتا ہے۔ آر ایس ایس کے رام مادھو بھی ان کے کام کی تحسین کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کام بہت پہلے ہونا چاہئے تھا وہ کام انھوں نے کیا ہے۔ یہ بچون میں قومیت کا جذبہ پیدا کرنے والا کام ہے۔
آر ایس ایس کے اسکولوں میں جو باتیں پڑھائی جاتی ہیں ان کی تصدیق نہ تو اہل علم کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے ماہرین کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہاں کے تعلیم ہافتہ افراد کا ذریعہ علم ہی مختلف ہوتا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ابھی چند مہینے قبل نریندر مودی جب الیکشن مہم پر نکلے ہوئے تھے تو کیسی کسی تاریخ اور جغرافیہ کی جانکاریاں اپنی تقریروں میں دے رہے تھے۔ وہ اس دوارن اپنے علم جغرافیہ اور تاریخ کے لئے بھی چرچے میں تھے۔ اصل میں یہ سب آر ایس ایس کے اسکولوں کا فیض تھا جہاں سے انھوں نے تعلیم پائی ہے اور اب پورے ملک کو یہی تعلیم دینے کی کوشش ہورہی ہے۔
جواب دیں