امریکہ میں پریس کی آزادی

حکومت اور افسران کی پالیسیوں کی تعریف یا ان پر تنقید کرنے اور مخصوص نقطہ نظر رکھنے والے رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے بھی کیا کرتے ہیں۔ یعنی مختصر طور پر کہا جائے تو امریکی عوام ذرائع ابلاغ کا استعمال عوامی حکومت کے انجن کو ایندھن فراہم کرنے کے لئے کرتے رہے ہیں۔ 
دو صدی پیشتر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بانیوں کا خیال تھا کہ پریس کی آزادی کولازمی طور پر بنیادی آزادی کے عناصر میں شامل ہونا چاہئے اور اسے پہلی ترمیم کی رْو سے تحفظ بھی فراہم کیا جانا چاہئے۔ وہ اس دَور کے خبری ذریعہ ابلاغ یعنی اخبارات کو آئینی تحفظ فراہم کیا کرتے تھے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود تھا کہ ان میں سے کئی مطبوعات تو ان کی اس طور پر تنقید کیا کرتے تھے جن کے مقابلے آج کی خبر نگاری بے ضرر سی چیز معلوم ہوتی ہے۔ 
میڈیا کی آزادی کی حمایت میں بنیادی نظریہ یہ ہے کہ اگر کسی بھی خیال کو ،حتیٰ کہ وہ غیر مقبول ہی کیوں نہ ہو، اگردبا دیا جائے توکوئی معاشرہ ہو یا کوئی حکومت بر وقت خود کے لئے مسلسل درست فیصلے نہیں کر سکتی۔
معروف انگریزی شاعر جان ملٹن نے ناشروں کو لائسنس فراہم کرنے کے حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرنے کے لئے ۱۶۴۴ میں شائع شدہ تحریر جس کا عنوان ’ ایرو پا جیٹیکا‘ تھا لکھا تھا ’’اسے(حق کو)اور باطل کو دست و گریباں ہونے دیں ،کسے معلوم تھا کہ آزاد اور کھلے ماحول میں سچائی کو تمام آزمائشوں سے گزرنا ہوتا ہے؟ ‘‘
ملٹن نے استدلال سے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ بحث آزادانہ طور پر اور بغیر حکومتی مداخلت کے کروائے جانے کی صورت میں آخر کار حق کی باطل پر جیت ہوگی۔ اور اس طرح کی کھلی بحث ان خیالات کو حتمی طور پر چھوڑ دینے کا ایک واحد راستہ ہے جسے معاشرے نے مسترد کر دیا ہے۔
اخبارات امریکہ کے ابتدائی ایام سے ہی اختلافات کی خبریں دیتے رہے ہیں۔ ان دنوں بوسٹن میں نو ا?بادیات کے باشندوں پر گولی برساتے ہوئے انگریز سپاہیوں کا نقشِ چوبی تقسیم کیا جاتا تھا۔ زیادہ تر امریکی’ کسٹرس لاسٹ اسٹینڈ‘ کے بارے میں جانتے تھے جہاں امریکی فوجی مقامی امریکی جنگجوؤں کے ہاتھوں ہلاک کر دئے گئے تھے۔ لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے ہوں گے کہ نیوزیم (نیوزیم واشنگٹن ڈی سی میں واقع خبر اور صحافت سے متعلق دو لاکھ پچاس ہزارمربع فٹ رقبہ پر پھیلاطویل میوزیم ہے) کی شائع کردہ اِیرک نیوٹن کی ’ کروسیڈرس، اسکاو?نڈرلس ، جرنلسٹس ‘ نامی کتاب میں کیا لکھا ہے۔ اس میں لکھا ہے’’شمالی ڈیکوٹا سے شائع ہونے والے بِسمارک ٹریبیون کے نامہ نگار مارک ایچ کیلوگ ،لِٹل بِگ ہارن کی لڑائی میں۱۸۷۶ میں جنرل ا?رم اسٹرونگ کسٹر اور دو سو سے زائد فوجیوں کے ہمراہ ہلاک ہوئے تھے۔‘‘
جنگ کے زمانے کی پالیسیوں سے لے کر ٹیکس وصولی اور افریقی امریکیوں کے شہری حقوق تک ، ۱۸۰۰ صدی عیسوی کے دوران حقوقِ نسواں سے لے کر۲۰۱۴ میں ہم جنس پرستوں کے حقوق تک آزاد پریس نے امریکہ میں اہم معاملوں پر باخبر انداز میں بحث کی اجازت دی ہے اور اس عمل کے دوران معاثرے میں اہم تبدیلیوں کے لئے بنیادی نظام بھی فراہم کیا ہے۔ خیالات کے کھلے اور ا?زادانہ تبادلے نے بھی قوم کے ذریعہ اقلیتی یا غیر مقبول آوازوں کو سنے جانے کا میڈیم بن کر ’حفاظتی قدر ‘کا کام کیا ہے۔
گزشتہ برس امریکہ میں قومی سلامتی ایجنسی (این ایس اے)کے ذریعہ استعمال میں لائے گئے نگرانی کے طریقوں سے متعلق خبروں کی ملک کے بڑے اخباروں میں اشاعت نے قومی سطح پر یہ بحث چھیڑ دی کہ قومی سلامتی کے نام پر رازداری کے خاتمے کے معاملے میں وہ کون سی خط ہے جو حد سے متجاوزہے۔
حالاں کہ اس سلسلے میں حتمی فیصلے پر پہنچنا ابھی باقی ہے،مگر ان خبروں نے خود درستگی کا ذریعہ تو فراہم کر ہی دیا ہے جس کی روشنی میں این ایس اے کے طریقہ? کار کا جائزہ لیا جاسکے اور امریکی عوام کی غالب اکثریت کی آرا کی روشنی میں اس پر نظرِ ثانی کی جاسکے۔
گرچہ امریکہ کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی تمام حقائق اور خیالات کی اشاعت سے متعلق خبر سے وابستہ اداروں کے کردار اور ان کے حقوق کی جانچ کی جانی ہے۔حکومت کے عہدے داروں، بااثر شخصیتوں، یہاں تک کہ فسادی بھیڑ نے بھی بالترتیب ضرورت سے زیادہ ٹیکس لگا کر، فوجداری مقدموں کا سہارا لے کر اور تشدد کے ذریعہ خبر رسائی کے عمل کو متاثر کرنے اور صحافیوں کو ڈرانے کا کام کیا ہے۔
بِل آف رائٹس کی امریکہ کی جانب سے توثیق اور پہلی ترمیم اور اس کی رْو سے ا?زاد پریس اور آزادی? خطاب کو۱۷۹۱ میں تحفظ مل جانے کے سات برس بعد امریکی کانگریس نے بغاوت کے قانون کو آئینی شکل دی جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو امریکی صدر یا امریکی کانگریس کی نکتہ چینی کرنے والے مدیران کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا۔ ۱۷۹۸کے اس قانون کا استعمال کرکے تقریباََ دو درجن صحافیوں کو جیل بھیج دیا گیا مگراس کے نتیجے میں رائے عامہ اس قانون کی مخالف ہوگئی۔ اسی وجہ سے ایڈیٹرس کو آخرکار رہا کرنا پڑا او ر قانون چند برس بعد ہی کالعدم قرار پایا۔ بعض اوقات اخبارات پر حملوں نے پْر تشدد رنگ بھی اختیارکیا۔۷ نومبر ۱۸۳۷کو غلامی کی حامی ایک بھیڑ نے اس گودام پر حملہ کردیا جہاں ایلیجاہ لَو جوائے کا چوتھا پرنٹنگ پریس تھا۔ لَو جوائے کے ساتھ دیگر لوگوں نے یہ صورت حال دیکھ کر بھیڑ پر گولی چلا دی مگر اس کے باوجود لَو جوائے کو تشدد میں اپنی جان گنوانی پڑی۔
۱۹۷۱میں رچرڈ نِکسن کے زمانہ صدارت میں ’ پینٹاگَن پیپرس‘ کیس میں وہائٹ ہاو?س نے نیویارک ٹائمس، واشنگٹن پوسٹ اور دیگر اخبارات کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تاکہ انھیں ویتنام کی لڑائی میں امریکی حکومت کے ملوث ہونے کی داخلی تفصیلات کو شائع کرنے سے روکا جا سکے مگر امریکی سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر اس طرح کی پیشگی پابندی کی اجازت دینے کی تجویز کو مسترد کردیا کہ پریس کو حق حاصل ہے کہ وہ جو کچھ جانتا ہے اسے شائع کرے،اس صورت حال میں بھی جب کہ ملک کے اعلیٰ عہدے دار اس کے خلاف ہوں۔
پہلی ترمیم مرکزکی پہلی ترمیم سے متعلق سالانہ رپورٹ سے قید و بند سے پاک خبرنگاری کے خیال سے متعلق امریکی احترام کا علم ہوتا ہے۔ ۲۰۰۲ میں دس میں سے نو سے زائد امریکیوں نے کہا کہ عوام کوآزاد پریس کی جانب سے باخبر کیا جانا لازمی ہے۔
لیکن لوگ آزاد پریس کی قدر وقیمت کو کس نظریے سے دیکھتے ہیں، اس پر خوف و ہراس برا اثرڈال سکتا ہے۔ ۷۹۹۱ سے ہر سال لئے جانے والے جائزے میں اس سے متعلق سوال کیا گیا ہے۔ کیا پریس کو ضرورت سے زیادہ آزادی حاصل ہے؟ اس سوال کا،کسی بھی وقت ہونے والے جائزے میں ،بیس فی صد امریکیوں نے ہاں میں جواب دیا۔ لیکن گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ کو ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے کچھ ہی مہینے بعد عملی طور پر پچاس فی صد امریکیوں نے کہا کہ پریس کو بہت زیادہ آزادی حاصل ہے۔ ۲۰۱۲ میں سب سے کم تیرہ فی صد امریکیوں کے ذریعہ اثبات میں جواب دئے جانے کے بعد ۲۰۱۳میں اثبات میں جواب دینے والوں کا فی صداس وقت ۳۹ ہو گیاجب بوسٹن میراتھن کے درمیان ہونے والی بمباری کے کچھ ہی مہینوں بعد سروے کیا گیا۔
صدر تھامس جیفرسن نے۱۷۸۷ میں ایک خط میں لکھا تھا ’’امریکی عوام کے اچھے شعور کی حیثیت امریکی حکومت کے لئے ہمیشہ سب سے بڑے اثاثے کی رہی ہے۔ کبھی کبھی یہ صراطِ مستقیم سے ہٹ سکتی ہے مگر اس میں خود درستگی کی اہلیت موجود ہے۔ عوام کے سامنے ہمیشہ ذرائع ابلاغ کا ہونا ضروری ہے جس کے توسط سے وہ اپنی آرا کا اظہار کرسکیں۔‘‘
’’ چوں کہ ہماری حکومت کی بنیاد عوام کی رائے ہے ، اس لئے پہلی چیز اسے درست ہونا چاہئے اور اگر کبھی میرے سامنے اس بات کے انتخاب کا مرحلہ ہو کہ ہمیں ایسی حکومت چاہئے جہاں اخبارات کا دخل نہ ہو یا ایسی حکومت چاہئے جہاں اخبارات حکومت کے بغیرہوں تو مجھے ایک لمحہ کی جھجھک کے بغیر بعد والے متبادل کو چننا چاہئے۔ ‘‘
آزاد پریس کے بغیر امریکہ امریکی نہیں ہوگا، ہم آزاد عوام نہیں ہوں گے اور جمہوریت کام نہیں کرے گی۔
چین پولی چِنسکی واشنگٹن ڈی سی میں واقع نیوزیم انسٹی ٹیوٹ میں چیف آپریٹنگ افسر ہیں۔

«
»

مکوکا کے تارِ عنکوب میں الجھی بے قصوروں کی زندگیاں

اے اہل عرب! اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے