عراق جنگ کا ایندھن بھارت کے مسلم نوجوان

کیا اسلام کی نظر میں اپنے بھائی کو قتل کرنا جہاد ہے؟ کیا اس قسم کی جنگ نے جہاد کے نام کو بدنام نہیں کیا ہے؟ کیا یہی وہ اسلام ہے جس کی تعلیم ہے کہ ’’ایک جاندار کا قتل تمام جانداروں کے قتل کی طرح ہے‘‘؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو امت مسلمہ پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے؟ عراق جنگ یا عراق کی خانہ جنگی کے اثرات اب بھارت کے مسلمانوں پر بھی پڑنے لگے ہیں اور اطلاع ہے کہ ممبئی کے کچھ مسلم نوجوان اس میں حصہ لینے گئے ہیں۔
یہ شوق جہاد ہے یا کچھ اور ؟
بھارت کے لوگ اپنے روزگار کے سلسلے میں اکثر عراق جاتے رہتے ہیں مگر ممبئی کے چار مسلم نوجوانوں کے عراق جانے کی خبر سے ہر طرف کھلبلی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ نوجوان عراق میں جاری جنگ میں حصہ لینے گئے ہیں۔ یہ چاروں تعلیم یافتہ ہیں اور ان کا ماضی کبھی بھی دہشت گردی یا غیر سماجی سرگرمیوں سے آلودہ نہیں رہا ہے ۔تھانے علاقے میں رہنے والے فہد تنویر شیخ، عارف فیاض مجید، شاہین فاروقی او ر امان نعیم ٹنڈیل چند مہینوں سے غائب ہیں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ باقی ملک کو بھی اس سے تشویش ہے۔ فہد کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ انگلش میڈیم سے تعلیم یافتہ نوجوان ہے جس نے انجینرینگ میں ڈپلومہ کیا ہوا ہے۔ اس نے کسی کمپنی میں گزشتہ مئی مہینے میں نوکری پکڑی تھی مگر اس کے دو دن بعد ہی وہ اچانک غائب ہوگیا۔ وہ گھر سے کہہ کر نکلا تھا کہ وہ جاب پر جا رہا ہے۔ گھر والوں نے اسے بہتیرا ڈھونڈا مگر وہ نہیں ملا تو مقامی پولس اسٹیشن میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرادی۔اسی طرح کی تین رپورٹیں درج ہوئیں جو تین الگ الگ نوجوانوں کے بارے میں تھیں۔ عارف فیاض مجید کے والد ڈاکٹر اعجاز مجید نے کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا عارف عراق میں ہے اور اس نے اطلاع دی ہے کہ وہ عراق میں جنگ کے خاتمے کے بعد واپس آئے گا۔ ان تما م گمشدہ مسلم نوجوانوں کے گھر والے فکر مند ہیں اور اپنے بچوں کے مستقبل کے تئیں تشویش میں مبتلا ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ان کے بچے عراق کی جنگ کا حصہ بن کر اپنی زندگی گنواسکتے ہیں۔ پولس اس پورے معاملے کی تفتیش کر رہی ہے اور ان لڑکوں کے موبائل فون نمبروں کی جانچ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیپ ٹاپ وغیرہ کی بھی چھان بین کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لڑکے آئی ایس آئی ایس کی طرف سے لڑنے کے لئے نکلے ہیں جن کی جنگ عراق کی امریکہ نواز حکومت کے ساتھ ساتھ وہاں کی شیعہ آبادی سے بھی ہے۔
ویزا کے لئے شیعوں کی درخواستیں
عراق میں لڑنے کے لئے صرف بھارت کے سنی نوجوان ہی تیار نہیں ہورہے ہیں بلکہ ایک انگریزی اخبار کی اطلاع کے مطابق ہزاروں شیعوں نے بھی ویزا کے لئے اپلائی کیا ہے جو عراق میں آئی ایس آئی ایس سے لڑکر کربلا اور نجف اشرف کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ یہ دونوں مقامات مسلمانوں کی نظر میں مقدس ہیں اور شیعہ حضرات کے لئے ان کی اور بھی زیادہ اہمیت ہے۔ کربلا میں نواسۂ رسول امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تھی اور نجف میں حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی قبر بتائی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں مولانا کلب جواد اور قانون داں محمود پراچہ سمیت متعدد مسلمانوں پر مشتمل ایک وفد عراق کے سفارت خانے گیا تھا جس نے ایک وفد کی شکل میں عراق جانے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ سفارت خانے سے موصولہ اطلاعات کے مطابق تقریباً چھ ہزار شیعہ مسلمانوں نے عراق کے ویزا کے لئے درخواست کی ہے۔ بھارت کے مسلمانوں میں جس طرح سے عراق اور مشرق وسطیٰ کے حالات سے دلچسپی پائی جاتی ہے اس سے خود بھارت سرکار کو بھی تشویش ہے اور حال ہی میں آئی بی کے کچھ افسران نے عراق کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کو کوشش کی تھی گویا یہاں کے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ حکومت کو بھی مشرق وسطیٰ کے حالات کی فکر ہے اسی لئے سرکار اس کا قریب سے جائزہ لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ 
یہ برادر کشی ہے یا جہاد؟ 
اسلام محبت کا پیغام ہے اور اسی لئے یہاں نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کی نظر میں تمام مخلوق اللہ کی عیال کی طرح ہے لہٰذا کسی کے ساتھ تشدد کا رویہ اپنانان جائز نہیں ہے۔ تصور ’’جہاد‘‘ خاص اسلام کی دین ہے اور اسے ایک دفاعی مقصد سے اسلام میں رکھا گیا ہے نہ کہ کسی کو تباہ و برباد کر نے کے لئے مگر آج کل جہاں مسلمان اپنے عمل و کردار سے اس مقدس فریضے کو بدنام کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف میڈیا بھی اسلام کو بدنام کرنے کا اسے بہانہ بنا رہا ہے۔ آج نہ تو مسلمانوں کو یہ سمجھ ہے کہ دہشت گردی اور جہاد میں کیا فرق ہے اور نہ ہی میڈیا یہ بات جانتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی اور تشدد نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسی بردار کشی کا نام جہاد ہے۔ افغانستان، عراق، شام، اور مصرمیں جو کچھ ہورہا ہے اسے کیا نام دیا جائے ؟ یہ جہاد ہے یا برادر کشی؟ مسلمان کہتے ہیں کہ یہ دشمنان اسلام کی سازش ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے مگر سوال یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے مسلمان خود کیوں لڑتے ہیں ؟ ایک طرف جہاں ان ملکوں میں مسلمان آپس میں برسرِ پیکار ہیں وہیں دوسری طرف خبر ہے کہ دولت مند عرب شیخ اپنے بال بچوں کے ساتھ لندن میں عید کی خریداری کرنے میں مصروف ہیں۔ حالانکہ دبئی میں عید بازار لگا ہوا ہے اور جو عرب شیوخ لندن کسی وجہ سے نہیں جاسکتے وہ یہیں خریداری کر رہے ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ ہر سال کی طرح امسال بھی ماہ رمضان میں، عرب ملکوں میں روازانہ ہزاروں افراد کے کھانے برباد ہورہے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک دوسری تصویر یہ ہے کہ فلسطین میں ہر روز معصوم بچے اسرائیلی درندوں کے مظالم کی تاب نہ لاکر اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ سعودی عرب اپنے دوست امریکہ اور یوروپ ممالک کو ایک لفظ نہیں کہتا کہ وہ کیوں ایسا کر رہے ہیں؟ کوئی مسلم ملک اس بات کی ہمت نہیں رکھتا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لے مگر عراق کے محاذ پر آپس میں لڑنے کا انھیں پورا موقع ہے۔ 
اسلام تو امن کا پیغام ہے
عرب ملکوں میں تشدد اور خانہ جنگی کی تاریخ رہی ہے مگر بھارت کے مسلمان ہمیشہ امن پسند رہے ہیں۔ وہ خواجہ معین الدین چشتی، نظام الدین اولیاء، حاجی وارث علی شاہ، شاہ بندہ نواز گیسو دراز جیسے بزرگوں کی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئے ہیں اور امن کے علم بردار رہے ہیں مگر حالیہ دنوں میں جس طرح ان کے اندر بھی تشدد کی لہر آئی ہے وہ تشویش ناک بات ہے۔ ہم اپنے دشمنوں کو بھی پھول پیش کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں ایسے میں ہمارے بچوں کا تشدد کی طرف مائل ہونا کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ شاید اس کا ایک سبب مذہب کے نام پر تشدد کی تعلیم بھی ہے۔ دنیا کے جن ملکوں میں مسلمان تشدد کی طرف میلان رکھتے ہیں وہ عام طور پر سعودی عرب سرکار کے پروموٹیڈ اسلام سے متاثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ سعودی عرب خود اپنے ہاں بد امنی نہیں پھیلنے دیتا مگر اس کے نظریات ساری دنیا میں بد امنی کا باعث بنتے ہیں۔ وہ جمہوریت کی مخالفت کرتا ہے اور اسی کو اسلام کا نام دیتا ہے۔ وہ عوام کے جمہوری حقوق کو سلب کرتا ہے اور اسے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق قرار دیتا ہے اور اس قسم کی تعلیمات سے ایک دنیامتاثر ہورہی ہے۔ بھارت میں بھی نوجوانوں کا ایک طبقہ اس قسم کی باتوں سے اثر لیتا ہے اور جو عراق کی جنگ میں یہاں کے نوجوانوں کے کودنے کی خبر آرہی ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کو اس اسلام کی تعلیم دی جائے جو امن و امان کی تعلیم دیتا ہے۔ جو بھائی چارہ سکھاتا ہے۔ جو انسان کو انسان کے ساتھ مل جل کر رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمارے علماء کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے نام پر شرپسندی کو بڑھاوا دینے کی مخالفت کریں اور اصل اسلام سے نئی نسل کو روشناس کرائیں۔ آج جن نوجوانوں کے بارے میں خبر آئی ہے کہ وہ عراق کی جنگ میں حصہ لینے گئے ہیں وہ یقیناًغلط فہمی کے شکار ہوئے ہیں۔ اگر انھیں اسلام کی صحیح تعلیمات سے آراستہ کیا گیاہوتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ یہ وہ لڑکے ہیں جنھوں نے کسی مدرسے میں نہیں پڑھا اور نہ ہی دینیات کی تعلیم پائی ہے۔ وہ اردو لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے ہیں مگر انٹرنیٹ پر کچھ اشتعال انگیز لٹریچر پڑھ کر اور ویڈیوز دیکھ کر متاثر ہوئے ہیں۔ اب مہاراشٹر پولس کہہ رہی ہے کہ انٹرنیٹ پر اس قسم کے لٹریچر اور ویڈیوز کو جام کیا جائے گا اور ان کی حصولیابی کو دشوار بنایا جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ مسئلے کا حل تو یہی ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرائیں تاکہ وہ راستے سے نہ بھٹکیں اور کوئی انھیں گمراہ نہ کرسکے۔

«
»

مکوکا کے تارِ عنکوب میں الجھی بے قصوروں کی زندگیاں

اے اہل عرب! اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے