نٹورسنگھ کی خود نوشت ،کیا کہتی ہے؟

کیونکہ گاندھی خاندان یا کانگریس کے تئیں وہ کتنی ہی زبانی وفاداری کا اظہار کریں، یہ وقت اس طرح کے حقائق بیان کرنے یا سیاسی شگوفے چھوڑنے کا ہرگز نہیں تھا، سونیاگاندھی کی قیادت والی کانگریس فی الوقت آزادی کے بعد کے سب سے خراب دور سے گزر رہی ہے، اسی لئے نٹور سنگھ یہ امید کرسکتے ہیں کہ کانگریس پارٹی کی کم از کم ان کی عمر میں تو اقتدار میں واپسی نہیں ہوسکتی۔
اس موقع پر نٹور سنگھ کے صبر کی بھی دا د دی جاسکتی ہے کہ گاندھی خاندان کے ساتھ اپنے رشتوں کے حقائق کو بیان کرنے میں وہ سالہا سال تک انتظار کرتے رہے۔ اتنا طویل انتظار کہ ۵۴۳ سیٹوں والی لوک سبھا میں کانگریس کو اپنے اب تک کی تاریخ کی سب سے کم یعنی صرف ۴۴ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے، پھر عوام کے حافظہ سے یہ سچائی بھی ابھی محو نہیں ہوئی ہوگی کہ یہ وہی نٹور سنگھ ہیں جنہیں عراقی تیل سودے پر’ وولکر رپورٹ‘ کے بعد آر ایس پاٹھک تحقیقاتی کمیٹی کے نتائج کی پاداش میں معتوب قرار دے دیا گیا تھا، حالانکہ گاندھی خاندان سے اپنے قریبی رشتوں کے باعث وہ یہ امید کرتے تھے کہ انہیں بخش دیا جائے گا، آٹھ دس سال سے وہ اس زیادتی کا زخم سینے میں چھپائے گاندھی خاندان کے خلاف کتاب لکھنے میں مصروف تھے اور کہنے کے لئے کچھ نہ ملا تو انہوں نے اس راز کو افشاں کرنا غنیمت سمجھا کہ ۲۰۰۴ء کے پارلیمانی الیکشن میں کامیابی کے بعد سونیاگاندھی نے وزیر اعظم عہدہ کی امیدواری کو ’ضمیر کی آواز‘ پر نہیں چھوڑا بلکہ اپنے بیٹے راہل گاندھی کے الٹی میٹم کے نتیجہ میں قربان کردیا تھا، نٹور سنگھ کے بقول سونیاگاندھی کے اکلوتے بیٹے کو اس وقت یہ خوف لاحق تھا کہ اگر ان کی ماں وزیر اعظم بن گئیں تو ان کا بھی دادی اندراگاندھی اور باپ راجیو گاندھی جیسا حشر ہوسکتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کیلئے یا اس کے سنسنی خیز حصوں کو جو محض مارکیٹنگ کے مقصد سے میڈیا کو فراہم کئے گئے، پڑھنے سے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ۲۰۰۴ء میں سونیاگاندھی وزیراعظم بن جاتی تو کیا ڈاکٹر منموہن سنگھ کے مقابلہ میں خود کو اتنا بہتر وزیراعظم ثابت کرسکتی تھیں کہ ۲۰۰۹ء میں دوبارہ برسراقتدار آجاتیں؟
نٹور سنگھ کے اس انکشاف سے سونیاگاندھی کی شبیہ کو کتنا نقصان پہونچا یہ تو ایک تحقیق کا موضوع ہے لیکن دو باتیں فوراً سامنے آگئیں کہ اس سے اول راہل گاندھی کے تئیں عام لوگوں کی ہمدردی میں اضافہ ہوگا، دوسرے ۲۰۰۴ء میں سونیاگاندھی کو حکومت سازی کیلئے صدرجمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کے مدعو نہ کرنے کے بارے میں قیاسات کی حقیقت وہ نہیں جو اس وقت سامنے آئی تھی کیونکہ نٹور سنگھ کی کتاب دوسری ہی کہانی بیان کرتی ہے۔ حالانکہ اس وقت کی افواہوں میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سونیاگاندھی کی ہندوستانیت اور ان کے غیر ملکی ہونے کی بنیاد پر قصر صدارت میں اعتراض درج کرائے گئے تھے جس کی وجہ سے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بارے میں انہیں اپنا ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔
اس کتاب سے نٹور سنگھ کے قول وفعل کا تضاد بھی سامنے آتاہے کیونکہ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ سونیاگاندھی انہیں اپنا اتنا قریبی معتمد سمجھتی تھیں کہ جن باتوں کو بیٹی پرینکا اور بیٹے راہل سے کبھی ذکر نہیں کرتیں ان کو بتا دیتی تھیں ، پھر بھی مئی ۲۰۱۴ء میں وہ ان کے مکان پر اس گزارش کے ساتھ پہونچیں کہ کتاب سے وزیراعظم کا عہدہ قبول نہ کرنے کے بارے میں راہل سے متعلق باتیں وہ ہٹادیں تو نٹور سنگھ نے اسے نامنظور کردیا ۔ ان تمام تفصیلات کے منظر عام پر آنے سے جہاں سونیاگاندھی سے عوام کی ہمدردی بڑھے گی وہیں نٹور سنگھ کی خود غرضی سامنے آئے گی۔
بہتر یہ ہوتا کہ اپنی کتاب میں نٹور سنگھ یہ بھی بتادیتے کہ ۲۰۰۴ء میں جب کانگریس کو مکمل اکثریت حاصل نہیں تھی ۱۴۵ سیٹیں لیکر سونیاگاندھی ، ملائم سنگھ یادو، لالو یادو اور بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹیوں کے اشتراک سے حکومت سازی میں مصروف تھیں ، اس وقت ان کے لئے کیا یہ مناسب ہوتا کہ وہ برسرعام اس سچائی کا انکشاف کردیتیں کہ ان کا ہی بیٹا انہیں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے روک رہا ہے یا راہل اپنی ماں کی حفاظت کے بارے میں زیادہ ہی فکرمند ہیں یا پھر سونیاگاندھی نے ضمیر کی آواز کا حوالہ دیکر منموہن سنگھ کو وزیر اعظم کے عہدہ کیلئے آمادہ کرکے ملک وقوم کے ساتھ کسی طرح کا دھوکہ کیا ہے؟
نٹور سنگھ بحیثیت ڈپلومیٹ کتنے کامیاب رہے یہ تو آج کی نسل کو یاد نہ ہوگا لیکن بہت سے ذہنوں میں یہ ضرور محفوظ ہے کہ انہوں نے ۲۰۰۴ء میں وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھال کر پے در پے کئی غلطیاں کیں، ان کے غیر ذمہ دارانہ بیان کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور آخر کار عراقی تیل سودے اسکینڈل میں وہ اور ان کے بیٹے کے ملوث ہونے کے بعد انہیں عہدہ چھوڑنا پڑا، ظاہر ہے کہ یہ صورت حال نو سال پہلے پیدا نہیں ہوتی یا سونیاگاندھی آج سے سال چھ ماہ پہلے ان کے ساتھ کانگریس کے سلوک پر معذرت کرلیتی تو قیاس یہی ہے کہ ون لائف از ناٹ انف کی پوری اسکرپٹ وہ نہیں ہوتی جو آج نظر آرہی ہے۔حقیقت میں یہ کتاب سچائی کے بیان سے زیادہ اس ردعمل کا اظہار ہے جو نٹور سنگھ کے دل میں کانگریس سے اخراج کے بعد پیدا ہوتا تھا۔

«
»

عراق جنگ کا ایندھن بھارت کے مسلم نوجوان

یہ کن کی لاشیں تڑپ رہی ہیں،یہ کن کا تازہ لہورواں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے