نالہ شب گیر:عظیم فن کار کی عظیم پیش کش

تہمینہ درّانی،رضیہ سجاد ظہیر،صالحہ عابد حسین،جیلانی بانووغیرہم نے خوب لکھا اور اپنے ناولوں میں عورتوں کے درد و کرب ،ان کی کمزوری،مرد سماج کے خلاف بغاوت اور اس کی طاقت کو بیا ن کیا ہے اور تاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔مگرپھر بھی عورت کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ’نہیں !ابھی بات نہیں بنی، ابھی اس کے درد کا بیان اس طرح نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہیے تھا__‘ اس کے لیے ایک مردکی ضرورت ناگزیر ہو ئی ___ایسے مرد کی جو گلوبلائزیشن کے دور میں اس کی آواز کو ہمدوش ثریاکر دے اور اس کا ’’نالہ‘‘آسمانوں تک پہنچادے۔ چنانچہ مشرف عالم ذوقی نے عورتوں کی دیرینہ تمناؤں کو پورا کر نے کے لیے گلوبلائزیشن کے عہد میں عورت کو کردار اور اس کی عالمی مقبولیت ،مردوں سے ہر میدان میں بازی لے جانے اور ان کے مقابلے میں ایک چٹان کی حیثیت سے کھڑا کر دیا۔عورت کس طرح صدہا برس کی بے بسی اور سماج و معاشرے کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور اپنا چہرہ نمایاں کر نے میں کامیاب ہوئی۔کس طرح ہمارے عہد کی کوئی صفیہ،کوئی ناہید ناز صدیوں سے بلکہ اسٹون ایج سے صدمے اٹھاتی آرہی ہیں اور ا ن کے کلیجے ناپسندیدہ باتیں ،طعنے اور کوسنے سن کر چھلنی ہیں ….اس کے بعد وہ ان تمام خلیجوں ،رکاوٹوں اور بندھنوں کو توڑ کر جو سماج نے اس کی راہ میں حائل کی ہیں ،پھلانگ کر اور وقت کو اس کے ہی گھن چکر میں الجھا کرمیدان میں آگئیں اور لوہابن کر لوہے کا مقابلہ کر نے لگیں___نالہ شب گیر اس کا بیان ہے۔
جب کبھی مرد اور عورت کو جاننے اور اس کی حقیقت سمجھنے کی طرف ذہن جاتا ہے تو دو سوال سامنے آتے ہیں عورت کیا ہے؟ مرد کیا ہے؟ ان سوالوں کی وجہ شاید یہ ہے کہ چونکہ عورت قرنہا قرن اور برسہا برس سے مرد کے مظالم، زیادتیوں اور مردانہ سماج کی نابرابریوں کی شکار ہوتی رہی ہے اور مرد نے ہمیشہ اس کے اوپر اپنی حاکمیت کے علم بلند کیے ہیں۔
سیمون دا بوا نے (دی سکنڈ سیکس) کی تحقیق کرتے ہوئے خود سے پوچھا تھا کہ عورت کیا ہے۔ اس کا ایک دوسرا پہلو ہے کہ مرد کیا ہے۔ اس لیے کہ جب عورت یہ سوچتی ہے کہ عورت کیا ہے تو یہ محض سوال نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کا ظلم بھی ہوتا ہے اور ظاہر ہے اس کے پیچھے ایک مرد ہوتا ہے اور شاید اسی لیے سیمون کو یہ سوال کرنا پڑا۔ 
‘‘FOR a long time I have hesitated to write a book on woman. The subject is irritating

«
»

مردانہ جوابی کارروائی

فلسطین: ہم رنجیدہ بھی ہیں شرمندہ بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے