مدارسِ اسلامیہ کا نصابِ تعلیم اور موجودہ دور کی ذمہ داری

اخیر میں حضور پاک علیہ الصلاۃ والسلام نبیوں کے مشن اوراسلام کی تکمیل کے لیے دنیا میں تشریف لائے، اور آپ نے اس کا اظہار ایک حدیث میں اس طرح فرمایا کہ ’’انبیاء آتے رہے اور ایک دیوار کی تعمیر کرتے رہے، اس میں ایک اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی تھی اور وہ اینٹ میں ہوں، اب اس کے اندر کوئی خلا نہیں رہا، وہ کامل ہوگئی‘‘ قرآن کریم نے بھی عرفات کے میدان میں اس کا اعلان فرمایا کہ اسلام کو آج مکمل کردیا گیا اور نعمتوں کا اتمام کردیا گیا، یعنی تمام نعمتیں، رحمتیں، برکتیں، طرح طرح کی چیزیں، فہم، ادراک، بصیرت، علوم اورترقیاتی راستے مکمل طور پر انسان کو عطا کردئے گئے، اور یہ نظام قرار پایا کہ جو جتنی محنت کرے گا، اتنا پھل پائے گا۔
اس لیے حضورپاک علیہ الصلاۃ والسلام نے کسی موقع پر بھی اس نظامِ توحید کے بارے میں سمجھوتہ نہیں کیا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا تھابلکہ اس کو برپا فرمایا، تمام علوم چونکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا فرمادئے گئے تھے، اس لئے آپ نے اعلان فرمایا کہ ’’الحکمۃ ضالۃ المومن‘‘کہ تمام حکیمانہ باتیں مومن کی میراث ہیں، اس لیے آپ کے نظام میں ہر حکیمانہ بات کی گنجائش رکھی گئی، زبانیں اور مختلف علوم سیکھنے کی ترغیب زبانِ رسول سے دی گئی، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا گیا کہ تم عبرانی زبان سیکھو، کہیں یہودی ہمیں دھوکہ نہ دیں، یہ سرمایہ جو حضور پاک علیہ الصلاۃ والسلام کی جانب سے اس امت کو ملا تھا، اس امت نے اس کی حفاظت کی اور تقریباً تیرہ سوسال تک یہ نظام دنیا میں وحدت کے ساتھ برپا رہا، اس میں کوئی تفریق نہیں تھی، تمام علوم کو اس میں سمویا گیا تھا، اولیت شرعی علوم کو عطا کی گئی تھی اور پھر اس کے بعد تمام علوم رکھے گئے تھے،طالب علم جس علم اور شعبہ کے اندر تخصص حاصل کرنا چاہے، اس کی گنجائش رکھی گئی تھی، ان مدرسوں سے نکلنے والے طالب علم روشن دماغ ہوتے تھے، یہ تفریق نہیں رہتی تھی کہ یہ مولویوں کا طبقہ ہے، یہ مسٹروں کا، یہ دینی علوم رکھتے ہیں اور یہ دنیوی علوم رکھتے ہیں، ان مدارس یا اسکولوں سے نکلنے والے فارغین انجینئر بھی ہوتے تھے، ڈاکٹر بھی ہوتے تھے۔اسی کے نتیجہ میں مسلمانوں نے ہر طرح کی خدمات سے اس ملک کو سنوارا، چنانچہ فیروز شاہ تغلق کے دور میں پچاس نہریں کھدوائی گئیں، سوپل اور ڈیڑھ سو کنویں بنوائے گئے، اسی طرح محکمہ باغبانی میں اپنی مہارتِ فن پیش کرتے ہوے ایک شخص نے ایک ایسے ملک (ہندوستان) میں جہاں کھٹے انگور بھی ملنا مشکل تھے، دوہزار باغوں کا انتظام کیا، جن میں دوسو (۲۰۰)باغ دہلی کے اطراف میں لگے اور اسی (۸۰) باغ شاہدرہ کے اطراف میں اور دوسری جگہوں پر لگائے، جن میں سات قسم کے انگور ہوتے تھے، یہ کام آج جو لوگ انجام دے رہے ہیں ان کو بڑے بڑے طمغوں سے نوازا جارہا ہے۔یہ سب کام مدرسہ کے ان فارغین نے انجام دئے، جنہوں نے وحدانی نظام کے تحت علوم کی تحصیل کی تھی،اسی وحدانی نظام کے تحت ہمارے اسلامی عہد کے ابن خلدون، شاطبی، ابن قیم الجوزی، زہراوی، کندی، فارابی، ابن سینا، ابن رشد وغیرہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے نہ صرف اس طریق سے تعلیم حاصل کی بلکہ کمال پیدا کرکے دنیا کو راہ دکھائی۔
ان مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کو یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ ہم نے فلاں علم نہیں پڑھا، یا ہم اس کو حاصل نہیں کر پائے، محنت کرنے والا چاہیے تھا طلب علم کی کمی نہیں تھی، آج بھی نہیں ہے لیکن اب اس کو حاصل کرنے کے لیے الگ الگ میدانوں میں جانا پڑتا ہے، دینی تعلیم حاصل کرنی ہے تو مدرسہ جاؤ، عصری تعلیم حاصل کرنی ہے تو اسکول جاؤ، آج تعلیم کو دو حصوں کے اندر تقسیم کردیا گیا، ایک دینی تعلیم، دوسری دنیوی تعلیم، یہ تقسیم ہم نے خود کی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ عسکری میدان میں شکست کھانے کے بعد سرخیل علماء ہند قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ نے جو دارالعلوم؍ دیوبند میں علوم وفنون کی حفاظت کے لیے قائم کیا، اس کے اندر صدر مدرس کی حیثیت سے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی قدس سرہ طلبہ کو جہاں علومِ دینیہ پڑھاتے تھے وہیں آج جن کو علومِ عصریہ کہا جاتا ہے ان کو بھی پڑھاتے تھے، اور مسلمان ہی نہیں بلکہ سوانح قاسمی میں مولانا مناظر حسن گیلانیؒ نے لکھا ہے کہ غیر مسلم اور ہندو بھی اس مدرسہ میں آکر ان علوم کو حاصل کرتے تھے، دارالعلوم کی اس وقت کی رودادوں میں اس کا تذکرہ ہے اور بعض ان غیر مسلموں کے نام بھی دئے گئے ہیں جو اس کورس کو پڑھ کر دارالعلوم سے فارغ ہوے، نیز اشرف السوانح میں حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نوراللہ مرقدہ کا ملفوظ لکھا ہے کہ ’’ہم تو جیسا بخاری کے مطالعہ میں اجر سمجھتے ہیں، میر زاہد امور عامہ کے مطالعہ میں بھی ویسا ہی اجر سمجھتے ہیں‘‘ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلی میں مقیم تھے ایک عبرانی زبان کا جاننے والا شخص دہلی آگیا، آپ کے ملفوظاتِ عزیز میں لکھا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: ’’ایک بڑے فاضل آگئے تو ہم نے ان سے توریت کی تحقیق عبرانی زبان میں کی‘‘ ناقل نے آگے لکھا ہے کہ ’’چنانچہ توریت کی چند آیتیں آپ نے پڑھ کر ترجمہ کیا‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے براہِ راست توریت اس سے عبرانی زبان ہی میں پڑھی، جو یقیناًآپ نے پہلے اس سے سیکھی ہوگی اور پھر اس عبرانی زبان کے ذریعہ توریت اس عالم سے پڑھی ہوگی، اس تعلیمی طریقہ کا جس کے اندر تمام علوم کو سمو لیا گیا تھا، بعد کے ادوار میں نہ جانے کیا ہوا کہ تعلیم کو دو حصہ میں تقسیم کردیا گیا، اور مدارس کے اندر ایک ایسا نظام جاری کردیا گیا جس کو ایک طبقہ پڑھتا ہے دوسرا طبقہ اسکول اور کالج میں جاکر عصری علوم کے نام سے الگ پڑھتا ہے، اس سے ایسی خلیج دونوں کے درمیان میں پیدا ہوگئی ہے کہ ایک دوسرے کو غلط تصور کرتا ہے، علماء وہ کہلائے جو مدرسہ سے فارغ ہوے اور ایجوکیٹڈ (Aducated) وہ کہلائے جو اسکول اور یونیورسٹی سے فارغ ہوے، مدرسہ کا طالب علم کالج کے علوم سے بے خبر ہے اور کالج کا طالب علم مدرسہ کے علوم سے بے خبر ہے،اور یہ دونوں طبقے مسلمان ہیں، ان کے درمیان دوریاں پیدا کردی گئی، نظریاتی اعتبار سے بھائی کو بھائی سے جدا کردیا گیا، آج یونیورسٹیز میں ایسی ذہن سازی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے فارغین اسلام کے دشمن بن رہے ہیں، باپ حافظ ہے، عالم ہے، حاجی نمازی ہے لیکن اس کا صاحبزادہ علومِ عصریہ پڑھ کر اور اس کے اندر اسپیشلائزیشن کرکے دین کی بنیادی باتوں کا منکر ہورہا ہے، کبھی وہ فرشتوں کے وجود پر اعتراض کرتا ہے، کبھی معجزہ اور معراج کا انکاری ہے، ایسے حالات میں وہ کیسے مسلمان رہے گا، اور وہ جس نظریہ کی ترویج کرے گا اس نظریہ سے متأثر ہونے والے افراد کیا آگے چل کر اسلام پر باقی رہیں گے؟ یا ان کا اعتماد دین کی ان اساسیات پر اسی طرح قائم رہے گا جیسے پہلے تھا؟ مدرسہ سے فارغین طبقۂ علماء کا ان کے تعلق سے کیا صرف اتنا کہہ دینا کافی ہوجائے گا کہ، وہ گمراہ ہیں، کافر ہیں، دین کے اور اسلام کے باغی ہیں؟ حالانکہ ان کو اس کا موقعہ ہم نے دیا کہ عصری تعلیم گاہوں میں جاکر اپنے عقائد ودین خراب کریں، ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کو دینی ماحول میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم سے بہرہ ور کریں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے دورِ قدیم کی طرف پلٹیں اور جیسے اس دور میں تعلیم کا رواج تھا اسی سنتِ قدیمہ کو زندہ کریں، اور ایک ایسا نصاب تیار کیا جائے جس میں تمام علوم کی گنجائش ہو، اور اس کے فارغین عالم بھی ہو، عصری تقاضوں کو بھی پورا کرے اور دینی تقاضوں کو بھی پورا کرے، گریجویشن تک تعلیم یکساں ہو جس میں سب ہی علوم کو جگہ دی گئی ہو اور اس کے بعد پھر ایم۔ اے کے اندر جو جس مضمون کو چاہے اختصاص کے لیے منتخب کرے،کوئی فقہ میں تخصص کرنا چاہتا ہے تو کرے، کوئی تفسیر میں کرنا چاہتا ہے تو کرے، کوئی علم حدیث میں کرنا چا ہتا ہے تو کرے، اسی طرح اگر کوئی انگریزی میں کرنا چاہتا ہے تو کرے، سائنس میں کرنا چاہتا ہے تو کرے، اوراس کے علاوہ کسی بھی مضمون میں تخصص کرے اس کو آزادی حاصل ہوگی، لیکن یہاں تک پہنچتے پہنچتے ان کے اندر ایمان واسلام اتنا راسخ ہوچکا ہوگا کہ اب ان کو کوئی طوفان ڈھکیل نہیں سکتا، کوئی ماحول ان کے قلب کے اندر اسلام کے کسی رکن کی جانب سے بدگمانی پیدا نہیں کرسکتا،ان کا ایمان محفوظ ہوگا۔
آج ہمارے مدارس سے جو طلبہ فارغ ہوتے ہیں وہ مختلف یونیورسٹیز میں گریجویشن کے مساوی سمجھے جاتے ہیں، ہونا یہ چاہیے کہ یہ نصاب خود ہماری تعلیم گاہوں کے اندر موجود ہو، رہا اس کے لیے بجٹ اور پیسہ کا مسئلہ تو اس کا انتظام وہی قوم کرے گی جو قوم آج ہزاروں مدارس کو اپنے عطیات سے چلا رہی ہے، پھر ایسا نہیں رہے گا کہ آج ایک عالم مدرسہ سے فارغ ہوتا ہے تو وہ اس قابل بھی نہیں ہوتا، کہ اسٹیشن پر اپنی رزرویشن سیٹ دیکھ لے کہ کون سے ڈبہ میں ہے، اور بس سامنے کھڑی ہے یا منزل سامنے ہیں اور بس پر لکھا ہوا ہے کہ کونسی جگہ ہے یا کونسی بس ہے لیکن اسے علم نہیں، وہ دوسروں سے معلوم کرتا ہے، کہ فلاں جگہ کہاں ہے یا فلاں بس کہاں جائے گی؟ عصری علوم کے ماہرین کیساتھ وہ بات نہیں کرسکتا کیونکہ وہ ان کی زبان نہیں جانتا، اس وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مُلاَّ مولوی بے وقوف ہیں، اَن پڑھ ہیں، دقیانوس ہیں، کم سمجھ ہیں، حالاتِ زمانہ سے ناواقف ہیں، اور اگر کوئی جانتا بھی ہے، دنیاوی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس نے کچھ علومِ عصریہ کو سیکھا ہے تو وہ خود اس کی محنت ہے، مدارس کے عمومی نصاب سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔اس کی ذمہ داری ہمارے علماء کے سر ہے، کیونکہ وہ علم کی بنیاد پر انبیاء کے وارث ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو ایک دھارے میں باندھیں اور ایسا نظام قائم کریں کہ قوم کے نونہالان ایسے اسکول اور کالجز کے اندر جانے پر مجبور نہ ہوں جن کے اندر ان کے عقائد کو بگاڑا جارہا ہے، ان کے دین کو قدیم فلسفہ بتایا جارہا ہے، اسلامی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے، حضور پاک علیہ الصلاۃ والسلام پر اور آپ کی بیبیوں پر کلاس میں اعتراضات کئے جارہے ہیں اور قوم کے بچے ان فتنوں کا شکار ہوکر الحاد کی طرف بڑھ رہے ہیں، اگر اس کے اوپر غور نہ کیا گیا تو قوم جلد اس منزل پر نظر آئے گی جس پر دیکھنا ایک سچا مومن کبھی کبھی گوارا نہیں کرسکتا، قوم کے بچے ان جگہوں پر اس لیے جارہے ہیں کہ ہمارے ماحول میں اور اسلامی طریقہ پر ایسا کوئی نظام ان کے سامنے نہیں ہے لیکن جب یہ نظام قائم ہوگا اور قوم کو اس بات کا علم ہوگا کہ ہماری ضروریات ہمارے علماء کے زیرسرپرستی، ہمارے مدارس میں پوری ہورہی ہیں، جو وہ ایک کالج میں پڑھتا، ماڈرن اسکول میں پڑھتا تو وہ ہمارے مدارس میں پڑھایا جارہا ہے تو وہ کہیں نہیں جائیں گے،انشاء اللہ ، بلکہ اپنے مدارس کی، اور علماء کی سرپرستی کی گھنیری چھاؤں میں اپنے بچوں کی پرورش کریں گے، اور جو پیسہ وہ عصری تعلیم گاہوں میں خرچ کررہے ہیں اس پیسہ کو بھی یہیں پر خرچ کریں گے، اسی جذبہ کے ساتھ اور اسی ضرورت کے احساس کے ساتھ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی نوراللہ مرقدہٗ نے وقت کے سربرآوردہ لوگوں کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی بنیاد رکھی تھی، اس جامعہ کے قیام کے پیچھے یہی جذبہ کارفرماتھا کہ ہمارے بچے عصری علوم کو دینی ماحول میں رہ کر حاصل کریں اور ان کے اندر پیچھے نہ رہیں لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور یہ یونیورسٹی بھی غلط ماحول کا شکار ہوگئی البتہ دوسری جگہوں سے پھر بھی بہتر ہے۔اب اگر یہ بات ذہن میں آئے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ دینی تعلیم بھی ہو اور عصری تعلیم بھی، اس سے تو ماحول خراب ہوجائے گا، بچوں کے اندر سے دین نکل جائے گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صرف سوچنے کی بات ہے، کیا مدارس کے اس نظامِ تعلیم سے پہلے پڑھانے کا الگ نظام نہیں تھا جس سے سبھی قسم کے لوگ تیار ہورہے تھے،وہاں کہاں ماحول خراب ہوا؟ ایسا تو نہیں ہے کہ عہدِ اول سے اسی طرز پر تعلیم وتعلم کا سلسلہ رہا ہو؟ اس طریقۂ تعلیم کی عمر زیادہ سے زیادہ ۱۵۰؍ سال سے کچھ اوپر ہے، اس سے پہلے دوسرے طرز پر تعلیم حاصل کی جاتی تھی، اور دوسری بات یہ ہے کہ جیسے ہمارے علماء کی سرپرستی میں آج ادارے چل رہے ہیں، اسی طرح سے پھر بھی چلیں گے، وضع قطع اور ماحول کی پوری نگرانی کی جائے گی، ماحول کو پورا اسلامی بنایا جائے گا، پڑھانے والے بھی اسلامی وضع قطع رکھنے کے پابند ہوں گے اور دوسرا پورا اسٹاپ اسلامی طرز کا ہوگا،حکومت کی مداخلت سے ان اداروں کو دور رکھا جائے گا، کیونکہ اس ملک کے قانون نے اقلیتوں کو آرٹیکل ۲۵؍ سے ۲۸؍ تک اس بات کی آزادی دی ہے کہ اپنے مذہب پر عمل کریں، اپنے ادارے قائم کریں اور اپنے طریق سے انہیں چلائیں، حکومت ان میں بغیر ان کی مرضی کے کوئی مداخلت نہیں کرے گی، اس طرز پر موجودہ دور میں جو ادارے ہمارے علماء کی سرپرستی میں چل رہے ہیں ان کو مثال میں پیش کیا جاسکتا ہے مثلاً خطیب الاسلام حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی دامت برکاتہم کا ادارہ جامعہ سید احمد شہید کٹولی ملیح آباد لکھنؤ ، اورحضرت مولانا غلام محمد وستانوی کے گجرات کے اندر ادارے اور جے پور میں جامعۃ الہدایہ، اور دوسرے ادارے جن کے اندر دینی تعلیم کو اولیت اور اسبقیت حاصل ہے اور ذیلی تمام علوم کو رکھا گیا ہے، جس کے نتیجہ میں ایسے انجینئرس و ڈاکٹرس وغیرہ کی نسل تیار ہورہی ہے، جن کا ذہن اسلامی ہے۔
اسی طرح کی ایک کوشش ہرسولی مظفرنگرکے اندر حضرت مولانا مفتی مہربان علی شاہ نوراللہ مرقدہ نے کی تھی، اس جامعہ کا نصاب بھی آپ نے ترتیب دیدیا تھا جس کے اندر عا لمیت کے ساتھ ساتھ تمام علوم کے لیے جگہ رکھی گئی تھی، عا لمیت کے موجودہ کورس کے اندر تخفیف سے کام لے کر اسی سے وقت کو فارغ کیا گیا تھا اور اس خالی وقت میں دوسرے علوم کو رکھا گیا تھا، اپنے آپ میں یہ کورس نہایت مفید تھا، اس سے فارغ ہونے والا طالب علم خود کو تہی دامن محسوس نہ کرتا، لیکن اس کے پورا ہونے سے پہلے ہی آپ کا انتقال ہوگیا، خدا کرے کہ مابعد کے حضرات اس کے اوپر توجہ سے کام کریں، اور امت کی اس ضرورت کی تکمیل فرمائیں، ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کو ساری چیزوں کی ضرورت ہے، اسے عربی زبان کی بھی ضرورت ہے اپنے دین کے لیے، اسے اردو کی بھی ضرورت ہے اردو زبان میں اسلامی لٹریچر پڑھنے کے لیے، اسے ہندی کی بھی ضرورت ہے اپنے ہندو بھائیوں سے بات کرنے کے لیے اور اسلام کو ان کے سامنے پیش کرنے کے لیے، اسے انگریزی زبان کی بھی ضرورت ہے امریکہ اور یورپ اور انگلش بولنے والے افراد کے سامنے اسلام کا تعارف کرانے کے لیے اور خود اپنی ذاتی ضروریات کے لیے، ایک چیز سکھادینا اور ساری چیزوں سے عاری رکھدینا نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس پر ہمارے علماء کرام غوروفکر کرکے ایک نصاب تیار کرے اور مدارس کے اندر ذیلی شعبہ قائم کرکے ان کے اندر ہرطالب علم کے لیے درجہ سفلا سے درجہ علیا تک کلاس لازم قرار دی جائے تاکہ اس نصاب کے فارغین مکمل داعئ اسلام بن کرنکلے اور اسلام کی نشرواشاعت کی خدمات انجام دیں جو ان کی بعثت کا اصل مقصد ہے۔

«
»

قصہ در دسنانے پر مجبور ہیں ہم

ہماری وصیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے