مسلم پرسنل لا کو تبدیل کرنے کا جواز کیا ہے؟

آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں اس طرز فکر کی سب سے بڑی محرک ہیں، جو اس ملک میں ہندو اکثریت کی آمریت چاہتی ہیں اور اس میں انہیں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان اور ان کے شرعی قوانین نظر آتے ہیں۔ان کے علاوہ جسٹس مارکنڈ کاٹجو جیسے بھی بعض لوگ ہیں جو وقت اور سیاسی صورتحال کے پیش نظر سنگھ پریوار کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے آج کی سیاسی فضا کو پیش نظر رکھ کر مسلم پرسنل لا کو بدلنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ حالانکہ پریس کونسل کے چیف کی حیثیت سے اس طرح کے بیانات دینا ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا، اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ کاٹجو کے اس بیان کی کسی نے تائید بھی نہیں کی، ایسے عناصر کو یہ حقیقت سمجھ لینا چاہئے کہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ اس طرح کے بیانوں کو اہمیت نہیں دیتے، نہ انہیں اپنا پرسنل لا یعنی شرعی احکام سے دست برداری منظورہے، اسی کو بچانے کے لئے مسلمانوں نے سپریم کورٹ میں شاہ بانو مقدمہ کے فیصلہ پر ۱۹۸۵ء سے ۱۹۸۶ء تک ایک زبردست تحریک چلائی اور جب تک پارلیمنٹ میں شاہ بانو فیصلہ کے مضمرات پر روک لگانے کا قانون پاس نہیں ہوگیا وہ چین سے نہیں بیٹھے، اس کی وجہ ہٹ دھرمی یا ضد نہیں بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی علاحدہ شناخت کا مسئلہ تھا جس کو وہ نظر انداز نہیں کرسکتے۔مسلم پرسنل لا کے مخالف یہ دلیل بڑے موثر ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ اگر مسلمان مسلم پرسنل لا سے دست بردار ہوکر یکساں سول کوڈ کو قبول کرلیں تو اس سے قومی اتحاد میں مدد ملے گی اور قومی استحکام حاصل ہوگا لیکن واقعہ یہ ہے کہ آزادی کے ۶۶ برس گزر چکے ہیں ، اس طویل مدت میں مسلمانوں کی علاحدہ شناخت سے قومی اتحاد کیلئے کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا،ہندوستان میں صرف ہندو یا مسلمان ہی نہیں مختلف لسانی، علاقائی اور مذہبی تہذیب اور شناخت کی حامل دوسری اقلیتیں بھی ہیں، جب جب ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی چیز اوپر سے ان پر مسلط کی جارہی ہے یا ان کی پسندیدہ شے سے محروم کیا جارہا ہے تو ان میں ردعمل ہوتا ہے اور وہ صف آرائی میں مصروف ہوجاتی ہیں، زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی تنظیم نو سے قبل ملک میں بڑا خلفشار تھا، کافی خون خرابہ بھی ہوا، اس میں مسلمانوں کا دور دور تک کوئی رول نہ تھا، جولوگ لڑنے مڑنے پر آمادہ تھے، ان کا پرسنل لا بھی مشترکہ تھا اور تقریباً سبھی ایک مذہب کے ماننے والے تھے، یہ خلفشار لسانی اور علاقائی بنیاد پر ریاستوں کی حد بندی کے بعد رک گیا، پھر بھی اس میں اتنی شدت تھی کہ تامل ناڈو اور آندھرا جیسی ریاستیں قومی جماعتوں کے قبضہ سے نکل گئیں، آسام وپنجاب کے مسئلہ میں ابھار بھی لسانی ، تہذیبی اور علاقائی امنگوں کا نتیجہ تھا اسلئے آج اصل مسئلہ الگ الگ شناختوں کا خاتمہ نہیں بلکہ ان کو تسلیم کرنے اور ضروری تحفظ فراہم کرنے کا ہے، اگر آسامی ، مدراسی اور سکھ اپنی شناخت سے دست بردار ہونے پر تیار نہیں تو مسلمانوں سے یہ توقع کیوں کی جارہی ہے کہ وہ اپنی شناخت سے دست بردار ہوجائیں۔ قومی اتحاد واستحکام کیلئے یہ ضروری ہے کہ جیسا یہ ملک ہے اس کو اسی شکل وصورت میں قبول کیا جائے ، اس کے تنوع اور کثرت میں وحدت کو برقرار رکھا جائے، اس کی تنسیخ وتبدیلی کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی، اتنی ہی زیادہ دقتیں پیدا ہونگی۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان میں ۱۷۔۱۸ کروڑ مسلمان آباد ہیں، وہ اپنے نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ کے مسائل اسلامی شریعت کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں، یہ بھی ظاہر ہے کہ مذکورہ قوانین کا نفاذ کسی دوسرے فرقہ پر نہیں صرف مسلمانوں پرہوتا ہے تو اس پر کسی کو کیا اعتراض یا کسی دوسرے فرقہ کا کیا نقصان ہے؟ لیکن ملک کی بدقسمتی کے سوا اسے اور کیا سمجھا جائے کہ مسلم پرسنل لا کے نام سے رائج یہ قوانین جو مسلمانوں کے عقیدہ وایمان کا حصہ ہیں دوسروں کی طرح محض رسم ورواج کا مجموعہ نہیں، بعض ترقی پسند وں کے ساتھ ساتھ سنگھ تنگ نظروں کی آنکھ کا کانٹا بن گئے ہیں، اسی لئے کوئی بھی موقع ہو وہ مسلم پرسنل لاکو نشانہ بنانے اور اسے تبدیل کرنے کے مطالبہ سے نہیں چوکتے سمجھ میں نہیں آتا کہ دوسروں کے پرسنل لا میں ٹانگ اڑانے سے کس ذہنیت کی تسکین ہوتی ہے، مسلمانوں کے دوسرے سلگتے مسائل ہیں، ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا، ان کی تعلیم ہو، اقتصادیات ہو یا جان ومال کا تحفظ، قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔مسلم پرسنل لامسلمان خواتین پر مردوں کے ظلم وستم ڈھانے کا ذریعہ نہیں جیسا کہ باور کرایا جارہا ہے، اسلام نے مسلم عورت کو اس کے بشری، نسوانی اور عائلی حقوق کا مکمل تحفظ کیا ہے مگر شعوری یا غیر شعوری طو رپر مخالفوں نے اس سچائی کو نظر انداز کردیا ہے۔آج عورت پر مظالم کیا دوسرے سماجوں اور مذہبوں کے ماننے والوں کے ذریعہ نہیں ہورہے۔ عورت اپنے اورپرائے سب کے درمیان غیر محفوظ ہے اس کی وجہ ان کے مذہبی ضابطے نہیں، وہ اخلاقی کمزوریاں ہیں جو تیزی سے اثر ونفوذ پارہی ہیں لیکن یہ کھلی سچائی عقل کے اندھوں کی سمجھ سے باہر ہے

«
»

نیپالی زندہ بھگوان کماری جس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے

کوئی جہاں میں اُردو کو مٹا نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے