دلی ……… تخت وتاج کا نیا مالک

طے شدہ پروگرام کے عین مطابق نریندرمودی آئندہ کے وزیراعظم ہند کے منصب کے لئے ہائی لی کوالیفائڈ قرار پائے ۔انتخابی عمل شروع ہوا اور مودی کے لئے میڈیا ہی نہیں بلکہ رائے عامہ کو متاثر کر نے والی ہر شئے کو بروئے کار لایا گیا اور پھر توقعات کے عین مطابق نتائج حاصل ہوئے۔ الیکشن کے نتائج کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی بھارت کے تمام بڑے شہروں میں جابجاجس طرح جشن منائے گئے ،ان کودیکھتے ہی ایک مشہور عالمی چینل نے اپنی ویب سائٹ میں لکھا:لگتا ہے کہ بھارت کے کروڑوں نوجوانوں کوجونجات دہندہ چاہئے تھاوہ مل گیا۔نریندرمودی جسے کچھ عرصے سے بھارتی کارپوریٹ ورلڈاورمیڈیاکرشماتی شخصیت بناکرپیش کررہاتھا، بالآخروہ الیکشن جیت گیا۔
بھارتی الیکشن کئی مراحل میں مکمل ہوئے جس میں کئی ہفتے لگ گئے۔ان تمام مراحل کے دوران ہرایک کواندازہ تھاکہ کانگریس شکست فاش کھاجائے گی۔بہت سے یہ بھی بھانپ رہے تھے کہ مسلم کش ہندوتعصب زدہ پریوار کی جیت ہوگی اورکچھ نہیں،سیکولرازم اوراخلاقی وجمہوری اقدارمٹی میں ملادی جائیں گی ۔ اب ایک رائے یہ بھی ہے کہ مودی کی کامیابی سے دوقومی نظریہ ایک اٹل حقیقت کی حیثیت سے سامنے آگیا۔ بھارتی الیکشن میں توقع سے بڑھ کر بی جے پی کوسادہ اکثریت سے بہت زیادہ نشستیں حاصل ہوگئی ہیں،یہ سب کیسے ہوا؟اس سوال کاجواب جاننے کیلئے ہمیں بھارتی سیاست اورحالیہ انتخابات کاگہرائی سے جائزہ لیناہوگا۔اس بار بھارتی انتخابات اس لحاظ سے منفرد تھے کہ ووٹروں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیااور۳۸.۶۶فیصدکاریکارڈٹرن آؤٹ رہا۔اس سے پہلے ۸۴ء میں اندراگاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے انتخابات میں ووٹروں نے پرجوش اندازمیں حصہ لیکر کانگرس کوکامیابی دلائی ،اس وقت ۶۴فیصدٹرن آؤٹ رہا۔اس بار ۵۵کروڑووٹروں نے ووٹ ڈالاجوکہ ۲۰۰۹ء کے مقابلے میں ۳۲فیصدزیادہ تھا،بعض بڑی ریاستوں جیسے مغربی بنگال میں توٹرن آؤٹ ۸۷فیصد،اڑیسہ میں۷۴فیصداورآندھراپردیش میں۲.۷۴فیصدتھا۔ووٹروں کی اس قدر بڑی تعدادنے باہرآکربھارتی سیاست کے تمام پچھلے لگے بندھے تصوارات اورتجزیوں کوغلط ثابت کردیا۔بی جے پی کی حیران کن کامیابی کے پیچھے یہ ٹرن آؤٹ اورخاص کر نوجوان ووٹروں کی پرجوش شمولیت کارفرماہیں۔
بی جے پی کی حیران کن کامیابی کے پیچھے یہ ٹرن آوٹ اورخاص کر نوجوان ووٹروں کی پرجوش شمولیت کارفرمارہی۔بی جے پی کی کامیابی میں دوبڑے فیکٹر تھے:ایک مودی فیکٹراوردوسرے مودی مخالفین کی نہایت کمزورکارکردگی۔نریندرمودی یابی جے پی کوسب سے زیادہ کریڈٹ کانگرس خاص طورپرگاندھی خاندان کودیناچاہئے۔سونیاگاندھی جوکانگریس کی کنگ میکرزہیں،پچھلے پانچ برسوں میں اپنی پارٹی اورحکومت چلانے میں بری طرح ناکام رہیں۔کرپشن،بیڈمینجمنٹ، اقربا پروری اورہر قسم کے ویژن سے محرومی ان کی حکومت اورپارٹی کے امتیازی نشانات بنے رہے تھے۔گاندھی خاندان کاسیاسی وارث راہول گاندھی عملی سیاست میں بری طرح ناکام ہوا ۔ان کے بارے میں عوامی امیج ایک ایسے شہزادے کارہاجوگاندھی خاندان کے چشم وچراغ توتھے مگربطورسیاستدان اوسط درجے سے آگے نہیں بڑھ سکے۔راہول بھی اس انتخابی مہم میں کوئی پرکشش ایجنڈادینے میں ناکام رہے۔ان کے پاس کہنے کوکچھ نہیں تھا،لگتاتھاکہ وہ اسٹیٹس کوکے علمبردارہیں۔
پچھلے پانچ برسوں میں کانگریس کی شرمناک کارکردگی کابوجھ راہول کی پشت پرتھاجسے وہ ایک انچ بھی بدل نہ سکے۔کانگریس کے دورمیں معیشت کی رفتاربہت سست ہوگئی اورافراط زرمیں بہت اضافہ ہوا،بھارتی روپے کی قیمت مستقلا گرگئی۔بے روزگاری،مہنگائی کی ایسی لہرآئی کہ عوام چیخ اٹھے ۔اوپرسے کرپشن کے بے شماراسکنڈل ان کاپیچھاکرتے رہے۔غیرشفاف حکومت اور بیڈمینجمنٹ کی انتہا ہوگئی تھی جس کے ثمرات انہیں بالآخر سمیٹنے ہی پڑے۔یہ سب کچھ بی جے پی کے حق میں گیا۔کانگریس کی طرح یوپی میں اکھلیش یادوکی ناکام ترین صوبائی حکومت نے بھی بی جے پی کی راہ ہموارکی۔یوپی کامعرکہ ان کے لئے سب سے اہم تھا،وہاں کے ریاستی انتخابات میں ملائم سنگھ یادوکی سماج پارٹی جیتی تھی مگران کے بیٹے اکھلیش صوبائی حکومت چلانے میں بری طرح ناکام رہے۔کرپشن ،لا اینڈآرڈرکے مسائل اورمظفرنگرکے مسلم کش فسادات کی بنا پرصوبائی حکومت بدنام سے بدنام تر ہوگئی۔اس کافائدہ بھی بی جے پی کوپہنچا اورپہلی بار وہ یوپی میں مدمقابل کاصفایاکرنے میں کامیاب ہوئی۔
اسی طرح مہاراشٹرمیں اجیت پوارکی ناکام حکومت نے بھی کم وبیش یہی کام کردکھایا۔مہاراشٹرمیں بھی بی جے پی کوبڑی کامیابی درکارتھی،وہ اسے مل گئی۔کانگریس کے ایک لیڈرمانی شنکرآئرنے انتخابی مہم کے دوران مودی پر ایک فقرہ کسا تھاکہ وہ توایک چائے والاہے ۔یہ ریمارکس مودی کے لئے بڑے بھاگوان ثابت ہوئے ۔انہوں نے اس فقرے کوخوب کیش کروایااوربارباراپنے جلسوں میں یہ کہتے رہے کہ ہاں میں چائے والاہوں ،میں نے جوانی میں چائے بیچی، مجھے اس پرفخرہے،میرامقابلہ کانگریس کے شہزادے کے ساتھ ہے ۔ظاہرہے جب ایک معمولی چائے والاکاشہزادے سے مقابلہ ہوگاتوعام آدمی کی ترجیح اپنے جیساآدمی ہی ہوگی۔ یہ توخیربی جے پی کے مخالفین کی ناکامیاں تھیں مگراصل کام نریندرمودی فیکٹرنے ہی دکھایا۔مودی کے بارے میں چندبرس پہلے کوئی تصوربھی نہیں کرسکتاتھاکہ گجرات کے خونی مسلم کش فسادات کالہواپنے دامن میں لئے یہ لیڈربھارت کاوزیراعظم بن سکتاہے مگراس نے یہ کردکھایا۔مودی نے ایک ہوشیارکھلاڑی کی طرح اپنے تمام کارڈز ہوشیاری سے کھیلے۔انہوں نے سب سے پہلے انڈیاکی کارپوریٹ ورلڈکوہاتھ میں لیا،ٹاٹا اور ا مبانی جیسے کھرب پتی سرمایہ داروں کوانہوں نے گجرات میں سرمایہ کاری پرآمادہ کرکے غیرمعمولی مراعات سرمایہ داروں کے لئے وقف کر دیں۔
مودی بھارتی سرمایہ کاروں کویہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ وہ بزنس فرینڈلی سیاستدان ہیں اوراگروہ اقتدارمیں آگئے توبھارتی معیشت کونہ صرف عروج حاصل ہوگابلکہ وہ سرمایہ کاروں کے حق میں ایسی پالیسیاں بنائیں گے جوانہیں زمین سے اٹھاکرپاتال کی بلندیوں تک لے جانے میں معاون ثابت ہوں گی۔یہ بھی کہا جاتا رہا کہ گجرات کے وزیر اعلی کے طورپرمودی نے معاشی میدان میں ڈیلیورکرکے اپنایقین بحال کردکھایا۔ کیاانہوں نے پندرہ برسوں میں ریاست کی شکل ہی بدل ڈالی اوروہاں پرمعاشی انقلاب برپاہوگیا؟ اس نکتے پر بحث ومباحثہ کی ضرورت سے انکار نہیں۔ مودی کا دعویٰ گجرات ماڈل کے حوالے سے یہ رہا کہ انہوں نے عام لوگوں کی سہولتوں کے کام کئے۔ان تمام برسوں میں دوسری بھارتی ریاستوں یعنی صوبوں میں لوڈشیڈنگ کابحران رہا،مہنگائی کی لہر رہی اورعام آدمی سخت پریشان رہا،ایسے میں گجرات میں بعض لیڈران کی طرف شک کی نظروں سے دیکھتے رہے۔ اگر یہ تھیوری درست مان لی جائے تو ان تمام کاموں اورگجرات ماڈل کوانہوں نے سیاسی طورپر بخوبی کیش کرایا۔انہوں نے پھراسی بنیاد پر اپنا امیج بنایاکہ بھارت کوآگے لے جانے کے لئے مودی کی طرح اچھامنتظم ہوناچاہئے جوگڈگورننس پریقین رکھتاہو،جسے جدیدمارکیٹ کے اصولوں کاعلم ہو،جومضبوط اورقدآورشخصیت ہو۔
انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اپنی چھپن انچ کی چھاتی کے گن گان کئے اورایک طاقتورشخصیت کے طورپرابھرے ۔ان کے پریواری نیشنل ازم نے بہت سوں کے دل موہ لئے جنہیں لگاکہ مودی کے جیتنے کی صورت میں ملک کوایسالیڈرملے گاجوناکارہ بیوریوکریسی کوسیدھاکردے گا،نامکمل بڑے بڑے پراجیکٹس کوپایہ تکمیل تک پہنچائے گا،غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموارکرے گا،ملازمتیں اورمواقع فراہم کرے گااورملک کا وقار بلندکرے گا۔ان کافاخرانہ نیشنل ازم جذباتی اورکسی قدرکھردرانہ اندازِ خطاب بھی ہندو قوم پرست حلقوں کے دلوں میں اتر گیا۔مودی نے پاورکرائسس کے حل،سیکورٹی اورعزت کی یقین دہانی اورنیشنل سیکورٹی کاوعدہ کیاجوبھارت میں بہت سوں کانفسیاتی مسئلہ ہے۔بھارت میں (Other Backward Cast)کی اصطلاح اہم ہے اورمودی کاتعلق اسی طبقے سے ہے۔انہیں اس طبقے کی حمایت بھی حاصل رہی حالانکہ یہ ہمیشہ سے کانگریس کے روایتی ووٹرتھے۔مودی کی دیومالائی شخصیت کی وجہ سے پورابالی وڈان پرفداہوگیا۔پریٹی زنٹاجیسی لبرل اداکارہ بھی انہیں رول ماڈل کہنے لگی۔لبرل رائٹرز،کالمنسٹ،تجزیہ نگار، اخبارنویس سب مودی کے ماڈریڑ ڈویلپمنٹ ماڈل پریقین لے آئے ۔انہوں نے مودی کاامیج بہتربنایا۔بھارتی کارپوریٹ ورلڈکابے پناہ سرمایہ استعمال کیا۔انہوں نے ملک کی سب سے مہنگی انتخابی مہم چلائی جس کے نتائج بھی انہیں من پسنداندازمیں ملے ۔
مگرایک انتہائی اہم سوال سنجیدہ غوروفکرکامتقاضی ہے کہ کیاوزیراعظم مودی اس آشاکاتحفہ ثابت ہوسکیں گے جہاں پرہر۱۶منٹ میں ایک اچھوت یعنی نچلی ذات والے کے ساتھ اعلیٰ ذات والے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں؟ہرروزکم ازکم چارنچلی ذات کی خواتین کاریپ ہوتاہے ، ہر ہفتے ۱۳نچلی ذات کے افرادکاقتل اورسولہ افراداغواء ہورہے ہیں۔سال ۲۰۱۲ء میں صرف دلی میں ۱۵۷۴نچلی ذات کی خواتین کے عصمت دری کی گئی جبکہ ان میں صرف دس فیصد کیس رجسٹرہوئے۔نیشنل کرائم بیوریوآف انڈیاکی ایک رپورٹ کے مطابق یہ سب کچھ ہورہاہے اس ملک میں جودنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتی ہے جہاں کروڑوں عوام کے ووٹوں سے وہ شخص پردھان منتری کی کرسی پربراجمان ہوگیاہے جس کے ہاتھ براہِ راست گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ کیا مودی اس ملک کو سکھ شانتی اور بہتر شاسن دے پائیں گے جہاں قدم قدم پر بد عنوانیوں کے عفریت ڈیرا جمائے ہیں ، جہاں بد نظمی کے اژدھے ہر کونے کھدرے میں چھپے ہیں ، جہاں مہنگائی اور بے روز گاری کی جڑواں بہنیں انسانیت کو نوچ کھارہی ہیں ؟
یہ درست ہے کہ بھارت میں نام نہادسیکولرلبرل ڈیموکریٹ کانگریس کے دورمیں بھی اقلیتوں،نچلی ذات کے لوگوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ انتہائی غیرانسانی اورامتیازی سلوک روارکھاجاتارہامگر بہرحال ہندوفیملی کے سبب کانگریس بھارتی ریاست اورجمہوریت کے ایک Softسیکولرچہرے کامکھو ٹا رکھتی تھی مگرنریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں پرکیاکیاستم ڈھائے گی ؟ اس کے جواب میں ایک دہائی قبل گجرات میں ہونے والے بدترین فسادات کی یادتازہ کرناضروری ہے ۔اپنی ساری انتخابی مہم میں بی جے پی کے وزیراعظم نے کسی پبلک پلیٹ فارم سے اس بارے میں ندامت یامعذرت کاایک لفظ تک کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ انتخابی مہم کے دوران بنارس میں ہندوووٹروں کے دل جیتنے کے لئے ان کے ایک دست راست گری راج سنگھ نے مسلمانوں اوران کے حامیوں کو اعلانیہ چتاونی دی تھی کہ اپنابوریابسترلپیٹ کرپاکستان چلے جائیں۔ 
اس مرحلے پربہت سے مسلمانوں اوردوسرے انسانوں کوگجرات کے متعصب اورخونخوار سنگھیوں کی دس سال قبل کی للکارضرور یاد آئے گی جنہوں نے مسلم کمیونٹی کوللکارکرکہاہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں اوراس کے بعدبی جے پی کی اپیل پرہونے والی بندھ(ہڑتال)سے گجرات میں ایسے بدترین خونی فسادات پھوٹ پڑے جن کی مثال ہندوستان کے قیام کے بعدکی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔’’سرکاری‘‘ اعدادوشمارکے مطابق ۷۹۰مسلمانوں کوذبح کردیاگیا،۲۵۰۰کوشدیدزخمی کرکے سڑکوں پرتڑپتاچھوڑدیاگیا،ایک لاکھ مسلمان گھربار چھوڑکرچلے گئے،،بی جے پی کے مسلح جتھوں کوکھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ مسلمانوں کے گھروں،دوکانوں،کاروباری مقامات کی اینٹ سے اینٹ بجادیں۔گجرات چیمبرآف کامرس کے مطابق مسلمانوں کے ۱۱۰/ارب روپے کے کاروبار کوملبے اورراکھ کاڈھیربنادیاگیا۔اس دوران پولیس نہ صرف جلاؤ گھیراؤ اورخون کی ہولی خاموشی سے دیکھتی رہی بلکہ چند مقامات پربی جے پی کے فسادیوں کے ساتھ پولیس کے جتھے بھی قتل وغارت گری کے منحوس کھیل میں مشغول رہے۔یہ ایک کریہہ الصورت مناظربرسوں سے امن کی آشاکے گیت گانے والوں کیلئے ایک تحفہ قرار پاتا ہے جس کاسہرامودی ازم کے سربندھتاہے ۔ یہ توو قت ہی بتائے گا کہ آیا مودی اپنے وسیع اورکشادہ سیاسی رول کے زیراثر اب امن کی آشا کے ماتھے سے خون کے داغ دھبے ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دھونے والے ہیں یا معاملہ وہیں کا وہیں جہاں میں اٹکاتھا؟۔ اس سلسلے میں آسام میں حالیہ مسلم کش فسادت کواگر گجرات کا منی ایکشن ری پلے کا واضح اشارہ مانا جائے تو مایوس ہونے کا ایک ٹھوس سبب ہے۔بایں ہمہ اس بارے میں اگر چہ وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم سنگھ پریوارکی ذہنیت سے آگہی بھی لمحہ موجودکی اہم ضرورت ہے۔بہارنواڈاحلقے سے بی جے پی کے امیدوارگری راج سنگھ نے ایک تقریب میں کہا:کیایہ صحیح نہیں کہ جتنے دہشت گرد گرفتارکئے جاتے ہیں وہ سبھی مسلمان ہیں۔گری راج سنگھ نے اس سے قبل انتخابی مہم میں یہ بیان دیاتھاکہ جومودی کوروکنے کی کوشش کرے گااسے پاکستان بھیج دیاجائے گا۔ پولیس نے اس کے خلاف تین مقدمات درج کئے ہیں۔ ان میں ایک متنازع بیان میں بی جے پی کے رہنما نے کہا:پاکستان مودی کواقتدارمیں نہیں آنے دیناچاہتا۔بھارت کے اندرحالیہ دنوں میں جب سے مودی ازم کے لئے نئی فضاہمواردیکھی گئی ،پاک دشمنی کے آتشیں جذبات کی ہانڈی میں ابال آچکا ہے کہ مئی کوتامل ناڈویونیورسٹی کے اندر ایک زیر تعلیم پاکستانی طالب علم کوجنونیت اورتشددکانشانہ بنایاگیا۔ بلاشبہ عالمی برادری نریندرمودی کوہندوستان میں مسلمانوں کے مخالف کی حیثیت سے جانتی ہے۔بھارتی حکمرانوں کے سیکولرازم کے دعوے کی نفی مسلم کش ذہنیت کے پس منظر میں نریندرمودی کے تین بارگجرات کا وزیر اعلی اوراب پورے بھارت کاوزیراعظم بن جانے سے بالکل ہوتی ہے ۔بی جے پی کی مجلس عاملہ کے ارکان نے ملک میں ہندو احیاء پرست کے چہرے کو اور زیادہ بے نقاب کردیاہے اورنریندرمودی کوانتخابی مہم کی ذمہ داری انہی کو سونپ دینے سے ان نیتاؤں کی مسلم بیزارذہنیت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہنے رہا۔بھارت میں ایک دونہیں درجنوں کی تعدادمیں بنیادپرست اور عسکریت پسندمتعصب جنونی ہندوجماعتیں پائی جاتی ہیں جن کامنشورہی ہندوستان کوتمام اقلیتوں کے وجودسے پاک کرکے سوفیصدہندو ستھا ن بناناہے۔سب سے زیادہ اہم حقیقت جس پرہرغیرجانبدارفرداورقوم کوتوجہ دینی چاہئے ،یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء سے آج تک کسی بھی مر کزی حکومت کوراشٹریہ سیوک سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی کسی بھی متنازعہ فیہ جماعت کے خلاف کسی بھی سطح پرکاروائی کی جرات نہیں ہوئی ۔اب تو چونکہ اس کی خواب و
خیال میں بھی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ مودی صاحب ائریل شیرون کی طرح صابرہ اور شطیلہ جیسے کارناموں سے ہندو احیاء پسندوں کے رول ماڈل بن کراقتدار کا سنگھا سن سنبھالے ہوئے ہیں،اس لئے اقلیتیں بالخصوص بے خانماں مسلم اقلیت کا ہراساں ہونا قابل فہم ہے۔
نریندرمودی نے بطور وزیراعظم حلف برداری کی تقریب میں اپنے پاکستانی ہم منصب نوازشریف سمیت سارک رہنماوں کوبلاکر اگر چہ ایک نئی روایت قائم کی مگر ناقدین کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے یہی نیت کارفرما رہی کہ سارک ممالک کو بھارت کی طاقت کاپیغام دیاجائے کہ ہم ایک بڑی طاقت ہیں ۔ بعض مبصرین اس کو یہ معنی پہناتے ہیں اصل میں نریندر جی اپنی شبیہ درست کر نے کے خواہاں ہیں ا ور بزبان حال دنیا اور گردونواح سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں کام کا آدمی ہوں، کوئی ناگہانی آفت نہیں۔ اس موقع پر جہاں ایک بھاجپا وزیر نے دفعہ ۳۷۰کے بارے میں اپنی بد نیتی کو کھلم کھلا ظاہر کیا ، وہیں بھارت کے نئے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی یہ بیان دے کر ہو اکے رخ کا پتہ دیا کہ آئندہ تین ماہ کے اندرپاکستان اورچین کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پراضافی دستے تعینات کرنے کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کئے جائیں گے۔ ادھرعالمی تجزیہ نگارمودی کے بھارت کے وزیراعظم منتخب ہونے کوعالمی طاقتوں کی گریٹ گیم کاایک حصہ قراردے رہے ہیں اورایک ایسے وقت میں جب افغانستان تمام بڑی طاقتوں کی آماجگاہ بن چکاہے اوررواں سال کابل سے نیٹوفورسزکاانخلا ہوناہے ،بھارت کی افغانستان میں عملداری اورسرمایہ کاری کسی اورہی طرف اشارہ کررہی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کے ایران اورافغانستان سے تعلقات شروع سے ہی اتارچڑھاو کاشکاررہے ہیں ،بھارت کی طرح افغانستان بھی پاکستان پرالزام تراشی کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،دوسری طرف ایران ، روس ، افغانستان اوربھارت کاگٹھ جوڑ بھی پاکستان کے لئے قومی پالیسی کے لئے ایک مشکل ٹاسک قراردے رہے ہیں۔ان حالات میں خطے میں پاک بھارت دوستی کے امکانات کتنے روشن اور کتنے تاریک ہیں، یہ ستمبر میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سیشن تک صاف ہوگا۔

«
»

نیپالی زندہ بھگوان کماری جس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے

کوئی جہاں میں اُردو کو مٹا نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے