پیشہ ورمسیحاؤں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت

بلکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مختلف قسم کی وجوہات رہی ہیں جن کے باعث ایسے حالات کاسامناآج ملک کو کرناپڑرہا ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی یہ خوبی رہی کہ وہ ملک کے مجموعی حالات کومدنظررکھتے ہوئے ایسی شاطرانہ حکمت عملی بنائی اور اس میں اس کا ساتھ ملک بھر کے کارپوریٹ سیکٹر نے بخودی دیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا جس کا تصور مسلمان اور اس کے قائدین کبھی بھی نہیں کر سکتے تھے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہرانے میں مسلمان خود ہی اپنی سیاست اور سیاسی حیثیت کو ہاربیٹھا۔اور جس سیکولرازم پر تمام سیکولر طاقتوں کو ناز تھاانہوں نے اپنی آنکھوں سے اس کی بربادی کو دیکھا۔اوروہ تمام لیڈرجن پر مسلمانوں کو بڑا اعتبار اور اعتماد تھا وہ بھی انہیں کی طرح کمزور اور بے اثر نکلے۔آخرایسا کیوں ہوا اس کا بھی ایک جائزہ لینا ضروری ہے۔
اب ہم آتے ہیں نریندرمودی کی شخصیت کے اس پہلوپر جس کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔نریندرمودی کی کی تربیت آر ایس ایس کے ایک کیڈر کے طور پرہوئی ہے۔اس لئے اس کی پالیسیوں سے وہ پوری طرح سے متفق ہیں اوروہ اس کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کریں گے ابھی تک تو ہم نریندرمودی کے منھ سے وہ جملے سنتے تھے جو عام طور پر فرقہ پرست بولتے رہے ہیں جیسے بنگلہ دیشیوں کے نام پر بنگالی مسلمانوں کو ملک بدرکرنا،کتاکا پلہ کہنا،تشٹی کرن کرنااوردہشت پسند کہنا وغیرہ ۔لیکن آر ایس ایس کا جو نظریہ ہے اورجس کو مسٹر مودی وزیراعظم کے طور پر عملی جامہ پہنانا چاہیں گے وہ یہ ہے جس کی بنیاد گولیکر اور ہیڈ گوار نے ڈالی تھی۔آر ایس ایس کے ان بانیوں کا خیال ہے کہ ہندواورمسلمان میں کبھی یکتا نہیں ہو سکتی ۔اس کی کوشش کرنا ایک غیر فطری عمل ہے۔مسلمان کبھی اس ملک کا وفادار نہیں ہو سکتا ،کیونکہ سچا وطن پرست وہی ہو سکتا ہے جس کا مذہب ہندوستان کی سرزمین پر پیدا ہوا ہو،اور اس مذہب کے مقدس مقامات ہندوستان میں ہوں ۔آر ایس ایس کے نظرئے کی جھلک آپ کو مودی کے ذریعہ مسلم ٹوپی نہ پہننے اور سارے عقائد کی ٹوپی پہننے میں مل جائے گی۔چونکہ آر ایس ایس کی فلاسفی یہ کہتی ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کامذہب اور مقدس مقامات ہندوستان کے باہر ہیں اس لئے وہ سچے وطن پرست نہیں ہو سکتے لہذا ان کی حیثیت ملک میں ایک کرائے دار جیسی ہے جیسے کرائے دارمکان میں عمربھررہتا ہے لیکن وہ اس کا مالک نہیں بن سکتا اسی طرح مسلمان اس ملک میں رہ سکتاہے لیکن وہ نہ تو اس ملک کا مالک ہے اور نہ اول درجے کا شہری ہے اور نہ وفادار ہے۔ان لوگوں کا ماننا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت چونکہ ترکوں اور مغلوں کی تلوار کے ڈر سے مسلمان ہوئی تھیں اس لئے اگر ہندوستان کے مسلمانوں کے اندرایک خوف پیدا کیا جائے تو وہ اپنے پرانے مذہب کی طر ف لوٹ سکتے ہیں۔یہ ساری چیزیں تو آر ایس ایس کے پوشیدہ ایجنڈے میں شامل ہیں اسی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کا جو کھلا ایجنڈہ ہے وہ بھی کم خطرناک نہیں ہے،جیسے بابری مسجد کی جگہ مندر بنانا،دفعہ 370ختم کرنا،یکساں سول کوڈ نافذکرنا،بنگلہ دیشیوں کے نام پر بنگالی مسلمانوں کو پریشان کرنا اگر ان میں سے کوئی بھی کام مودی کی سرکارکرتی ہے تو ملک میں خلفشارپیدا ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے،اور اگر مودی ان میں سے کسی پر عمل نہیں کرتے تو کٹر ہندو تنظیمیں ہنگامہ شروع کر دیں گی اور مودی کے خلاف ماحول بنانے لگیں گی۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ 6دہائیوں سے ملک میں تقریباً90فیصدوقت سیکولر پارٹیون کی حکومت رہی تو آخر اس کے بعد بھی ملک میں فرقہ پرستی کو اس حد تک آگے اور اوپر بڑھنے کا موقع کیسے ملا۔اور سیکولرازم ناکام ثابت ہوا۔اب ہم یہ دیکھیں کہ سیکولرازم کی یہ حالت ہوئی کیسے،تو ہم کو آئین ہند کو لاگو کرتے وقت قائدین کی نیت پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے آئین ساز اسمبلی نے آئین ہند کو بہت ہی اچھا اور تعصب سے پاک مساوات اور انصاف پر مبنی بنایا تھا۔لیکن اس کی پاکی اور ایمانداری کو ناپاک کرنے کی کوشش اس وقت کے کانگریسی لیڈر اور سیکولرازم کے سب سے بڑے علمبردارپنڈت جواہر لعل نہرو اور ان کی کیبنٹ کے ممبران کی سازش کے باعث ہوا ۔چونکہ ان لیڈران کی نیت مسلمانوں کے لئے کبھی اچھی نہیں رہی یہ ان کی کارکردگی میں بھی جھلکتا رہا ہے جیسے جب1936 ؁ء کے الیکشن میں مرکز میں کانگریس کی سرکار بنی تو پنڈت نہرو کی سرکار نے ایک حکمنامہ جاری کیا کہ سرکاری دفتروں میں اب اردو کے بجائے ہندی میں کام کیا جائے۔اس بات کی مسلمانوں نے مخالفت کی لیکن نہرو اردو کو اپنی مادری زبان بتاتے رہے اور کا ہمدرد ثابت کرتے رہے لیکن اردو کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے اور جو کچھ کسر باقی تھی اس کو آزادی ملنے کے بعد پوری کر دی ۔سبھی زبانوں کو اس کا حق دیا گیا لیکن اردو کو اس کے حق سے محروم کر دیا گیا ۔اردو کے لئے وہ قانون نہیں بنایا جو دیگر زبانوں کے تحفظ کے لئے سہ لسانی فارمولے کے تحت بنا تھا۔اسی طرح کشمیر سے کنیا کماری تک کانگریس کی حکومت تھی اردو کے سب سے بڑے عالم مولانا آزاد وزیر تعلیم تھے اور اپنی مادری زبان بتانے والے پنڈت نہرووزیر اعظم ہند تھے لیکن اردو زبان کا فاتحہ پڑھنے کا سارا انتظام ہو گیا تھا۔
اب ہم سیکولرازم کے بارے میں بھی کچھ جانکاری حاصل کرلیں کہ ہندوستان کے آئین میں جب یہ لاگو کیا گیا تھا تب سیکولرازم لفظ کا استعمال نہیں کیا گیا تھا۔بلکہ اس ملک کی اقلیتوں کو کچھ خصوصی مراعات دفعہ25-30تک میں دی گئی تھیں ۔اور چونکہ ملک ایک جمہوری بن گیا تھا تو لک کے سبھی باشندوں کو مساوی حقوق فراہم کئے گئے تھے ۔ظاہر سی بات ہے کہ ان خصوصی مراعات سے فائدہ اٹھا کر اقلیتیں جو ترقی کریں گی وہی سیکولرازم ہو گا۔لیکن کانگریس کی سرکار نے اس وقت آئین کی دفعہ341میں مذہب کی بنیاد پر پابندی عائد کرکے سیکولرازم کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کیا اور اس کے مخالفوں نے اس پر اتنے حملے کئے کہ وہ ایک کاغذی شیر بن کر رہ گیا اور جب سیکولرازم اپنی افادیت کھو رہا تھا اور بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد اندرا گاندھی کردرگا ماں تک کا خطاب دے دیا گیا تھا تب اندرا نے اپنی امیج کو صاف کرنے کے لئے 1976 ؁ء یں آئین میں ترمیم کرکے سیکولر ازم کو پری ایمبل کا ایک حصہ بنایا ۔جوآج کی تاریخ میں ایک گالی کے طور پربھی کچھ لوگ استعمال کرتے ہیں ۔اس طرح بابری مسجد میں بت بھی1949 ؁ء میں رکھوایا گیا اور1948 ؁ء میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام حیدرآباد میں سرکاری مشینری کا استعمال کرکے کیا گیا ۔اور فرقہ پرستوں کو خوش کرکے ان کا ووٹ لیا گیا۔کانگریس نے اپناانداز سیاست کئی دہائیوں تک کامیابی کے ساتھ چلایااور سیکولرازم کی چادربھی اوڑھے رہی چونکہ کانگریس کی سیکولر سیاست خالص نہیں تھی بلکہ اس میں فرقہ پرستی کی ملاوٹ تھی اس لئے سیکولرازم دن بدن کمزور ہوتا گیا اور فرقہ پرستوں کو لگا کہ کانگریس پارٹی وقت ضرورت کے ساتھ فرقہ پرستی کا استعمال کرکے فائدہ اٹھا لیتی ہے تب ان لوگوں نے فرقہ پرستی کا سیاست میں کھل کراور پورا استعمال کرنا شروع کردیا۔ملک میں ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ فرقہ پرستوں کو کانگریس کی ملاوٹی سیکولرازم کے بجائے خالص فرقہ پرستی زیادہ پسند آگئی۔ویسے بھی بازار میں ملاوٹی کے بجائے خالص مال کی قیمت اور اہمیت زیادہ ہوتی ہے،اس لئے کانگریس آج مقام پر ہے کیونکہ وہ نہ تو سیکولرازم کی پوری وفادار تھی اور نہ فرقہ پرستی کی ۔چونکہ سیکولرازم کا ایک ماڈل کانگریس نے سیٹ کر دیا تھا تو جو علاقائی پارٹیاں تھیں انہوں نے بھی کانگریسی سیکولرازم کے ماڈل کو اختیار کیا اورکانگریس کے ساتھ ڈوب گئی ایک بات یہ سمجھنے کی ہے کہ جیسے فرقہ پرستی کا بدل وطن پرستی نہیں ہو سکتی ہے اسی طرح سیکولر ازم کا بدل بدعنوانی بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ آپ صرف سیکولرازم کے نا م پر ہر قسم کی بدعنوانی میں ملوث پائے جائیں ۔
اب چونکہ نریندرمودی کی سرکار جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر آئی ہے تو اس کی مخالفت نہیں کی جانی چاہئے لیکن ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور ان کی اچھی اچھی باتوں میں بہل نہیں جانا چاہی کیونکہ وہ آج بھی آر ایس ایس کے کارکن ہیں اور آر ایس ایس کی حمایت اور حکمت عملی سے ہی اقتدار کی کرسی تک پہونچے ہیں ۔اور نریندرمودی کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کو جو ووٹ ملا ہے وہ عام طور پر مسلمانوں کی دشمنی میں ملا ہے اس لئے وہ اچانک مسلمانوں کے ہمدرد ہو جائیں گے اس بات کو مان لینا بہت بڑی نادانی ہو گی ویسے بھی دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے وزیر اعظم کیی امیج اقلیت مخالف اور فسادی کی ہو یہ بات نہ تو وزیر اعظم کے لئے اچھی ہے اور نہ اس ملک کے وقار کے لئے اس لئے مودی کو اس طرح کی بات کرنا پڑتی ہے کیونکہ آج بھی ساری دنیا ان کو پہلے ایک فرقہ پرست کٹر پنتھی لیڈر کے طور پر جانتی ہے انکی بدنامی کے قصے ہی سے دنیا ابھی تک واقف ہے اچھائیاں دیکھنی ابھی باقی ہیں۔
ایک کہاوت ہے کہ سانپ کو چاہے جتنا دودھ پلاؤ وہ ایک دن کاٹے گا ضرور اس لئے کم سے کم مسلمان مودی سے اپنے لئے بہت خیر کی امید نہ کریں ۔آخر جو لوگ آزادی کے بعد اپنے کو سیکولر کہتے تھے مسلمانوں کا ہمدرد بتاتے تھے اور ان کا ووٹ حاصل کرتے تھے اس کے بعد بھی فرقہ پرستی اور دشمنی کی کوئی رسم نہیں بچی تھی جس کو انہوں نے نہ نبھائی ہو۔تب ایک ایسے شخص سے آپ خیر کی امید کیسے کر سکتے ہیں جو پوری زندگی مسلم مخالف رہا ہو۔اور جب اس کو اقتدار کی طاقت ملی تو اس کا استعمال مسلمانوں کے خلاف بے دریغ کیا ہو۔
اسی پارٹی نے سپریم کورٹ میں بابری مسجدکی حفاظت کا حلف نامہ دیا تھا اور کورٹ سے کئے وعدے کر گئے تھے۔
لیکن مسلمانوں کے سامنے اس وقت کوئی قابل اعتبار متبادل کافقدان ہے۔اور اس بدلے ہوئے ماحول میں ان کو خود کو اور اپنی فکر کو بھی بدلنا چاہئے ۔
ایک قول ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کا سب سے اچھاطریقہ یہ ہے کہ مسئلہ کا سامنا کیا جائے اس لئے مسلمانوں کو اب کسی خود ساختہ سیکولر پارٹی یا پیشہ ور مسیحاؤں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اس نئی حکومت میں جو بھی تعلیمی معاشی مواقع نظر آئیں ان سے فائدہ پہلی فرصت میں اٹھانا چاہئے ۔کیونکہ اب اپنی مدد آپ کرنے کا وقت ہے،اگر آپ اپنی مدد خود کریں گے تو خدا بھی آپ کی مدد کرے گا۔اورماضی کے جو سیاسی خدا تھے ان کی بندگی سے احتیاط کرنا ہو گا۔کانگریس کا خاتمہ ایک منافقت سے چھٹکارا پانے جیسا ہو گا۔بلکہ ان کی جگہ علاقائی پارٹیاں زیادہ مفید ثابت ہو ں گی۔جہاں تک نریندرمودی کے ترقی کے ایجنڈے کا تعلق ہے تو احمد آباد میں آپ کے لئے اس ترقی کا کیا معنی ہو گا یہ دیکھا جا سکتا ہے جہاں مودی اسمبلی کے ممبر 12سالوں تک رہے اور گجرات کا وکاس کیا وہاں پر مسلم محلوں میں نہ تو سڑکیں بنی نہ تو پانی اور بجلی کا انتظام ہوا جب کہ ہندو علاقوں میں سب کچھ ہوا،اس لئے تعلیم کی طاقت سے اپنے لئے اچھے دن کی امید کرسکتے ہیں اس کئے صرف عزم اورحوصلے کی ضرورت ہے ہوتی ہے باقی سب کچھ خدا کی مرضی ۔

«
»

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

بھارت کا فارسی گو شاعر…مرزا عبدالقادر بیدلؔ ؔ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے