مسلمانوں کے تئیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا جانبدارانہ رویہ؟

خاص طور پر ہمارا قومی پریس یعنی پرنٹ میڈیا جس میں سرمایہ داروں کے بڑے بڑے اخبارات شامل ہیں اور الیکٹرانک میڈیا جس کو سیاہ دولت کے بل بوتے پر کھڑا کیا گیا اور جو آج کالی کمائی کی مشین بن گیا ہے نے بلاتحقیق وتفتیش مسلم اقلیت کو نشانہ بنانا اور اس کو شک وشبہ کے دائرے میں لاکر بے بنیاد الزامات عائد کرتا اپنا جمہوری حق تصور کرلیا ہے۔ اس جانبدارانہ رویہ سے نہ صرف مسلمانوں کی شبیہ بگڑ رہی ہے بلکہ انہیں صبر آزما حالات اور ناگوار صورتِ حال کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ کسی بھی مسئلہ یا واقعہ کی رپورٹ کو سنسنی خیز اور حساس بنانے کیلئے اسے مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے اور ایسی کہانی تراشی جاتی ہے کہ پوری مسلم قوم مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے ، کبھی مسلم خواتین پر ظلم و زیادتی کی دہائی دی جاتی ہے، کبھی خواتین کے پردہ کو قومی مسئلہ کا رنگ دے دیا جاتا ہے تو کبھی مسلم شریعت وروایات کو ہدف بنایا جاتا ہے اسی طرح خالص دینی اصطلاحات جہاد، داڑھی، دینی مدارس، طلاق اور خلع جسے موضوعات زیر بحث لاکر مذہب اسلام کو مذاق کا موضوع بنایا جاتا ہے ۔ گویا ملک و قوم کے ہر مسئلہ کی جڑ صرف مسلمان اور ان کی شریعت ہے۔ جبکہ دہشت گردی سے متعلق ہر واردات کی تان تو مسلمانوں پر ہی جاکر ٹوٹتی ہے اور اس کی وجہ سے مسائل سلجھنے کے بجائے مزید سنگین ہوجاتے ہیں بعد میں جب برعکس حقائق سامنے آتے ہیں تو ان کی اول تو تشہیر نہیں ہوتی یا پھر نہایت نیم دلی کے ساتھ ان کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری مسلم قوم کو ہندوستانی معاشرہ میں مجرم تصور کرلیا گیا ہے اور طرح طرح سے اسے عقوبت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی جانبداری بلکہ تعصب وتنگ نظری کا یہ صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرے پہلو کے تحت مسلمانوں پر مظالم بالخصوص انتظامیہ کی جانبداری، فرقہ پرستی، سماج دشمن عناصر کی کارستانی کو یہی میڈیا کوریج نہ دینے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اس کے پاس معمولی چور اچکوں کے کرتوت دکھانے اور مسخروں کی سرگرمیاں بتانے کیلئے وقت ہے۔ جب بھی ملک کے کسی حصہ میں عیسائیوں، دلتوں اور عورتوں کو زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے تو اس کی خبریں مختلف اخبارات میں شاہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتی ہیں، مختلف ٹی وی چینل مذکورہ واقعات کو اپنے اہم پروگراموں کی زینت بناتے ہیں، اس پر سوال وجواب اور مباحثے ہوتے ہیں اور مظلوموں کے نام نہاد مسیحا کا رول ادا کیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم وزیادتی کی کارروائی کو اخبارات میں جگہ دینے یا ٹی وی کے پردہ پر دکھانے کیلئے کسی ٹی وی چینل کے پاس وقت نہیں ہے۔
مسلم اقلیت کے پاس نہ ہندی اور انگریزی کے اخبارات ہیں اور نہ ٹی وی چینل، جو ایسے مواقع پر حقائق کے اظہار کا اہم کام انجام دیں اور جارح تنظیموں نیز جانبدارانہ انتظامیہ کے مجرمانہ کردار کو بے نقاب کریں، مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا پریشر گروپ بھی نہیں ہے جو میڈیا پر زور ڈال سکے کہ وہ ان کے تئیں اپنے بے لاک کردار کا مظاہرہ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے۔ آج ضرورت اس کی ہے کہ صحافت کے شعبہ میں مسلم نوجوان زیادہ سے زیادہ تربیت حاصل کرکے سرگرم ہوں تاکہ مستقبل میں ایسے مواقع پر ملت کو اپنی محرومی کا احساس نہ ہو اور اس کے درد کا درماں ہوسکے۔

«
»

حماس اور فتح میں مفاہمت

آر ٹی آئی ایکٹ عوام کو بہلانے کا ذریعہ ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے