سپریم کورٹ سے بھی کچھ نہ ملا مسلمانوں کو

بات ایک لڑکے اور ایک لڑکی کے ناجائز تعلق سے شروع ہوئی ملک میں ایسے واقعات ہرجگہ اور ہردن نہ جانے کتنی جگہ ہوتے ہیں اس میں قتل کی بھی نوبت آجاتی ہے اور تھانہ پولیس اور عدالت ہوتے ہوئے جیل کی بھی لیکن سوسے زیادہ بے قصور مسلمانوں کی موت اور ہزاروں مسلمانوں کی دربدری اس کی پوری ذمہ داری حکومت پر ہے جوکسی افسر کے خلاف عبرت ناک سلوک اس لئے نہ کرسکی کہ وہ افسرہندوتھے اور ان افسروں نے قتل کرنے اور گاؤں سے نکالنے والوں کو دل ہلادینے والی اور عمربھر یاد رکھنے والی سزااس لئے نہیں دی کہ وہ ہند و تھے اور ہندوبھی جاٹ جن کی حمایت کی حکومت کو الیکشن میں ضرورت تھی ۔ 
اب ملک میں جو کچھ اچھا یا برا ہوا ہے وہ صرف یہ دیکھ کر ہوتاہے کہ اس کا اثر الیکشن پر کیا پڑے گا؟۔مظفر نگرکے اس واقعہ کے متعلق کوئی بات چھپی نہیں ہے۔ جہاں سے اس واقعہ نے خون کی ہولی کی شکل اختیار کی وہ ہزاروں جاٹوں کی پنچایت تھی جس میں شریک ہونے والے سیکڑوں جاٹ مسلح تھے۔ سب جانتے ہیں کہ دفعہ144لگی ہوئی تھی ۔یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس دفعہ کے نافذ ہونے کے بعد سے زیادہ آدمی کیوں جمع ہونے لگے؟اگر طاقت کے بل پر جمع ہوگئے تھے توپھر پولیس نے اپنی طاقت کے ذریعہ انہیں منتشر کیوں نہیں کیا؟کیوں لاٹھی چارج نہیں کیااوراگر بات مقابلہ کی آئی تو کیوں گولی نہیں چلائی؟؟وجہ صرف وہی تھی کہ وہ ہندوتھے جاٹ تھے اور حکومت کو ان کے ووٹوں کی ضرورت تھی ۔ اور یہ ملک جب کبھی بھی برباد ہوگا اورشاید جلد ہوجائے تواس کا سبب صرف ووٹ ہوں گے۔ اس لئے کہ یہ بھی ووٹوں کی وجہ سے ہی ہورہا ہے کہ جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کرایا یازہر یلی تقریریں کر کے مسلمانوں سے ان کے گھر خالی کرائے اور پورے مظفر نگر کو جہنم بنادیا وہ ہار پھول پہنے ہیروکی طرح گھوم رہے ہیں اور ان میں سے کچھ امیدوار بھی ہیں اور حکومت صرف تماشہ دیکھ رہی ہے صرف اس لئے کہ وہ نہ صرف جاٹ ہندوہیں بلکہ جاٹوں کے لیڈر ہیں ۔ 
اترپردیش کی حکومت اس مسئلہ میں حکومت کا کردار ادانہیں کررہی ہے بلکہ ایک چیئرٹیبل ٹرسٹ کی طرح کام کررہی ہے کہ وہ مرنے والوں کے وارثوں کو جیسے دے رہی ہے کسی کو نوکر ی دے رہی تھی کسی کو روپئے دے رہی ہے کہ جاؤکہیں دورجاکر بسیرا بنالوجب کہ اس کا فرض تھا کہ وہ اجڑے ہوئے غریبوں کو ان کے گاؤں لے کر ان کے مکانوں میں آبادکرتی اور ان کی حفاظت کے لئے باقاعدہ چوکی قائم کرتی اس کے بعد اگر کوئی سرکشی کرتا تو اس کا گھر کھود کرتاراج کردیتی اور اسے گاؤں سے باہرکردیتی ۔ لیکن وہی ہے کہ کسی کوچھوا بھی نہیں جاسکتا اس لئے کہ وہ ہندوہیں افسر اور پولیس بھی ہندوہے اور وزیراعلیٰ بھی اوران کے مشورہ دینے والے بھی ہندوہیں ۔ 
سپریم کورٹ کے اس سخت تبصرہ کے بعد ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ شری ملائم سنگھ بیٹا نوازی کو طاق پررکھتے اور پارٹی کے کسی دسرے تیز اور کھلے دماغ کے لیڈر کو وزیراعلیٰ بنادیتے لیکن حکومت کی طرف سے جو ردعمل آیا ہے اسے دیکھ کر صاف محسوس ہوتاہے کہ حکومت کو نہ مسلمانوں کے قتل پر شرمندگی ہے اور نہ قاتلوں کے ہیروکی طرح گھومنے پر کوئی فکر حکومت نے ردعمل کے طورپر کہہ دیاکہ افسوس ناک واقعہ کے متاثرین کو سنجیدگی اورمستعدی سے راحت اور مالی امدادپہنچائی گئی جس کی وجہ سے فسادپر قابوپایاگیا ۔متاثرہ کنبوں کو ایک ارب چارکروڑ روپئے کی مدددی گئی وغیرہ وغیرہ حاصل یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اگر کہا کہ حکومت نے کوتاہی کی تویہ غلط ہے حکومت نے اپنا فرض ادا کردیا ۔ یعنی بات ختم

«
»

کیا یہی ہے تہذیبوں کی جنگ

ممبرا میں پولیس کی دہشت گردی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے