قاہرہ ………..۵۲۹قیدیوں کی سزائے موت

یہ سب مظالم فراعین جدید اپنے ہامانی مددگاروں اور سامریت نواز ساحروں کے سہارے مصری عوام پر ڈھا کر اپنے راج تاج کا سکہ چلار ہے ہیں۔ گزشتہ سال اس فرعونی دور کی شروعات منتخب صدر محمد مرسی کو اس وقت ہوئیں جب جنرل السیسیی نے بزور بازو منتخب صدر محمد مرسی کو صدارت سے معزول کر کے اپنی تانانہ شاہی حکومت قائم کی ۔ اسی لمحے سے متواتریہ قوم خاک اور خون میں لتھڑی جارہی ہے ۔ اب چنگیزئیت کو مات دیتے ہوئے مصرکے شہر المنیا کی ایک نام نہاد عدالت نے صدرمحمد مرسی کے حامیوں کو پولیس پر دھاوا بولنے اور ایک پولیس اہلکار کو قتل کرنے کے الزام میں پسِ دیوار زندان قیدیوں کو سزائے موت کا حکم سنادیاہے۔یہ تمام افراد ممنوعہ قرادی گئی جماعت اخوان المسلمین سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سمیت کل۱۲۰۰ /افراد پر مقدمہ چلایا جا رہا تھا ۔ دل تھام کر سنئے کٹھ پتلی عدالت نے یہ فیصلہ محض دو پیشیوں کے بعد سنا دیا جب کہ ملزمان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ انہیں عدالت نے اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ بالفاظ دیگر یہ مصر میں فوجی حکومت کے مخالفین کو دبانے کا قانونی نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ ہے ۔ یہاںیہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سزائے موت پانے والے ان اخوانیوں میں سے اکثریت اس دن جائے وقوعہ سے سینکڑوں میل دوراپنے نجی کاموں میں مصروف تھی اور ان کا اس ساری سر گزشت سے کوئی لینا دینا ہے ہی نہیں ۔ قابل غور امر یہ ہے کہ جب عدالت میںآہنی پنجروں میں بند ان قیدیوں کو لایا گیا اور انہں موت کی سزا سنائی گئی توانہوں نے خوشی کے عالم میں جھو متے ہوئے نعرہ تکبیر اتنی بلند آواز لگایا کہ عمارت کے در ودیوار ہل گئے ان کی آواز میں اس قدر جوش تھا کہ جج کے سوا سارا عدالتی عملہ خوف کے عالم میں وہاں سے بھا گ کھڑا ہوا ، اور انہوں نے سید قطب شہید ، حسن البنا اور عبدالقادر عودہ اور زینب الغزالی کی یادیں تا زہ کردیں ۔
عالم انسانیت کے باضمیر اور غیور لوگوں کے ساتھ ساتھ راقم السطور کے لئے بھی یہ نام نہاد عدالتی فیصلہ ایک صدمہ خیز دھچکا ہے۔ سوچتاہوں کیاوہ وقت نزدیک آپہنچاہے جب اس امت کے زریں خوابوں، نیک امنگوں ، مثبت خواہشوں اورمعطرامیدوں کے ساتھ کھیلنے والے بدبختوں،اسے اپنے اقتدار کی قربان گاہ پرذبح کرنے والے امریکی دلالوں کے دن لد گئے ہیں ؟ یااللہ کے ان بے لوث ومخلص بندوں کی معصومیت کا جواب تہذیبوں کاتصادم کے چاہنے والوں کی شقاوت قلبی سے دیا جا ئے گا؟زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود ان پرتنگ ہوجائے گی؟انہیں عرب وعجم میں کوئی جائے امان نہیں ملے گی؟…… لیکن وقت کی طنابیں تواس مالک کائنات کے ہاتھ میں ہیں جس کافرمان ہے کہ میں ظالم کوڈھیل دیتا ہوں،اسے مہلت ملتی رہتی ہے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آجائے، لیکن جب زمین پربسنے والوں کی آہیں،سسکیاں اور فریادیں بے تکان آسمان کی جانب سفرکرنے لگتی ہیں توپھراللہ فرماتاہے اورتیرے رب کی پکڑ بہت شدیدہے۔ یہ پکڑاس وقت آتی ہے جب ظلم کرنے والوں کویقین ہوجاتاہے کہ اب ان کاہاتھ کوئی نہیں روک سکتا اوربستیوں کے لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہاں اب کوئی ہمیں اس دورِجبر اور نظامِ ظلم سے نجات نہیں دلاسکتا۔ ایسے میں میرے رب کے فیصلے کالمحہ آپہنچتاہے ۔صفائی کاموسم،سزا کافیصلہ،زمین پرفسادبرپا کرنے ، عدل وانصاف کا مضحکہ اڑانے اوربے بس ومجبور اوربے نوا لوگوں پرعرصہ حیات تنگ کرنے کی فرد جرم پر فیصلہ سنادیاجاتاہے۔ سیدالانبیاءؓ نے فرمایا کہ میری امت پر عذاب نہیں آئے گا ،سوائے اس کے کہ تم گروہوں میں تقسیم ہوکرایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے پھرو اور یوں عذاب کامزاچکھ لو۔
بلائیں اورآفتیں جب نازل ہوتی ہیں تووقت سے پہلے لوگوں کے دل دھڑکنے لگتے ہیں۔دروازوں کے کواڑذرا سے ہلیں توکسی بلائے عظیم کی آہٹیں سنائی دیتی ہیں۔ذرا سی تیز ہوا ہوتوخوفناک آندھی کاگمان ہونے لگتاہے۔اچانک کوئی غیرمعمولی واقعہ بار بار ہونے لگے تو بدشگونیاں نکالی جاتی ہیں۔انسان مدتوں بلکہ جب سے اس نے اس کائنات میں ہوش سنبھالاہے ،آفتوں اور بلاؤں کے خوف سے آزادنہیں ہوسکا۔ خوش نصیبی اور بدنصیبی ایک ایساگورکھ دھنداہے جسے انسان ازل سے آج تک حل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ہردفعہ بدنصیبی کی کوئی نہ کوئی تعبیرضرور ہوتی ہے۔ کوئی اسے کسی ظلم ،بربریت اوردرندگی کاشاخسانہ سمجھتاہے توکہیں اسے ظلم پرطویل خاموشی اورچپ کی وجہ سے ایک سزاتصور کیا جاتا ہے ۔ مدتوں لال آندھی کامطلب یہ سمجھاجاتاتھاکہ کہیں قتل ناحق ہوگیاہے۔اب توگلیوں بازاروں اورچوراہوں پراتنے ناحق لوگ قتل کئے جانے لگے کہ لال آندھی نے بھی شرمسار ہوکر نکلناچھوڑدیاہے۔
مصری حکمران جنرل ا لسیسی میں کمال اتاترک اور جمال عبدالناصر کی روح حلول کر گئی ہے ۔ آج کل اس تانا شاہ کے یہودی ہونے کے دستاویزی ثبوت میڈیا پر آنے کے بعد عرب عوام میں ہلچل سی مچ گئی ہے لیکن حکمرانوں کی سطح پر لب اظہار پر بدستور خاموشی کاقفل چڑھا ہواہے۔ عرب حکمرانوں کا مسئلہ یہودی کبھی رہا ہی نہیں۔ عرب بادشاہت کی حامی جماعت النور کا ردعمل بھی وہی ہے جو عرب حکمرانوں کا ہے یعنی سب قبول ہے، بس اخوان قبول نہیں۔ جماعت النور کا ویسے بھی کبھی یہودیوں سے نظریاتی اختلاف نہیں رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مصری آمرجنرل السیسی کی والدہ مراکش کی یہودن تھی جس کا نام ملیکہ تیتانی تھا۔ ۱۹۵۸ء میں اس نے مصر کی شہریت لی۔ اس کا بھائی عوری صباغ اسرائیل کا وزیر تعلیم رہا ہے۔ صدر عدلی منصور کے بارے میں تو یہ پہلے ہی آچکا ہے کہ وہ عیسائیوں کے سبطی نام کے ایسے فرقے کا رکن ہے جسے عیسائی تسلیم نہیں کرتے۔ یہ فرقہ خود کو عیسائی بتاتا ہے لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ یہ یہودیوں کی ایک شاخ ہے۔ یہ بات زمان آخر ہی کی نشانی لگتی ہے کہ عرب دنیاکے سب سے بڑے ملک مصرپر یہودیوں کی حکومت کسی یلغار ،کسی جنگ کے بغیر ہی بن گئی ہے۔ سیسی اور عدلی تو چلئے یہودی ہوئے لیکن باقی عرب ممالک کے سربراہ تو کہنے کو مسلمان ہیں، وہ کیوں سوائے قطر اور تیونس کے سارے کے سارے یہودیوں پر جان چھڑکنے لگے۔ اس حد تک کہ بڑی عرب Kingdomکی اخوان سے پہلی ناراضگی اس وقت شروع ہوئی تھی جب مرسی نے فلسطینیوں کی ناکہ بندی ختم کی۔ کنگڈم کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو گندم کا ایک دانہ بھی نہیں ملنا چاہئے ،گویا دو ایک ملکوں کو چھوڑ کر تمام عالم عرب اسرائیل کی طرف سے ایک بھی گولی چلائے بغیر مفتوح و ممالک محروسہ ہے ۔ اسے قیامت کی نشانی کیوں نہ سمجھا جائے؟ نشانی یہ ہے کہ قیامت سے پہلے عراق و اردن سے لے کر حجاز و مصر تک یہودیوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ صورتحال دیکھ لیں، نشانی بتا دے گی کہ وہ پوری ہوگئی۔جنرل سیسی نے چار سے پانچ ہزارسے زائد اخوان قتل، پچیس ہزارسے زائد زخمی کر دئے جن میں بہت سے عمر بھر کے لئے معذور ہو چکے ہیں، دس ہزار گرفتار کر لئے گئے اور کئی ہزار لاپتہ ہیں۔ مان لیجئے کہ یہ سب قدرتی ہے،کوئی بھی آمر اپنے مخالفوں کے ساتھ یہی کرتا لیکن سیسی نے کچھ اور اقدامات بھی کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ 
کچھ اور بھی ہے اور یہ معاملہ یوں کھلا کہ والدہ کے نام کا پتہ چل گیا اور موصوف کے ماموں کا بھی جو اسرائیل کا وزیر رہا اور یہ بھی عوام پر منکشف ہوا کہ کیوں اسرائیل نے کہا تھا کہ سیسی یہودی قوم کا ہیرو ہے۔ ذرایہ اقدامات ملاحظہ فرمائیں :اس نے ہزار علمائے کرام کے مساجد میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ مصر کی تیرہ ہزار سے زیادہ مساجد میں جمعے کی نماز روک دی ہے(اسرائیل ایک مسجد میں نماز روکتا ہے تو مسلمان دنیا بھر میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں)۔یہودی فلسطینیوں سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اس نفرت کی تاریخ اسرائیل کے قیام اور اس کی وجہ سے ہونے والی لڑائی تک محدود نہیں۔ یہ نفرت بڑی پرانی ہے اور سیسی نے اس نفرت کو کبھی چھپایا نہیں۔اس نے برسراقتدار آکر فلسطینیوں کی پہلے سے بھی سخت ناکہ بندی کر دی۔ غزہ کو دنیا سے ملانے والا واحد راستہ وہ سرنگیں ہیں جو سینائی کے شہر رفاہ کو غزہ سے ملاتی ہیں(غزہ کی پٹی کے ساتھ سمندر بھی لگتا ہے لیکن یہ چھوٹا سا ساحل اسرائیل کے قبضہ میں ہے)سیسی نے یہ سرنگیں تباہ کر دیں اور فلسطینیوں کی مصر آمدورفت روک دی۔ فوجی آمر کی نفرت کا جنون دیکھئے۔ پانچ فلسطینی ماہی گیر مچھلیاں پکڑتے ہوئے مصر کی حدود میں داخل ہوگئے۔ انہیں پکڑ کر ان پرمقدمے چلائے گئے اور کئی سال قید سنا دی گئی۔ ماہی گیر سمندری حدود کی خلاف ورزی پر دنیا بھر میں پکڑے جاتے ہیں اور پھر یہ تصدیق ہونے پر کہ وہ ماہی گیر ہی ہیں، بھیس بدلے دشمن کے ایجنٹ یا سمگلر نہیں ہیں، رہا کر دئے جاتے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں انہیں سزا نہیں دی جاتی۔ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ماہی گیر اکثر پکڑا کرتے ہیں اور پھر کچھ وقفہ کے بعد چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ پہلی مثال ہے کہ غلطی سے سمندری حدود کی خلاف ورزی پر کسی ملک نے مقدمہ چلایا اور سزا سنا دی ۔سیسی نے پورے ملک میں پابندی لگا دی ہے کہ کسی دیوار یا اخبار رسالے یا اشتہار پر مسجد اقصی کی تصویر نہیں چھپے گی۔ صرف تصویر ہی نہیں، کوئی شخص کسی بھی جگہ بیت المقدس، مسجد اقصی یا القدس کا لفظ بھی نہیں لکھ سکتا،جو لکھتا ہوا پایا گیا، اس پر دہشت گردی کا مقدمہ چلے گا۔ مسجد اقصی سے اتنی نفرت دنیا میں صرف دو ہی مذہب کرتے ہیں۔ ایک یہودی اور دوسرے ایونجلیکل چرچ۔ یہ عیسائیوں کا وہ فرقہ ہے جو یہودیوں کا اس بارے میں ہم عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح کی آمد ثانی تب تک ممکن نہیں جب تک مسجد اقصی گرا کر ہیکل سلیمانی تعمیر نہیں کر دیا جاتا۔ باقی مسیحیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہیکل سلیمانی بنتا ہے یا نہیں۔ بیت المقدس سے سیسی اور عدلی کی نفرت کی وجہ سمجھ میں آگئی۔ یہ سوچنا باقی ہے کہ جامع الازہر کا شیخ اور جماعت النور کا سربراہ کی خاموش ہیں ، اس چپ کی وجہ کچھ تو ہونی چاہیے۔عالم عرب میں صرف تیونس اور قطر ہیں جو مسجد اقصی کی حرمت کے قائل ہیں، باقی سارے عرب حکمران، شیوخ، روسا، بیوروکریٹ، جرنیل، صنعت کار، میڈیا، علمائے کرام عملًا ہیکل سلیمانی پر ایمان لا چکے، اقرار باللسا ن نہ سہی، اقرار بالقلب تو ہے ۔ جو بات یہ ایمان لانے والے نہیں سمجھتے ، وہ یہ ہے کہ ہیکل اب کبھی نہیں بن سکتا۔ دجال جب آچکے گا، تب بھی نہیں بن سکے گا۔ ایک مزے کی بات یہ معلوم ہوئی کہ سیسی نے اپنی یہودیانہ مکاری سے کام لیتے ہوئے اخوان کی قیادت کو باور کرایا کہ وہ تو شروع ہی سے اخوان کے بانی امام حسن البنا کا معتقد اور مرید ہے۔ اخوان کی قیادت اس کی عیاری و مکاری میں آ گئی اور اس پر بھروسہ کر لیا مگر عبداللہ بن سبا کا یہ چیلہ کچھ اور ہی نکلا۔
مجھے آج بری طرح وہ دو ننھے منے معصوم بچے یاد آرہے ہیں ۔یہ بچے اپنی ماں کی آغوش میں لپٹے سورہے تھے دنیا ومافیہا سے بے خبران کی ماں بھی اسی طرح ان پربار بارلحاف
اوڑھا رہی ہوگی جیسے ساری دنیا کی مائیں کرتی ہیں کہ اچانک ان کے والد عمرعبداللہ کی گرفتاری کے لئے گھر پرچھاپہ پڑا۔عمرعبداللہ کوتومصری پولیس نے جعلی مقابلے میں گولی ماردی لیکن ان معصوم ننھے ننھے بچوں کوبھی ان کی ماں کی آغوش سے کھینچ کر اس کے ساتھ ایسے مقام پرپہنچادیاگیا جہاں سے ان کی آہوں ہچکیوں اور سسکیوں کی آوازبھی ماں تک نہ پہنچ سکی ۔ کیااس ماں نے اوراس جیسی ہزاروں ماوں نے آسمان کی طرف منہ اٹھاکر آنسو بھری آنکھوں سے نہیں دیکھاہوگا؟ وہ جن کے پیاروں کوکفن تک نصیب نہ ہوسکا جواپنی بیٹیوں کے چہرے تک نہ دیکھ سکے کہ انہیں جلاکربھسم کردیاگیاتھا۔ وہ مائیں جو ننگے پاوں مصری صحراوں میں اپنے بچوں کواٹھائے خوف سے بھاگتی ہوں گی۔کس کس نے اس آسمان کی طرف منہ اٹھاکر نہیں دیکھاہوگا؟پتہ نہیں کس کے آنسو اور کس کی بے کسی اس رب کائنات کے غضب کاباعث بنی ہے کہ ہرکوئی ایک دوسرے سے سوال کرتا پھررہا ہے کیاہونے والاہے؟ آفت کے آثار کیوں ہیں؟بلاؤں کاخوف کیوں ہے؟ یہاں محشر بدایونی کا شعر بے ساختہ یا د آرہا ہے 
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ 
جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا

«
»

کیا یہی ہے تہذیبوں کی جنگ

ممبرا میں پولیس کی دہشت گردی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے