مفادات کی جنگ

تاہم امریکاکواس میں بری طرح ناکامی کاسامنا کرناپڑااورگزشتہ سال جب ملاعمرکی اجازت سے قطرمیں امریکااورطالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے دفترقائم ہواتواس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ملاعمرکانام مطلوب افرادکی لسٹ سے نکال دیاجائے جبکہ گونتاناموبے میں قیدملاعبدالقیوم اوران کے پانچ ساتھیوں کومذاکرات سے قبل رہاکرکے قطرپہنچایاجائے جس پرامریکااورطالبان کے مذاکرات ناکام ہوئے تاہم قطرکے دفتر میں مذاکرات کی ناکامی جھنڈے اورتختی ہٹانے کوقراردیاجارہاہے تاہم امریکاایڈوانس میں طالبان سے یقین دہانی چاہتاتھاکہ اسے افغانستان میں اڈوں کی اجازت دی جائے اوروہ ان پانچ افرادکورہاکرنے کیلئے تیارہے تاہم طالبان نے اس بات کاانکارکردیا۔
اس کے بعدذرائع کے مطابق ایران کیلئے کئے جانے مذاکرات جس کی میزبانی ایک چھوٹے خلیجی ملک عمان نے کی وہاں پرطالبان اورامریکاکے درمیان رابطے کرنے والوں کے بھی خفیہ مذاکرات جاری رہے اوران خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں بارہ سال تک امریکی ایف بی آئی کی ’’انتہائی مطلوبہ‘‘فہرست سے انہیں نکال دیاگیاہے اوراب ملاعمرامریکاکیلئے مطلوب نہیں ہیں۔ملاعمرکے نام کو امریکا نے اس لئے نکال دیاہے کہ ۲۰۱۴ء میں انخلاء سے قبل ہی امریکاطالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتاہے اوراسی لئے ۷جنوری کواوبامانے ان اطلاعات کے بعد کہ ملاعمراب امریکاکیلئے مطلوب نہیں ہیں پراپنے ردعمل میں کہاہے کہ افغانستان میں سفارتکاری کوایک موقع ملناچاہئے اورجس طرح کی سفارتکاری کوایران میں موقع دیاگیااسی طرح افغانستان میں بھی سفارتکاری کوموقع دیاجائے۔ 
ذرائع کے مطابق ۲۰جنوری سے امریکااورایران کے درمیان طویل المدتی معاہدے پرعملدرآمدشروع ہونے کے بعدامریکاکوافغانستان میں سعودی عرب اوردیگرعرب ممالک کی افغانستان سے متعلق مسائل پراتنی تشویش نہیں ہے اوریہی وجہ ہے کہ ایف بی آئی نے خطے میں اپنے انتہائی مطلوبہ افرادمیں سے اس وقت شیخ امین اللہ جن کاتعلق افغان صوبہ کنڑ سے ہے اوروہ افغان جہادسے قبل پاکستان میں درس وتدریس سے وابستہ تھے جبکہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کولسٹ میں رکھاہواہے،سراج الدین کولسٹ میں رکھنے کابنیادی مقصد یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے سعودی عرب سمیت دیگرممالک کے ساتھ ماضی میں قریبی تعلقات رہے ہیں،اسی لئے امریکانے ان لوگوں کے پیچھے تواپنی کاروائیاں شروع کردی ہیں جبکہ امریکی مذاکرات کی مخالفت کرنے والے افغان طالبان کے ایک اورلیڈرقاری سیف اللہ کے نام کوبھی شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم ۲۰۰۱ء سے لیکر۲۰۱۳ء تک جن افرادکولسٹ میں شامل کیاگیاتھاان میں ملامحمدعمر،عبدالرحمان زاہد،ملاعبیداللہ اخوند،ملاعبدالرزاق ،ملاخاکسار،قاری احمداللہ،ملاانورالدین ترابی، امیرخان متقی،ملاغوث الدین،ملاعباس اخونداورمولوی عبدالرقیب شامل ہیں۔
طالبان دورکے گورنرزجن میں مولوی عبدالکبیر،مولوی نوراللہ،نعیم کوکی،مولوی احمدجان،ملا حسن رحمانی،مولوی میرمحمد،مولوی عبدالسلام،مولوی عبدالسلیم علی زئی ، نور محمد ثاقب ، سید رحمت اللہ ہاشمی،عبدالحکیم مجاہد،اخترمحمدمنصور،حمیداللہ،ملاسرور،ملاداداللہ،ضلال الدین حقانی، عبدالرزاق،ملاشہزادہ،ملامحمدحسن رحمانی،گل محمد،ملااختر محمد عثمانی،ملاعبدالظاہرشامل تھے۔ملاعبدالظاہر،ملااخترعثمانی،ملاداداللہ ،اخترمحمدمنصور،ملاغوث الدین،قاری احمداللہ، ملا عبید اللہ اخوند، امریکی حملوں اوردیگرواقعات میں شہیدہوچکے ہیں جبکہ دیگرطالبان رہنماؤں کے ناموں کو۲۰۱۳ء میں افغان صدرحامدکرزئی کی درخواست پراقوام متحدہ نے بلیک لسٹ سے نکال دیاہے۔اس میں صرف ملاعمرکانام رہ گیاتھااب اس کوبھی نکال دیا گیا ہے۔ حامدکرزئی کی جانب سے طالبان کے بڑے پیمانے پرکمانڈروں کی رہائی کے بعدامریکاسے ملاعبدالقیوم سمیت پانچ اہم طالبان لیڈروں کوجواس وقت کیوبامیں مقیدہیں،کی رہائی کیلئے خفیہ مذاکرات ہورہے ہیں اوران خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں ان کی رہائی کے امکانات روشن ہیں۔امریکاچاہتاہے کہ طالبان ان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کریں جبکہ اس حوالے سے امریکاکواب ایران سے بھی حمائت کی توقع ہے دوسری جانب سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات میں افغان وزاراء ،افغان علماء کونسل کے سربراہ قیام الدین کشاف کے دوعلیحدہ وفود نے متحدہ عرب امارات اورریاض میں طالبان کے بعض رہنماؤں سے مذاکرات کئے ہیں۔ان میں وہ رہنماء بھی شامل ہیں جن کو۲۰۱۳ء میں پاکستان نے رہاکیاہے تاہم ان ۳۲رہنماؤں میں بعض نے خرابی صحت کی بناء پرمذاکرات کاحصہ بننے یاطالبان تحریک میں عملی حصہ لینے سے معذرت کرلی ہے تاہم مشوروں کیلئے اب بھی ان سے رائے لی جاتی ہے۔
افغانستان کی حکمت عملی میں اصل پوائنٹ ۲۰جنوری کے بعدامریکااورایران کے درمیان معاہدے پرعملدرآمدکے بعدشروع ہواہے کیونکہ اس معاہدے کے بعدامریکاکوپاکستان کی بجائے نیٹوکیلئے راستہ بھی ایران سے ملنے کازیادہ امکان ہے جس کاایران کو زیادہ فائدہ ہوگاتاہم امریکی وزیردفاع رابرٹ گیٹس کی جانب سے کرزئی کو۲۰۰۹ء کو شکست سے دوچارکرنے کی امریکی سازشوں کے انکشاف کے بعدحامدکرزئی اوران کے ساتھیوں کے امریکاکے ساتھ مزیدتعلقات بگڑگئے ہیں اورصدرحامدکرزئی نے ۷۲طالبان کمانڈروں کی رہائی پرنہ صرف رضامندی ظاہرکردی بلکہ عندیہ دیاہے کہ وہ ان کی رہائی کے فرمان پردستخط کرنے کیلئے تیارہیں۔اگرکرزئی ان ۷۲کمانڈروں کورہاکردیتے ہیں تو امریکا اور کرزئی کے درمیان شدیداختلاف پیداہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب کرزئی کی ناراضگی کے بعدحزب اسلامی اورطالبان آئندہ انتخابات پراثراندازہونے کی کوشش کریں گے اورامیدہے کہ امریکاکے پسندیدہ امیدوارکوکامیاب نہیں ہونے دیاجائے گاتاہم اس بارایران کی وجہ سے امریکاکوبہت زیادہ مددحاصل ہوسکتی ہے کیونکہ شیعہ دھڑے حزبِ وحدت ،استادخلیلی گروپ ،حزبِ وحدت اکبرگروپ اورحزبِ وحدت استادمحقق گروپ پرایران کے بہت زیادہ اثرات ہیں جس کے باعث کرزئی کومشکلات کاسامناہوسکتاہے۔ گویاایرانی انقلابی قیادت جس کوکل بزرگ شیطان کہہ کر مخاطب کرتی تھی آج اپنے مفادات کیلئے اس سے گلے ملنے کیلئے بے تاب ہے !

«
»

ظلم و بربریت کا بازار صرف ایوانِ اقتدار تک محدود نہیں۰۰

پہاڑ:حیات الارض کے ضامن………International Mountains Day

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے