کمال احمد صدیقی

انہوں نے ریڈیو کشمیر سے سبکدوش ہونے کے بعد گھر میں بیٹھ کر بے کار کی معذور اور مفلوج زندگی پر متحرک اور فعال زندگی کو ترجیح دی تھی۔ سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اپنا نام پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹرڈ کروالیا تھا اور پروفیسر محمدحسن جو ان کے دوست تھے ان کی نگرانی میں ریسرچ کا کام شروع کیا۔ کمال صاحب نے کسی گھسے پٹے موضوع کے بجائے ماس میڈیا پر کام کیا جس کا انہیں اپنی ملازمت کے دوران خاصا تجربہ حاصل کیا تھا۔انہوں نے اس موضوع پر کام کیا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
دوسری طرف عروض اور غالبیات پر نہایت وقیع کام کیا ہے۔ ماس میڈیا پر جن دنوں وہ پی ایچ ڈی کررہے تھے میں بھی اسی جے این او سے کلیم الدین احمدپر پی ایچ ڈی کررہا تھا ۔گویا ہم دونوں بیچ میٹ تھے۔ غالبیات پر انہوں نے چند بڑے ہی وقیع کام کیے ہیں۔ وہ بحث ومباحثہ سے قطعی پریشان نہیں ہوتے تھے۔ ایک بار انہوں نے غالب کے ایک خط پر ایک مضمون لکھاکہ غالب کا یہ خط بخط غیر نہیں بلکہ خود غالب کا تحریر کردہ ہے۔ میں نے جب اس خط کا بغور مطالعہ کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ خط غالب کا ضرور ہے لیکن غالب کے قول کے مطابق واقعی بخط غیر ہے۔ یعنی یہ خط غالب نے اپنے بیمار ہونے کی وجہ سے اپنے کسی شاگرد کو ڈکٹیٹ کرایا ہے۔ انجمن ترقی اردو کے ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ میں اس پر باضابطہ بحث کا موضوع بن گیا، جس میں عابد پیشاوری بھی شامل ہوگئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کمال صاحب نے بزرگ ہونے کے باوجود ہمارے اس اعتراض کا برا نہیں مانا۔ انہوں نے بڑے ہی تحمل سے دانشورانہ اور عالمانہ انداز میں اس کا مدلل انداز میں جواب دیا۔ اس کے بعد میں کمال صاحب کا گرویدہ ہوگیا۔ چند دنوں قبل ’مضامین سکندر احمد‘ کے اجرا کے موقع پر غالب اکیڈمی میں ہمارے ان سے آخری ملاقات ہوئی جسمیں انہوں نے مجھے پہچانا تو ضرور تھالیکن اس جملہ کے ساتھ کہ میں ان سے پندرہ سال بعد مل رہا ہوں۔ اسی وقت میرا ماتھا ٹھنکا کہ اب میرا یہ بزرگ دوست شاید کچھ ہی دنوں کا مہمان ہے۔ اور واقعی یہ اندازہ صحیح ثابت ہوا۔ خدا انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین

«
»

ظلم و بربریت کا بازار صرف ایوانِ اقتدار تک محدود نہیں۰۰

پہاڑ:حیات الارض کے ضامن………International Mountains Day

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے