شیئر کی قیمتوں میں اتاراورچڑھاؤ کی وجوہات

شیئر دراصل کمپنی کی جانب سے کاغذی دستاویز ہوا کرتا ہے جس پر خرید نے والے کانام ، قیمت اور شیئر کی تعداد تحریر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ بنیادی چیزیں ریکارڈ کے طور پردر ج ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ کمپنیاں بالواسطہ شیئر کی قیمت کو گھٹاتی بڑھاتی رہتی ہیں ۔ حالانکہ یہ  صحیح نہی ہے۔ قانونی طور سے کویئ کمپنی ایک مرتبہ ابتدائی بازار(Primary Market) سے اپنے شیئ کو فروخت کرنے کے بعد اسکی قیمت گھٹا بڑھا نہیں سکتی ۔ ہاں اگر کمپنی چاہے تو اپنے شیئ کو عوم سے واپس ذیادہ رقم دیکر خرید سکتی ہے ، موجودہ شیر کو مزید چھوٹے حصوں میں تقسیم (Share Split)کرسکتی ہے لیکن اسکے لیے بھی سیبیSEBI)) سے اجازت لینی ضروری ہے۔ کمپنیاں شیئر سرٹیفکٹ کی فروخت سرما یہ جمع کرنے کے لئے کرتی ہیں ۔ شیئر کی قیمت اور اسکے اتار و چڑھاؤ میں براہ راست ان کا کوئی مکمل دخل نہیں ہوتا ہے۔ہاں البتہ جب کمپنیاں بہترین کارکردگی سے ہمکنار ہوتی ہیں تو پیداوارمیں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ چا ہتے ہیں کہ اس کمپنی کے شیئ کو خریدا جایئ دوسری اہم بات یہ ہیکہ مینجمنٹ کی قابلیت اورمارکیٹ ڈیمانڈ کی وجہ سے تجارت میں اضافہ ہوتاہے اور یہ چیز بھی شیئ خریدار کی تعداد کو بڑہا دیتی جو براہے راست شیئ کی طلب کو بڑہاتے ہویے اسکی قیمت کو بڑہا دیتی ہے۔ اسکی وجہ سے بھی سے شیئ کی قیمت میں اتارو چڑہاؤ ہوتا ہے ۔ اسکے علاوہ عام طور سے جب بھی تجارت میں اضافہ ہوگا توکمپنی کو انشأاللہ نفع ہوگا۔ چنانچہ اسطرح سے جب بھی کمپنی نفع کا کچھ حصہ اپنے شیئر خریداروں کے درمیان تقسیم کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو بہت سارے لوگ اس کمپنی کے پرانے شیئر کو خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور اسی طرح سے جن لوگوں کے پاس اس کمپنی کاشیئر ہوتا ہے وہ بھی نفع کی توقع کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قیمت پر اس کمپنی کے شیئر کو فروخت کرنا چاہتے ہیں۔چنانچہ اس کی وجہ سے شیئر کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ جب کمپنی کی بہتر کارکردگی سے بہت زیادہ لوگ متاثر ہو جاتے ہیں اور یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ اس بار کمپنی بہت زیادہ (Dividend)نفع اور بونس دیگی تو ایسے موقع پر بھی لوگ اس کمپنی کے شیئر خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خریدار کی تعداد، فروخت کرنے والوں سے بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ لہٰذاجب بھی کسی چیز کی ڈیمانڈ یعنی مانگ مارکیٹ میں بڑھتی ہے اور اسکی رسد یعنی Supplyمیں کمی واقع ہو تی ہے تو اس کی وجہ سے بھی شیئر کی قیمت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کبھی کبھی اسٹاک مارکیٹ سے وابسطہ کچھ چور بدمعاش قسم کے بھی لوگ ہوتے ہیں۔ وہ بھی مارکیٹ میں خردبرد کرتے رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بھی شیئر بازار میں اتار چڑھاؤہوتارہتا ہے اور شیئر کی قیمتں گھٹتی بڑھتی ہیں۔
گورنمنٹ آف انڈیانے ایسے لوگوں کیلئے کچھ قوانین بھی وضع کئے ہیں ۔ اگر کماحقہ اس کا استعمال ہوتو اس طرح کی شکایتوں کا سلسلہ بند ہوجائے۔اس کے بر خلاف جب کسی کمپنی کی پرفارمنس (کارگردگی)خراب ہوتی ہے تو بھی اسکا اثرشیئر اور شیئر خریداروں پر ہوتا ہے۔ شیئر خریدار اس کمپنی کے شیئر کو فروخت کرنا چاہتے ہیں۔اور اس طرح سے جتنے بھی لوگوں کے پاس اس کمپنی کے شیئر ہونگے سب کے سب فروخت کرنا چاہیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ خریدار کم ہو جائیں گے اور بیچنے والے زیادہ ہوجائیں گے ۔ بالآخر شیئر مارکیٹ (Stock Market)میں اس شیئر کی قیمت گھٹ جائے گی ۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شیئر کی قیمت اپنے جاری کردہ قیمت (Issue Price)سے بھی کم ہو جاتی ہے۔مثال کے طور پر کسی نے ایک کمپنی کے شیئر کو ۱۰؍روپیہ فی شیئر خریدا۔ لیکن مندرجہ بالاوجہ سے قیمت میں گراوٹ آگئی اور اب اس شیئر کی مالیت اسٹاک مارکیٹ میں پانچ روپیہ کی ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ بلیک مارکیٹنگ، ہورڈنگ کی وجہ سے بھی شیئر کی قیمتں متاثر ہوا کرتی ہیں۔ شیئرکی قیمتیں موسم، جنگ وجدال، الیکشن اور خدائی عذاب سے بھی متاثر ہوتی ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔

«
»

خالی جیلیں

ہاتھ کنگن اور آرسی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے