میرے ماموں ! ایک باغ و بہار شخصیت

جو طویل مدت گزرنے کے ساتھ ساتھ دماغ کے پردوں پر آنے سے انکار کرتی ہیں۔ جب بھی فرصت کے لمحوں میں اُن گزرے چہروں کی یاد آتی ہے تو دل پر تیز نشتر سے ضرب لگتی محسوس ہوتی ہے۔ دماغ ہچکولے کھانے لگتا ہے، ہاتھ کانپ اُٹھتے ہیں، ہونٹ لرزتے ہیں، جسم میں کپکپی سی لگتی ہے اور سارا بدن لرزنے لگتا ہے۔ دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی ہے جو مچلتی ہے، روتی ہے، کرہاتی ہے اور بار بار پکارتی ہے ؂
سب کہاں لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں
اس سے دل میں ایک قرار اور سکون سا حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ قانون فطرت کا اپنا فیصلہ اٹل ہے۔ ہم بشر ہیں ، کمزور ہیں اور یہ کمزوری کسی حد تک ایمان کی کمزوری ہی ہے کہ قانون فطرت ہم سے جب کوئی نایاب تحفہ واپس لے لیتا ہے یا ہماری جب کوئی متاعِ گراں مایہ گم ہوجاتی ہے تو محض دُکھ نہیں بلکہ صدمہ ہوتا ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجود اُس صدمے سے نکلا نہیں جاتا۔ محرومی کا ایک ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جس کو پورا نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ایسا زخم لگتا ہے جس کو بھرا نہیں جاسکتا۔ایسا ہی ایک نایاب تحفہ گذشتہ ۲؍ستمبر کو اللہ تعالیٰ نے ہم سے واپس لے لیا۔ وہ نہ تو کوئی عالم دین تھے اور نہ بحیثیت ادیب ان کی کوئی شناخت تھی لیکن وہ ایک دینی بصیرت رکھنے والی شخصیت ضرور تھے اور سماجی خدمات کا دائرہ تو ان کا اس قدر پھیلا ہوا تھا کہ سن کرمیں دنگ رہ گیا کہ حسب توفیق اس شخص نے محض ۵۸؍ برس عالم خاکی میں گزار کر نہ جانے کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دیے۔آئیے آپ کو ان سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ہیں میرے ممّامحترم (ہائے! جن کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منھ کو آنے لگتاہے) حکیم حبیب الرحمٰن نعمانی ۔ممّامحترم ۲؍ستمبر کی شام انتقال کرگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ وہ گذشتہ ۶؍ماہ سے کینسر کے عارضہ میں مبتلا تھے۔عزیزم فیصل نعمانی نے مجھے فون پر یہ دل خراش خبر سنائی۔ میں تڑپ کر رہ گیا اور کیوں نہ تڑپ اُٹھتا۔ ایک مخلص ، بے باک، خوددار، صاف گو اور بااصول شخص ہمیں چھوڑ کر چلا گیا تھا جس کی کمی کسی صورت پوری نہیں کی جاسکتی۔ میرے محترم ماموں ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کا دل آئینے کی طرح صاف تھا، جو بات دل میں ہوتی ، وہی زبان پر لاتے تھے۔ سچی بات منھ پر کہہ دیتے، سوائے خدا کے کسی سے نہیں ڈرتے، ہمیشہ حق کی بات کرتے اور حق پرستوں کا ساتھ دیتے۔؂
ہمیشہ راہِ حق پر گامزن ہوں
مجھے کیا خوف ہے قہر و بلا کا
صبر و شکر ان کا شیوہ تھا۔ اپنی بیماری کے زمانے میں جب کبھی میں اُن سے ملتا اور حال دریافت کرتا تو وہ ہمیشہ منفرد انداز میں نہایت اطمینان کے ساتھ یہ کلمہ دہراتے۔ شکر ہے اللہ کا۔
تقریباً۱۵؍سال بعد رمضان المبارک کا مہینہ اس ناچیز نے وطن عزیز سنبھل میں گزارا۔ پورے ماہ ممّا محترم کی عیادت کے لئے حاضری دیتا رہا۔ الحمد اللہ طبیعت اتنی اچھی تھی کہ خوب باتیں ہوتی رہیں۔ آخر رمضان میں طبیعت کچھ خراب ہوئی لیکن عید سعید کے موقع پر تو بالکل ایسا محسوس ہوا کہ اب انشاء اللہ خطرے کی کوئی بات نہیں ۔ عید سعید کی نماز ادا کرنے مدرسہ مدینۃ العلوم گئے، جس کی گھر سے دوری خاصی ہے۔ نماز کے بعد واپسی پر سب سے پہلے اپنے بڑے بھائی محترم نعیم الرحمٰن جاوید کے ہمراہ ان سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔بڑے ماموں ڈاکٹر محمد خالد قاسمی صاحب مدظلہٗ وہاں پہلے سے موجود تھے۔ چند منٹ کی ملاقات کے بعد ہم لوگ ان کی طبیعت کی طرف سے خوب مطمئن ہوکر گھر کی طرف لوٹ گئے۔عید کے دوسرے روز برسہا برس سے ہمارے یہاں خاندان کے اکثر لوگ ملنے کے لئے آتے ہیں،اس میں ہمارے چھوٹے نانا جان حکیم محمد احسن قاسمیؒ کا پورا گھرضرور شامل ہوتا ہے۔ ہماری ننہال چونکہ لکھنؤ میں تھی اور ہم سب وطن عزیز سنبھل میں رہا کرتے تھے اس لئے چھوٹے نانا جانؒ کے گھر سے جو تعلق رہا وہ ننہال سے کم نہ تھا بلکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اپنی ننہال سے زیادہ محبت چھوٹے نانا جانؒ کے گھر سے ہم سب کو ملی۔ میرے سارے ماموں اسی محبت کو دامن میں سمیٹے عید کے دوسرے روز اپنے بچوں کے ساتھ اپنی تایا زاد بہن (میری والدہ محترمہ)اور اپنے پھوپھی زادبھائی ( میرے والد ماجد)سے ملنے آتے لیکن افسوس اس مرتبہ ممّا مرحوم اپنی بیماری کے سبب نہ آسکے۔جس کا احساس نہ صرف ہم سب کو تھا بلکہ آنے والوں کو بھی خوب خوب تھا۔ عید کے بعد میری لکھنؤ واپسی ہوئی، لیکن برابر ممّا محترم کی طبیعت کے بارے میں مختلف ذرائع سے دریافت کرتا رہا کہ اچانک ایک روز یہ دل خراش خبر سننے کو ملی کہ مماّ محترم ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔بس یہ خبر سننی تھی کہ محترم ماموں مولانا محمدحسان نعمانی مدظلہٗ،برادرِ محترم ہارون نعمانی، برادرِ محترم مولانا یحییٰ نعمانی، برادرِ محترم مسعود حسین صاحبان اور راقم السطور لکھنؤ سے اپنے اس عزیز کو آخری آرام گاہ تک پہنچانے کے لئے سنبھل کے لئے روانہ ہوئے، صبح تقریباً ۵؍بجے ہم لوگ سنبھل پہنچے ، گھر میں داخل ہوئے تو مماّ محترم کو اس حال میں دیکھا کہ برجستہ زبان سے نکلا ع
ایسے سوئے ہیں کہ کروٹ تک نہیں لیتا کوئی
نماز فجر ادا کرنے کے بعد کافی دیر تک میں ان کے پاس بیٹھارہا اور تقریباً ۹؍بجے صبح ممّا مرحوم کو غسل کے لئے لے جایا گیا۔ مرحوم اپنی قسمت سونے کے قلم سے لکھواکر لائے تھے ، اسی لئے تو جس دن آخری سانس لی اسی دن محترم ماموں مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی مدظلہٗ اپنے چچا زاد بھائی اور بے تکلف دوست کی عیادت کے لئے سنبھل پہنچے تھے۔ کیا خبر تھی کہ مرحوم کو شاید انہی کا انتظار تھا، اسی دن بعد نماز عشاء تقریباً ۹؍بجے ممّا محترم نے رخت سفر باندھ لیا۔راقم السطور باہر ہی سے غسل میں شریک رہا، اندر قدم رکھنے کی ہمت ہی نہ کرسکا چونکہ ایک طرف محترم ماموں مولانا سجاد نعمانی مدظلہٗ ، دوسری طرف میرے محترم ماموں اور مرحوم کے حقیقی چھوٹے بھائی مولانا عبدالمومن ندوی مدظلہٗ ہیں، داہنی جانب برادرِ محترم مولانا یحییٰ نعمانی مدظلہٗ، مرحوم کو غسل دے رہے ہیں تو دوسری جانب عزیزم بلال نعمانی ندوی اور عزیزم مولوی فیضان ندوی اپنے مرحوم چچا کے جسم پرپانی ڈال رہے ہیں۔ ایسا غسل کسے نصیب ہوتا ہے ، مماّ مرحوم واقعی بہت خوش قسمت رہے۔غسل کے بعدمرحوم نے حج کی ادائیگی کے وقت جو احرام اپنے جسم سے لپیٹا تھاآج پھر اسی کو کفن کی شکل میں پہنایا گیا، اس کے بعد کم از کم خاندان کے پچاس عزیزوں نے عطر کا بھی تقریباً غسل ہی دیا۔ بعدہٗ جنازہ کو قدیم ادارہ مدرسہ مدینۃ العلوم کے وسیع میدان میں لے جایا گیا، جہاں ہزاروں لوگ مرحوم کے لئے اپنی محبت دامن میں سمیٹے آخری دیدار کے لئے پہلے سے موجود تھے۔ نماز ماموں محترم مولانا سجاد نعمانی مدظلہٗ نے ادا کرائی اور پھر ہزاروں کا قافلہ جس میں کیا ہندو کیا مسلمان سب شریک تھے، جنازہ آبائی قبرستان کی طرف روانہ ہوا، قبرستان پہنچ کر بڑے ادب و احترام سے اُن کے جسد خاکی کو منو مٹی تلے دفن کردیا گیا۔قسم اس پاک پرودگار کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ نانا جان حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ اورحضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کے بعد ایسا پہلی مرتبہ دیکھا کہ مٹی دینے والوں کے لئے مٹی کم پڑ گئی، لہٰذا برابر کی زمین سے مٹی کاٹی گئی اور جو لوگ محروم رہ گئے تھے وہ بھی اس نیک کام میں شریک ہوگئے۔اسی سے مرحوم کی مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ممّا مرحوم واقعی باغ و بہار اور دلکش طبیعت کے حامل تھے۔ سیاسی ، سماجی، ادبی ہر طرح کی محفل کا حصہ بنتے اور جس محفل میں جاتے چھا جاتے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اور اُن کی روح کو جنت الفردوس میں جگہ دے ۔آمین۔
شوکت تھی جس کے دم سے چمن کی نہیں رہے
وہ کیا گئے کہ ’’باغ‘‘ کی زینت چلی گئی
جہاں تک میرے اور ان کے ذاتی تعلق کی بات ہے تو میرا اور ان کا تعلق بہت گہرا تھا، وہ مجھ سے بہت محبت کرتے۔ جب کبھی میرا سنبھل جانا ہوتا ، میں مطب میں حاضری ضرور دیتا، گھنٹوں ملاقات رہتی۔ لکھنؤ والوں کی خیریت دریافت کرتے ، پھر چند کے متعلق جملے کستے ۔ یہ جملے سننے سے تعلق رکھتے تھے۔میں طب یونانی کے بارے میں ان سے اٹپٹے سوالات کرتا، عجیب شخص تھے وہ ، میرے بے ہودہ سوالات کو اتنے غور سے سنتے کہ مجھے خود حیرت ہوتی۔ پھر ہرسوال آسودہ جواب ہوتا۔ ان کا رہن سہن، بول چال، رنگ ڈھنگ سب ہی تو میرے سامنے تھا۔ صرف زاہدِ خشک اور عابدِ شب زندہ دارہی نہیں تھے۔ وہ زندگی کا ہر رنگ لئے ہوئے تھے۔ میں انہیں مختلف شعراء کا کلام سناتا اور وہ مجھے بہت خوبصورت شاعری سے محظوظ کرتے۔ اپنے گردوپیش کے لوگوں کے تنازعات، ان کے شادی بیاہ کے بکھیڑے، زمین جائداد کا جھگڑا، غریبوں کی مسیحائی، جڑی بوٹیوں سے علاج اور پیار سے رب کائنات کی طرف بلانا ان کے محبوب مشاغل تھے۔ ان کے مطب میں ہر طرح کے مریض آتے، لیکن غریبوں کا وہ ہمیشہ مفت علاج کرتے، ہمیشہ سب سے دعا کی درخواست کرتے۔ جڑی بوٹیوں کو اپنی نگرانی میں کُٹواتے اور مریضوں میں تقسیم کرتے۔ ایک دن میرے سامنے ایک بزرگ مریض کسی گاؤں سے مطب میں آیا، مریض کو دوا کے ساتھ نرم غذا کھانے کا جونہی مشورہ دیا تو وہ مریض دوا لینے کے بجائے غصے سے یہ کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا کہ میرے پاس زہر کھانے کیلئے پیسے نہیں ہیں اور تم مجھے نرم غذا کھانے کا مشورہ دے رہے ہو؟ ممّامرحوم فوراً معافی پراُتر آئے اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر جو کچھ تھا اس کے حوالے کردیا اور دروازے تک خود اس مریض کو چھوڑنے گئے۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھاکہ مجھے اپنی مخصوص مسکراہٹ سے خاموش رہنے کا اشارہ کردیا۔
بچوں کی تعلیم کا انہیں بہت شوق تھا۔ اپنے اسی شوق کی تکمیل کے لئے انہوں نے اپنے برادرِ نسبتی کو ایک اسکول دیہی علاقے میں قائم کرنے کا مشورہ دیا ، اور تن من دھن سے اس اسکول کے قیام میں حصہ لیتے رہے۔ جب کبھی کوئی پریشانی اسکول کے سلسلہ میں سامنے آتی تو اپنے رسوخ کا استعمال کر اسے دور کرانے کی کوشش کرتے۔ بچوں میں انعامی مقابلے کراتے اور انعام کے لئے ایسے بچے کا انتخاب کرتے جو اپنے گھر سے پریشان حال ہوتا ۔ یہ مدد کرنے کا ان کا انوکھا طریقہ تھا، جو ذاتی طور پر مجھے تو بہت پسند تھا۔سنبھل ومضافات کا بڑا حلقہ ان کے حسن اخلاق کا قائل تھا۔ انکی بیماری کے زمانے میں عیادت کرنے والوں کا دن بھر ہجوم رہتا۔ گاؤں دیہات دور دور سے لوگ اپنے دامن میں محبت سمیٹے ، اپنے اس چاہنے والے کو دیکھنے آتے۔بحیثیت طبیب خواتین میں ان کی مقبولیت بہت زیادہ تھی، یہی وجہ تھی کہ دوران بیماری پورا گھر عیادت کرنے والی خواتین سے بھرا رہتا۔ 
ہر سو پیار کی خوشبو بکھیرے ہوئے وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، طبیب تھے، معلم تھے، چارہ گر تھے اور گھنا چھتنار درخت……….پھلوں سے لدا ہوا، جھکا ہوا۔ایک درخت لگانے کے لئے آپ کیا کرتے ہیں؟ یہی ناں! کہ بیج لیتے ہیں ۔ اصل تو بیج ہی ہوتا ہے ۔ زمین کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر ایک چھوٹا سا گڈھا کھود کر اس بیج کو اس میں دفن کر دیتے ہیں۔ پھر کبھی کبھی اس کو پانی بھی دیتے ہیں اور صبر کرتے ہیں۔ آپ بیج کے سر پر سوار نہیں ہوتے، اسے زمین کے اندر سے کھینچ کر کونپل نہیں نکالتے۔ پھر اللہ تعالیٰ کونپل نکالتا ہے اور وہ ننھا سا بیج زمین کا سینہ چیر تا ہوا باہر جھانکنے لگتا ہے۔پھر سرد و گرم کا مقابلہ کرتا ہے، ہواؤں کا ، طوفان کا ، بادوباراں کا، اپنے گردوپیش کے کیڑے مکوڑوں کا……….اور ایک دن تن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر اس میں پھل لگ جاتے ہیں اور تنا ہوا درخت جھکنے لگتا ہے……….درخت جھکتا اس لئے ہے کہ لوگ اس کا پھل کھا سکیں، اس سے فیض پاسکیں۔ممّا مرحوم بس ایک پھل دار درخت ہی تھے۔جس کا بیج میرے چھوٹے نانا جان حکیم محمد احسن قاسمی ؒ نے لگایا تھا، جوبحیثیت عالم دین، سماجی رہنما اور طبیب حاذق سنبھل و مضافات میں اچھی مقبولیت رکھتے تھے۔یہ بیج انہی کا لگایا ہوا تھا۔ذرا سوچئے! آپ اگر شور زمین میں بیج ڈال دیں تو درخت نہیں لگتا۔ بیج مر جاتا ہے۔ وہ کبھی نہیں پنپتا۔ جہاں یہ بیج لگایا گیا تھا وہ کچے کمروں کی عمارت تھی اور اس کا چراغ وہ خود تھے۔ روشن چراغ، مینارۂ نور، چشمۂ فیض ، جس سے سب سیراب ہوتے۔
ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں
بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لئے

«
»

نئے بھارت کا مسلمان چیلنج اور خطرات

ڈرون حملے غیر قانونی اور بعض جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے