مصر یہود ونصاری کے نرغے میں

سرکاری مذہب عیسائیت تھا مگر عیسائیت بھی بہت سے حصوں میں بٹ چکی تھی۔ جب عمرو بن العاص داخل ہوئے تو ایسے ہی حالات تھے جیسے کہ آج کل پاکستان کے ہیں کہ مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے مسلمان اور آپس میں اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ یہ حال آج نہ صرف پاکستان کا ہے کہ تمام مسلم امہ انہی حالات سے دوچار ہے۔ کسی بھی مذہب میں کمزوری پیدا کرنے کے لیے اسے مختلف فرقوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ یہی حالات رومن حکومت کے زوال کا بھی باعث بنے تھے۔
صلاح الدین ایوبی کے دور میں مصر شام، فلسطین،بیت المقدس فتح ہوا۔ اس کے بعد مصر میں صحیح معنوں میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہوا۔مسلمان اس قدر پختہ تھے کہ یہودیوں کو سمجھ نہ آتا تھا کہ کس طرح انہیں شکست دی جائے۔ جب صلاح الدین ایوبی کی آخری جنگ جنرل رچرڈ سے ہوئی تو اس کے الفاظ تھے صلاح الدین تم کب تک زندہ رہو گے تمہارے بعد ہم مسلمانوں کو حصوں میں بانٹ دیں گے۔ ہر برائی ہم ان میں پیدا کردیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔
مصر کے زوال کا دور اس وقت شروع ہوا جب جمال عبدالناصر نے اقتدار سنبھالا۔ خلافت کا خاتمہ کردیا گیا کیونکہ وہ مکمل طور پر ایک لادین شخص تھا۔ اس وقت اس نے اخوان المسلمین کے ارکان کو چن چن کر شہید کیا۔ اس کے بعد انور سادات کا دور آیا اس نے مزید فحاشی پھیلائی اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک حسنی مبارک برسراقتدار رہا یہ سارا گروہ لادین طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ جہاں یہ سیکولر طبقہ تھا وہاں درپردہ اسلامی تحریکیں بھی پل رہی تھیں جو مصر کو اس لادینیت سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف عمل تھیں۔ ان کے کئی ساتھی پکڑے جاتے جنہیں بے دردی سے شہید کردیا جاتا۔ لیکن ان سب حالات کے باوجود مصر کے عوام کے دلوں سے اسلام کو مکمل طور پر ختم نہ کیا جاسکا اور بالآخر حسنی مبارک کے خلاف تحریکیں شروع ہوگئیں جس کے نتیجے میں جمہوریت بحال ہوئی اور اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مرسی دو تہائی اکثریت سے بحال ہوئے۔ انہوں نے آئین میں اسلامی شقیں داخل کرنی شروع کیں تو لادین طبقے سے یہ برداشت نہ ہوا ان کا جینا دوبھر ہوگیا۔ اس طرح مصر دو حصوں میں بٹ گیا ایک اخوان المسلمین جو اسلامی کی بالادستی کے خواہاں اور دوسرا جمال ناصر، سے لے کر حسنی مبارک کا جو لادینی طبقے کی آبیاری کرتا ہے۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہوگئی جس کا فائدہ امریکا اور یہودیوں نے اٹھایا۔اس وقت ان دونوں طاقتوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ صدر مرسی کو ہٹانا ہے جب وزیراعظم نے غزہ میں جا کر سخت بیان دیا کہ اسرائیل اپنی من مانی بندکرے امریکا کو بھی خطرے کی گھنٹی اس وقت بجنی شروع ہوگئی جب ترکی کا جھکاؤ مصر کی طرف ہونا شروع ہوا اور امریکا کی انٹیلی جنس نے رپورٹ دی کہ ایران، ترکی اور مصر کا اتحاد بن رہا ہے۔اس اتحاد کو توڑنے کے لیے امریکا نے مصر کی فوج جو کہ لادینیت کا شکار تھی کہ آلہ کار بنانے کا فیصلہ کرلیا فوج کے سربراہ نے صدر مرسی کو گرفتار کرلیا اور اخوان المسلمین کے چیدہ چیدہ لیڈرز کو گرفتار کرلیا گیا ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہ اخوان کو دبا لیں گے مگر ان کا خیال غلط نکلا اخوان نے جگہ جگہ دھرنے دینے شروع کردیے اب وہ شکست قبول کرتے نظر نہیں آتے۔ امریکا کی یہاں بھی وہی پالیسی کہ پہلے خود ہی ان ممالک میں خانہ جنگی شروع کرا دی جائے ان کے حالات خراب ہوگئے جب اس کی اپنی بازی پلٹنے لگی تو بیان دینے شروع کردیے کہ اپنے حالات ٹھیک کریں ورنہ امن کا ٹھیکیدار وہ بھی نام نہاد مسٹر امریکا کارروائی کرے گا۔

«
»

شام پر امریکہ کا حملہ اس وقت ہی کیوں۔۔۔اصول مقصود یا اپنے مفادات؟

گوپال گڑھ کی صبح امن کب آئے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے