اس وقت تواس کوکسی ایسے مصلح وقائدکی اشدضرورت تھی جواس کی صفوں کودرست کرے اورانہیں متحدکرکے مشرق کے کھوئے ہوئے وقارکوپھرسے واپس لائے۔منزل دوراورراہ پرخطروتاریک لیکن انہیں نازک گھڑیوں میں مشرق بڑے المناک طریقہ پرشیخ حسن البناکوشہیدکرکے اپناچراغ راہ بجھادیتا ہے، مشرق کایہی حال ہے،اس کے ہاتھ جوبھی دولت لگتی ہے وہ زیادہ دنوں تک اس کی حفاظت نہیں کرپاتا۔‘‘
یہ اقتباس جس سے اس مضمون کی ابتداء کی گئی ہے،نہ توکسی عالم دین کی تحریرہے،اورنہ ہی کسی اسلامی مفکرکی،بلکہ یہ تحریرایک ایسے شخص کی ہے جس کااسلام اوراسلامی تعلیمات سے دورکابھی واسطہ نہیں ہے اورنہ ہی وہ مسلمان ہے بلکہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتاہے جس کاکام ہمیشہ ہی اسلام اوراسلامی تعلیمات میں کمیاں اورخامیاں ڈھونڈناہے اوربے پرکی اڑاناہے،لیکن غورکریں مندرجہ بالاتجزیہ کتنابے لاگ اورحقیقت پرمبنی ہے،یقینایہ تجزیہ ایسی ہی شخصیت کے بارے میں ہوسکتاہے جواپنے مقصدمیں بالکل مخلص ہواورغیب جس کی مددکے لیے خودایسے لوگوں کی زبان سے تعریف کرارہاہوجسے لوگ سندکادرجہ دیں،یہ تحریرایک امریکن صحافی اورغیرمسلم مفکرروبرجاکسون کی ہے جس نے آج سے ۶۳؍سال قبل مصرمیں اس نابغۂ روزگار شخصیت کاشہرہ سن کربالمشافہ ملاقات کی،اوراس ملاقات سے حاصل ہونے والے جوکچھ تاثرات تھے اسے اس نے اپنی زبان میں سپردقرطاس کردیااور’’قرآنی مرد‘‘کے روشن عنوان سے اس تحریرکومزین کیا۔
اگراس مغربی مفکرکے مندرجہ بالاتجزیہ کے تناظرمیں مصرکے موجودہ حالات پرروشنی ڈالیں تواس کاایک ایک لفظ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہاہے۔شیخ حسن البناشہیدؒ نے ۱۹۲۸ء میں مصرکے نوجوان نسل کواسلامی سانچہ میں ڈھالنے کے لیے اخوان المسلمون کی بنیادڈالی،شب وروزکی محنت،انتھک جدوجہد،بے پناہ خلوص کے ساتھ انہوں نے اسلام کی دعوت کاکام شروع کیا،شیخ حسن البناشہیدؒ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ وسائل وذرائع کی پرواہ کیے بغیراپنے مقصدکوانجام دینے میں مگن رہتے تھے،صرف بیس سال کی قلیل مدت میں اپنی انتہائی مخلصانہ جدوجہدکے نتیجہ میں تقریباً۵؍لاکھ سے زائداخوان کاایک مضبوط حلقہ بنالیا،لیکن بقول صحافی روبرجاکسون کے مشرق بڑاہی ناقدراہے ،اسے جودولت بھی ہاتھ لگتی ہے وہ زیادہ دنوں تک اس کی حفاظت نہیں کرپاتا،اوریہی کچھ شیخ حسن البناشہیدؒ کے ساتھ بھی ہوا۔جب مصرکوشیخ حسن البناشہیدؒ جیسے مردمجاہدکی ضرورت تھی اس وقت انہیں بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ شہیدکردیاگیا۔ان کی شہادت کومغربی مفکرنے شہادت صحابہ سے تعبیرکرتے ہوئے بڑی قیمتی بات کہی ہے:اس تاریخ سازشخصیت کا(جس نے وقت کے دھارے کوموڑدیا)حضرت عمرؓ،حضرت علیؓ وحضرت حسینؓ کی طرح شہیدہوناضروری تھا۔اس لیے کہ یہ انہیں حضرات کے نقش قدم پرچل رہے تھے۔(مثالی شخصیت:۳۲)
یہی مفکرایک جگہ شیخ حسن البناسے اپنی ملاقات کاذکرکرتے ہوئے لکھتاہے کہ میں نے ان سے اخوان المسلمون کامقصدقیام جانناچاہا،چوں کہ شیخ صرف عربی زبان جانتے تھے ، مترجم کے واسطے سے گفتگوہورہی تھی ،اورمیں مترجم کی باتوں سے صحیح مقصدتک نہیں پہونچ پارہاتھاجسے شیخ نے محسوس کرلیاانہوں نے مترجمین سے کہاکہ ان سے پوچھوکہ کیا انہوں نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ پڑھاہے،میں نے جواب دیاکہ پڑھاہے،تودوسراسوال ہواکہ کیاآپ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے جوکام کیے اورجس بات کی دعوت دی،اس سے بھی واقف ہیں؟میں نے سرہلاتے ہوئے جواب دیاجی ہاں واقف ہوں۔میراجواب سن کرانہوں نے کہاہم وہی چاہتے ہیں جومحمدصلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے،شیخ حسن کے ان جچے تلے الفاظ نے میرے ذہن کے دروازے کھول دیے،اورجوبات طویل بحث ومباحثہ سے سمجھ میں نہ آئی تھی فوراًسمجھ میںآگئی۔(مثالی شحصیت:۲۲)
اخوان المسلمون کی تشکیل کے بعدسے لے کراب تک شایدہی کوئی وقت ایساہوکہ اخوان کے سیکڑوں کارکنان وذمہ داران پسِ دیوارزنداں نہ ہوں۔ایک وقت میں تویہ تعداد ڈھائی ہزارتک جاپہنچی تھی۔شاہ فاروق کازمانہ تھاتومرشدعام امام حسن البناکوشہیدکردیاگیا۔۱۹۵۲ء میں فوجی انقلاب کے بعدجنرل جمال عبدالناصرکازمانہ آیاتومفسرقرآن سید قطب سمیت سیکڑوں افرادکوشہیداورہزاروں کوگرفتارکرلیاگیا۔۲۹؍ستمبر۱۹۷۰ء کودنیاسے اٹھ جانے سے جمال کااقتدارختم ہواتوایک اورفوجی ڈکٹیٹرانورالسادات کاعہدِسیاہ شروع ہوگیا۔کیمپ ڈیوڈمعاہدے سمیت کئی قومی خیانتوں اوربے گناہوں کوعذاب واذیت سے دوچارکرنے کابوجھ لادے۱۴؍اکتوبر۱۹۸۱ء کوسادات قتل ہواتوقتل کے وقت اس کے پہلو میں بیٹھاتیسرافوجی ڈکٹیٹرقوم کی گردن پرسوارہوگیا۔
حسنی مبارک کے نامبارک دورکے خاتمہ کی تحریک قاہرہ کے تحریراسکوائرپر۲۵؍جنوری ۲۰۱۱ء کوشروع ہوئی،اوربالآخر۱۱؍فروری ۲۰۱۱ء کونامبارک دورکاخاتمہ ہوا،عہدنامبارک کا خاتمہ اخوان المسلمون کے لیے اچھی خبرلائی اورجون ۲۰۱۲ء میں ہوئے عام انتخابات میں اخوان المسلمون ۵۲؍فیصدووٹوں کی اکثریت کے ساتھ جمہوری طورپرمصرمیں حکومت بنانے کے قابل ہوئی اورڈاکٹرمحمدمرسی کواس حکومت کاسربراہ بنایاگیا۔لیکن بقول مسٹرروبرجاکسون مشرق بڑاناقدراہے اسے جودولت ہاتھ لگتی ہے وہ زیادہ دنوں تک اس کی حفاظت نہیں کرپاتااوربالآخراس دولت کوبھی کچھ ناعاقبت اندیشوں نے اپنے ہاتھوں سے ضائع کردیااورمصرکی تاریخ میں جمہوری طورپرمنتخب حکومت کوفوج نے برطرف کرکے دنیا میں ایک بری مثال قائم کی۔اور۳؍جولائی ۲۰۱۳ء کوایک سال کے قلیل عرصہ تک صدررہنے والے ڈاکٹرمحمدمرسی کوبجبرواکراہ حکومت سے برطرف کردیا۔
ایک طرف مصرکے موجودہ حالات پرنگاہ ڈالیں اوردوسری جانب اول دن سے مظلوم اخوان المسلمون کی تاریخ پرنگاہ ڈالیں توصاف محسوس ہوتاہے کہ ابھی اخوان المسلمون کو مزید قربانیاں دینی ہوں گی،تب جاکرمصرہی نہیں بلکہ عالم عرب کی نشاۃ ثانیہ کادورآئے گا،اخوان المسلمون کے بانی اورپہلے مرشدعام شیخ حسن البناشہیدؒ نے اپنے اخوان کوبہت پہلے ہی خبردارکردیاتھااورانہیں ان کی منزل کی نشاندہی ان الفاظ میں کی تھی :ہمیں اپنے اسلامی وطن کاراستہ معلوم ہوگیاہے وہ ہے جہادوجواں مردی اورجذبۂ شہادت وقربانی،ہروقت و ہرزمانہ کے مخلص مسلمانوں نے اسی راہ کواپنایاہے۔(حسن البناایک مثالی شخصیت:۴۹)
مصرمیں جوکچھ ہوا،حقیقت پسندحضرات سے اس کے مضمرات پوشیدہ نہیں ہیں،یادکریں شیخ حسن البناکے وہ الفاظ جوانہوں نے اخوان المسلمون کے مقصدقیام کوبتاتے ہوئے بڑے دوٹوک اندازمیں فرمایاکہ’’ ہم وہی چاہتے ہیں جومحمدصلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے‘‘یعنی دین کی دعوت اوراسلام کاغلبہ،جوکہ ہرمسلمان کے دل کی آوازہونی چاہیے،لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ آخران اسلامی ممالک کے سربراہوں کوکیاہوگیاہے کہ وہ اس حقیقت کوجانتے ہوئے کہ مصرمیں جوکچھ ہورہاہے وہ غیراسلامی ہے،وہ مصری فوج کی پشت پناہی کررہے ہیں اوران کے لیے امدادی فنڈکے دروازے کھول دیے ہیں،اگرامریکہ خاموش ہے تویہ ایک مسلمان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتاکیوں کہ اس سے ایسی ہی دوغلی پالیسی کی توقع رکھنی چاہیے ،اگراسرائیلی وفدکادورۂ قاہرہ عین مرسی کے برطرف کیے جانے کے بعدہوتاہے تووہ بھی سمجھ آتاہے لیکن اگرسعودی عرب کے فرماں روا’’خادم الحرمین‘‘ حرم کے پاسداروں کی مخالفت کرتے ہیں،تویہ عام مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ اورسمجھ سے بالاترہے،اوراسلامی تحریکات کے سلسلہ میں موجودہ فرماں رواکے اس رویہ کو مخالف رویہ ہی سمجھاجائے گا،شایدانہیںیہ ڈرہے کہ کہیں اسلامی تحریکات کی آنچ ان کے حرم سراتک نہ پہونچ جائے۔عالم عربی اس وقت فکری طورپرانتہائی پژمردگی کا شکار ہے، جسے قائدہوناچاہیے وہ خودعالم سکرات میں ہے،ایسے وقت میں اخوان المسلمون ہی ایک ایسی جماعت ہے جوانہیں خواب خرگوش سے بیدارکرسکتی ہے لیکن نہیں!یہ بیدار ہونا نہیں چاہتے ،کیوں کہ یہ بیداری ان کے تخت وتاج کے لیے خطرہ کی گھنٹی ثابت ہوسکتی ہے،سعودی عرب جس کے ساتھ دنیابھرکے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی ہے،جہاں غیراسلامی جیسے امورکے بارے میں سوچنابھی گناہ عظیم ہے،لیکن یہ اب صرف سوچ تک ہی محدودہے،سعودی عرب کی مذہبی پولس جسے عرف عام میں مطوع کہا جاتاہے،آج سے چند سالوں قبل تک بڑاثرورسوخ رکھتی تھی،مجال نہیں کہ نمازکے وقت کوئی شخص مسجدکے علاوہ کہیں اورنظرآئے ،لیکن آج مطوع صرف ایک علامت بن کررہ گیا ہے، کچھ دنوں قبل تک ہر نماز کے وقت بازاروں میں مطوع کی گاڑی گھومتی نظرآتی تھی اور اللہ کے بندونمازپڑھو کی صدابھی سنائی دیتی تھی،لیکن آج کی تاریخ میں مطوع عنقاہوچکاہے،اورشایدکچھ دنوں بعدیہ ایک مذاق بن کرہی رہ جائے،لہٰذااگرمصرکے ساتھ سعودی عرب کایہ معاملہ ہے تواسے بس اپنی شہنشاہیت بچانے کے سوااورکچھ نہیں کہا جاسکتا۔
مصرمیں جوکچھ ہوااس کے تاربہت دورتک جڑے ہوئے ہیں،فلسطین کے مظلوم بھائیوں کی مددکے لیے ڈاکٹرمرسی نے بہت سارے اقدامات کیے جن میں سے رفاح بارڈر کا کھولنابھی تھاجوکہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ بہادرکے لیے بھی پریشانی کاسبب تھا،مسلم دشمن طاقتوں کومرسی کایہ قدم انتہائی شاق گذرا،اوراسرائیل کی موسادجس کے سرنہ جانے کتنی حکومتوں کے تختہ پلٹنے اورکتنے سربراہ مملکت کے خون کاسہراہے،اس کھیل میں اس کے اہم کردارکونظراندازنہیں کیاجاسکتا،اورامریکہ کی مجرمانہ خاموشی اس کی بین دلیل ہے،ساتھ ہی سعودی عرب ،دبئی ،اردن اوردیگرعرب ممالک کی پشت پناہی ان سب کواس سازش کااہم حصہ کہاجاسکتاہے۔
مصرکے موجودہ حالات کاجائزہ لینے سے یہ بات واضح طورپرسمجھ میںآتی ہے کہ اخوان المسلمون کے ولی اللہ صفت بانی اورپہلے مرشدعام نے اخوانیوں کے لیے جوپیشین گوئی کی تھی اورجس منزل کاپتہ انہوں نے بتایاتھاوہ منزل ابھی نہیںآئی ہے،اس کے لیے ابھی بہت سی قربانیوں کی ضرورت ہے،تحریک کی کامیابی ہمیشہ ہی قربانی مانگتی ہے اوروہ بھی ایسی تحریک جس کی بنیادطریقۂ نبوی پہ ہوتب توقربانی اورلازمی ہوجاتی ہے،اخوان المسلمون کے کارکنان کوہمیشہ یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ ان کے مرشدعام نے کہاتھاکہ ہمیں ہماری منزل کاپتہ چل چکاہے اوروہ ہے جہادوجواں مردی اورجذبۂ شہادت وقربانی،اوراس وقت مصرکوقربانی کی ضرورت ہے،اوریہ قربانی صرف مصرکی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ عالم عرب کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے اندرتحریک محمدی کی روح ڈالنے کے لیے اشدضروری ہے اوروقت کاتقاضابھی ہے،موجودہ حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ موج تندوطوفاں تواخوان کواوراونچااڑانے کے لیے ہے ،لہٰذااس نازک وقت میں صبرواستقامت اورثابت قدمی کے ساتھ حالات کامقابلہ کریں،ساتھ ہی اپنامحاسبہ بھی کریں کہ طریقۂ محمدی پرچلتے ہوئے اسوۂ رسول کواپنانے میں کہیں کوئی چوک تونہیں رہ گئی،انشاء اللہ وقت کے یہ تھپیڑے اخوان المسلمون کوپہلے کے مقابلہ اورمضبوط کریں گے،انہیں منظم کریں گے اوران کی طاقت پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوگی ،انشاء اللہ العزیز،ساتھ ہی اخوان المسلمون کے جانبازوں کواپنے بانی کی یہ بات پیش نظررکھنی ہوگی اورعالم اسلام کی قیادت کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ منظم طریقہ سے تیارہوناپڑے گا،شیخ حسن البناشہیدنے ایسے ہی حالات کاسامنا کرنے کے لیے اپنے رفقاء کوخطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’مشرق اس وقت نشاۃ ثانیہ اورزبردست ترقی کی تیاریوں میں لگاہواہے ۔اورمغرب اس تاک میں ہے کہ اس کوبڑھنے نہ دے،لہذاہمارااولین فرض یہ ہے کہ تہذیب انسانی کی قیادت کاجھنڈاہم اپنے ہاتھ میں لے لیں،لوگوں کی رہنمائی کریں اوران کومغرب کے پھندے سے آزادکرائیں،اب مغرب ناکام ہوچکاہے،اوراسے راہ نہیں سجھائی دے رہی ہے۔(حسن البناایک مثالی شخصیت:۵۰)
جواب دیں