رکھتے ہیں عذر سب تو خطاکار کون ہے؟

یعنی گجراتیوں کی اکثریت کو 2002کے ہولوکاسٹ پر نہ کوئی احساس گناہ Guilt Consciousہے نہ پچھتاوا۔ مودی نے جو کچھ ہفتہ 13جولائی کو رائٹر کو انٹر ویودیتے ہوئے کہا ہے وہی بات گجرات کے سیاسی لیڈروں، دانشوروں اور عام باشندوں کی اکثریت گیارہ سال سے کہتی آرہی ہے۔ ایک بزرگ گجراتی ادیب دانشور سے جب اپریل 2002میں فروری۔مارچ 2002کے واقعات پران کا رد عمل معلوم کیاگیا تو انھوں نے گجراتی زبان میں صرف ایک فقرہ کودوباردہرایا تھا کہ’’…..یہ تو ہونا ہی تھا……..‘‘ وشوہندوپریشدکے ڈاکٹر پروین توگڑیا نے مارچ 2002میں کہا تھا کہ’’گجرات میں جو کچھ ہوا وہ فرقہ وارانہ فساد نہیں اسلامی جہاد کا ہندوجواب ہے………‘‘گجراتی ہندوؤں کی قریب 98فی صد اکثریت کی رائے وہی ہے جو مودی اور توگڑیا وغیرہ کی رائے ہے۔ وہ گودھرا ٹرین آتش زنی واردات کا ذمہ دارمطلق بے گناہ مسلمانوں کو قرار دیتے ہیں۔ جس میں 58کارسیوک جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔ اور اس کے انتقام میں گجرات کے دوہزار سے زائد مسلمانوں کو زندہ جلاکر ماردیے جانے کوپوری طرح حق بہ جانب قرار دیتے ہیں۔ مشہور مؤرخ ڈاکٹر کے این پانیکر نے ایک انگریزی پندرہ روزہ مین ٹائم (Mean Time)مورخہ 22مارچ 2002میں لکھا تھا کہ ’’گجرات کا حالیہ فساد مستقبل میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کا محض ایک ابتدائی نمونہ PROTOTYPEہے ۔کسی فرقہ پرست حکومت کے زیر اقتدار کوئی سوسائیٹی امن و سکون سے نہیں رہ سکتی۔ اس طرح کی صورت حال قدرتی طورپر خانہ جنگی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمیں اب گجرات قتل عام کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیے۔‘‘
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسردپیانکر گپتا نے 12مارچ 2002کے اکنامک ٹائمس میں لکھا تھا کہ’’گجرات قتل عام میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک سیاسی پارٹی نے اپنے گرتے ہوئے سیاسی مورال کو بچانے کے لیے پھر سے اپنے انتہا پسند کیڈر کے ذریعے خونیں فساد کا سہارا لیا ہے اور بس۔ ایک بار پھر حکومت نے فسادیوں کی پشت پناہی کی ہے اور انہیں کھلی چھوٹ دی ہے اور ایک بار پھر حسب سابق خون آلود ہاتھوں والے فسادیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ فساد کرانا سیاسی پارٹیوں کی مجبوری ہے۔‘‘
اور کانگریس بھی ٹھیک ویسی ہی سیاسی پارٹی ہے جیسی بی جے پی ہے یا جن سنگھ تھی۔ جمشید پور،بھاگلپور، میرٹھ ،ملیانہ ،مراد آباد اور دہلی فسادات، بی جے پی کے زیر اقتدار نہیں کانگریس کے زیر اقتدار ریاستوں میں ہوئے تھے۔ 1984میں سکھوں کا قتل عام بھی کانگریس ہی کے اقتدار میں ہوا۔ کانگریس نے گجرات 2002کے لیے نریندر مودی اور امت شاہ وغیرہ کو سزادلوانا ہی نہیں چاہی ورنہ یوپی اے کے آٹھ سالہ دوراقتدار میں بہت کچھ ہوسکتا تھا۔ اب 2014میں جب لوک سبھا انتخابات سرپر آگئے ہیں تو کانگریس پھر نریندر مودی ہی کو بچانے میں لگی ہوئی ہے۔ گجرات کے آئی پی ایس افسر سنجیوبھٹ کو برطرف کرنے کی مودی حکومت کی درخواست کی منظوری بھی اسی کا ثبوت ہے۔ سنجیوبھٹ کا قصور کیا ہے؟ صرف یہ کہ اس نے اپنے ضمیر کی آواز پر بالآخر سچ کہنے کی ہمت کی اور 27فروری 2002کو ہونے والی اس میٹنگ کا کچا چٹّھا بیان کردیا جو نریندر مودی نے بلائی تھی اور جس میں تمام اعلیٰ سرکاری سول اور پولس افسران کو ہدایت کی گئی تھی کہ 28فروری سے پورے گجرات میں جو کچھ بھی ہوا اس سے چشم پوشی کی جائے اور جہاں تک ہو سکے انتقام لینے والوں کی مدد بھی کی جائے۔‘‘
گجرات حکومت نے سنجیو بھٹ کو اسی وقت سے معطل کررکھا ہے ۔ اس درمیان ایک بار ان کے خلاف ایک جھوٹی ایف آئی آر درج کرواکے انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ جون 2013میں(معطلی کے دوسال بعد) مودی حکومت نے مرکزی حکومت سے سفارش کی تھی کہ انہیں برطرف کردیا جائے۔ سوشیل کمار شندے کی سربراہی والی وزارت داخلہ نے ایک ماہ تک غور کرنے کے بعد بالآخر 11جولائی 2013کو یہ سفارش منظور کرلی اور مودی حکومت کو سنجیوبھٹ کو برطرف کرنے کی کاروائی شروع کرنے کی اجازت دے دی۔ ان پر الزام ہے کہ ’’انہوں نے اپنی سرکاری حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور حکومت مخالف سرگرمیاں انجام دیں۔‘‘ حالانکہ 3جون 2002کے آؤٹ لک میں اور پھر فکر مند شہریوں کے نَو رُکنی ٹریبونل Conceed Citizens Tribunal-CCTکی شایع شدہ رپورٹ میں نریندر مودی کی سرکاری رہائش گاہ پر ہونے والی اس میٹنگ کی مکمل تفصیلات موجود ہیں جس میں آئی پی ایس افسر سنجیوبھٹ بھی شریک تھے۔
CCTکی شایع شدہ تحقیقی دستاویزی رپورٹ میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ٹریبونل کے پاس اس بات کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ نریندر مودی گودھر اکا انتقام لیناچاہتے تھے۔ اور وہی اس کے سرغنہ تھے۔ مودی اور ان کی کابینہ کے علاوہ وی ایچ پی، بی جے پی ،آرایس ایس اور بجرنگ دل مابعد گودھرا قتل عام کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ ٹریبونل نے لکھا ہے کہ مودی کابینہ کے دوسینئر اراکین وزیر مالیات نتن پٹیل اور ٹرانسپورٹ منسٹر نارائن لالو مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والے تاریخ کے بدترین بہیمانہ جنسی تشدد میں بھی ملّوث ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ مودی کا بینہ کے دیگر پانچ ممبروں وزیر داخلہ گوردھن جھڑافیا وزیرصحت اشوک بھٹ سابق وزیرمال ہرین پانڈیا ،شہری ترقیات کے وزیرآئی کے جڈیجہ ،وزیر غذا بھرت باروت نے علی الاعلان مسلم املاک کولوٹنے جلانے اور قتل وغارت کرنے والے ٹولوں کی قیادت کی۔ ٹریبونل کے ممبران جسٹس وی آرکرشناایّر ، جسٹس پی بی ساونت، جسٹس ہوسبٹ سُریش ،ماہر قانون کے جی کنابرن، مزدور لیڈر ارون رائے، تریپورہ کے سابق ڈائرکٹر جنرل پولس کے جی سبرامنین اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسروں گھنشیام شاہ اور تنیکاسرکار نے حیرت اور دہشت کے ساتھ یہ بات نوٹ کی کہ پورے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ یکساں طریقے سے ایک ہی جیسے طریقۂ کار کے ذریعہ کم و بیش ایک ہی وقت پر ایک جیسا ظالمانہ اور وحشیانہ سلوک کیا گیا جو بڑے پیمانے پر او ربہت پہلے سے کی جانے ولی منصوبہ بندی اور عملی تیاری کا مظہر ہے۔ 
مسلمانوں کے گھر دوکانیں اور ادارے بہت پہلے سے باقاعدہ نشان زد کرلیے گئے تھے اور مسلم محلوں میں واقع ہندوگھروں پر بھگوا جھنڈے لگادیے گئے تھے تاکہ بوقت کاروائی انہیں کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔ مسلم خواتین کی عصمت دری اور ہولناک جنسی جرائم کو باقاعدہ مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے ہتھیار کے طورپر استعمال کیا گیا اور بڑودہ میں بالخصوص بھگوا بریگیڈ کے ساتھ مقامی پولس والوں نے بھی مسلم خواتین کے خلاف جنسی تشدد میں عملی حصہ لیا۔ CCTکی رپورٹ کے مطابق یہ محض وقتی ابال اور بھیڑ کی نفسیات کا کارنامہ ہرگز نہیں تھا۔ اس کے پیچھے برسوں کی تیاری سازش اور نفرت کی مہم تھی۔ 
حقیقت یہ ہے کہ سنگھ پریوار عیسائیوں، سربوں اور یہودیوں کی غلطیوں سے بچتے ہوئے ہندستان میں ہسپانیہ، بوسنیا اور فلسطین کے نمائندہ تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ وہ القاعدہ، طالبان اور عراق و افغانستان اور مصروشام وغیرہ کے پردے میں جاری امریکی صہیونی مہم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دیرینہ مقاصد پورے کرنا چاہتا ہے جو ’’عالمی صہیونی نصب العین‘‘ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ سنجیو بھٹ کے معاملے میں کانگریس نے پھر ایک بار ثابت کردیا کہ وہ بھی پوری طرح اس معاملے میں سنگھ پریوار کی معین ومدد گار ہے ؂
ہم نے تو بس لُغت میں پڑھا لفظ اعتراف
رکھتے ہیں عذر سب تو خطاکار کون ہے؟

«
»

اخوان کوابھی اوربڑی قربانی کی ضرورت ہے!

صلیبی انجام کی جانب بڑھتا اسرائیل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے