مہاتما گاندھی کی یاد یا ان کی فکر سے مذاق؟

ویسے گاندھی جی کے ساتھ یہ مذاق آج سے نہیں ان کی زندگی سے ہورہا ہے انہوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے اپنی پوری زندگی صرف کردی مگر جب آزادی آئی تو ملک میں سب سے زیادہ دکھی انسان وہی تھے کیوں کہ ان کی نظروں کے سامنے ہندو، مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے تھے، گاندھی جی کے اپنے وطن میں تشدد، تنگ نظری اور فرقہ واریت کی وہ مصیبت ٹوٹ پڑی تھی کہ وہ خود اپنی موت کی دعا مانگنے لگے تھے۔ ان کی نظروں کے سامنے ان کے بنیادی فلسفے امن اور اہنسا کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں لہذاآزادی کے صرف ۵ ماہ بعد اہنسا کا یہ پیامبر ہنسا کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگیا لیکن اپنی آخری سانس تک ان برائیوں کے خلاف جہاد کرتا رہا جس کو وہ ملک قوم کے لئے مہلک تصور کرتا تھا۔
اس لحاظ سے گاندھی جی ہمیں سیاست داں سے زیاداہ ایک ریفارمر نظر آتے ہیں جنہوں نے ذات پات کی تفریق کے خلاف مہم چلائی ، اچھوتوں کے ساتھ ان کی بستیوں میں قیام کیا، اپنی سیاست کی بنیاد اعلیٰ انسانی اصول اور نظریات پر استوار کی، بددیانتی، بدکرداری اور غلط روی کا قدم قدم پر مقابلہ کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عدم تشدد کو ایک عقیدہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیاا اور اس پر خود عمل کرکے دکھادیا۔ لیکن ان کا مشن صرف اس لئے ناکام ہوگیا کہ ان کے پیرو ، ان کے نام کی گردان کرنے والے ان کے خلاف ہوگئے ان کی آنکھوں کے سامنے ملک کی تقسیم عمل میں آئی اور یہان کے لوگ ایک دوسرے کا خون بہانے لگے۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ ملک گاندھی جی کے اصولوں کا مقتل بنا ہوا ہے ہر روز اس سرزمین پر ان کی فکر اور نظریات پر طرح طرح سے حملہ کیاجاتا ہے، کبھی اقلیتوں کی حق تلفی کرکے، کبھی ان کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرکے، کبھی فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں، کبھی رشوت خوری، شراب نوشی، اورچور بازاری کو بڑھاوا دے کر لیکن ۳۰ جنوری کا دن آتا ہے تو ان کی سمادھی پر خوب پھول چڑھائے جاتے ہیں، ذرائع ابلاغ ان کی یاد میں پروگرام بھی پیش کرتے ہیں اور ملک کے رہنما ان کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ 
قول وفعل کا یہ تضاد آج بھی ہمیں دکھائی دے رہا ہے ایک طرف اس عظیم رہنما کی خدمت اور کارناموں کا گن گان ہورہا ہے ۔ دوسری جانب ملک کے کروڑوں عوام قسم ہا قسم کے مسائل میں گرفتار پڑے کراہ رہے ہیں۔ کہیں فساد ہے، تو کہیں بدامنی، کہیں بھکمری ہے تو ظلم وزیادتی ، پھر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ایسی ہستی جو درست کام کو غلط طریقہ سے کرنے کی قائل نہ تھی ایک ایسی قوم کی رہنما مانی جائے جو غلط کام غلط طریقے سے کرنے کی عادی ہوچکی ہے۔

«
»

مر اعشق بھی کہانی ،تر ا حسن بھی فسانہ

پیرس حملہ : امن عالم کے لئے ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے