بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا

ہر سال مارچ میں شراب کی دکانوں اور دیسی شراب کے ٹھیکوں کا نیلام ہوتا ہے اور ہر سال بیتے ہوئے سال کے مقابلہ میں نیلامی بولی میں لاکھوں روپئے کا فرق ہوتا ہے۔ بعض شہر ایسے بھی ہیں جو پورے کے پورے کسی ایک گروہ کے قبضہ میں رہتے ہیں انہیں شراب مافیا کہا جاتا ہے وہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ایک شہر یا دو شہروں کی ہر دکان ہم لیں گے اور وہ ان لوگوں کو جو شراب کا کاروبار کرنا چاہتے ہیں مافیا سرغنہ چند ہزار روپئے دے کر راستہ سے ہٹا دیتے ہیں اور جنہیں لینا ہوتی ہیں وہ سب لے لیتے ہیں۔ ایکسائز محکمہ کے تمام بڑے اور چھوٹے افسر اس پوری کارروائی سے واقف ہوتے ہیں وہ اس لئے کچھ نہیں بولتے کہ ان کی زبان سب سے پہلے خرید لی جاتی ہے۔ پھر جب اپریل میں نئے ٹھیکے اور دکانیں اپنا کام شروع کرتی ہیں تو جسے انگریزی شراب کہا جاتا ہے اس میں دیسی شراب کی ملاوٹ کرکے ایک بوتل کی تین بوتلیں بنائی جاتی ہیں اور چونکہ تمام دکانیں ایک ہی گروہ کی ہوتی ہیں اس لئے یہ فرق بھی نہیں ہوتا کہ کس دکان پر کم ملاوٹ ہوتی ہے یا بالکل ملاوٹ نہیں ہوتی۔ ان دُکانوں پر خالص شراب بھی ملتی ہے لیکن وہ وزیروں کے لئے ہوتی ہے بڑے افسروں کے لئے ہوتی ہے یا پولیس کے بڑے چھوٹے افسروں کے لئے۔
اس بیماری کی ابتدا اس وقت شروع ہوتی ہے جب ٹھیکے اور دکانیں نیلام ہوتے ہیں۔ ایکسائز محکمہ کے افسر جب ایک ایک دکان کئی کئی لاکھ میں نیلام کرکے منتری جی کو خوشخبری سناتے ہیں تو ان کے سینے 56 اِنچ کے ہوجاتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ایک دکان پانچ لاکھ یا دس لاکھ میں نیلام میں کسی نے لی ہے تو اسے ایک دکان بھی لینا ہوگی جس کسی بھی شہر میں لاکھ دو لاکھ سے کم میں نہیں ملے گی اور مل اس لئے جائے گی کہ سب جانتے ہیں کہ ایک سال کے بعد تو اسے خالی کرنا ہی ہے۔ پھر وہ دو نوکر بھی رکھے گا چوکیدار کوبھی تنخواہ دے گا۔ اس کے بعد اگر فیکٹری سے ملی ہوئی بوتل پر وہ دس یا بیس روپئے نفع لے گا تو آخر ایک دن میں کتنی بوتلیں بیچ لے گا؟اورکتنا کما لے گا؟ اس کاروبار میں برسوں سے لگے ایک بہت بڑے مافیا اتفاق سے ان دنوں جیل میں آگئے جب ہم وہاں تھے جیلر صاحب سے لے کر سپاہی تک سب نے کہا کہ اسے نعمانی صاحب کی بیرک میں بھیج دیا جائے۔ پھر وہ آئے تو ہم سے چپک کر رہ گئے۔
وہ ہر وقت ہمارے پاس رہنا چاہتے تھے کھانے کے شوقین تھے جو ہمارے پاس ہوتا تھا وہ کھاتے تھے اور اپنا منگواتے رہتے تھے۔ دن بھر ان کے پاس جیل کے چھوٹے افسر آتے تھے ایک پرچہ اور قلم دے کر ہاتھ جوڑکر کہتے تھے اس پر ایک بوتل لکھ دیجئے اور وہ سبیل کے شربت کی طرح دارو بانٹ رہے تھے اس کی وجہ سے تلا ہوا مرغ انڈے مکھن اور بریانی انہیں سے منگواتے رہتے تھے اور جیل کی بیرک کیا تھی شاہی دسترخوان ہوگیا تھا۔ انہوں نے ایک ایک بات اس طرح بتائی کہ شاید ہماری برادری میں ہم سے زیادہ کوئی نہ جانتا ہو انہوں نے بتایا تھا کہ اگر ایک ٹھیکہ جو ہم نے دس لاکھ میں لیا ہے پچاس ہزار میں ملتا اور اس کے لئے جیسے جیسے انتظام کئے ہیں وہ کرتے اور جیسی شراب کمپنی سے آتی ہے اسے ایک ہوٹل پر دس روپئے نفع لے کر بیچتے تب بھی گھر کے برتن اور بیوی کے زیور تک بک گئے ہوتے اس لئے کہ دستخط کرکے بوتل بانٹنے کا جو منظر آپ یہاں دیکھ رہے ہیں گھر پر ٹیلیفون آتے رہتے ہیں۔ ’’تھانہ سے داروغہ جی نے منگوائی ہے‘‘ اور ’’منشی جی آئے ہیں‘‘ اپنی بیٹ کے سب انسپکٹر آئے ہیں اور ہم یا کوئی انکار کرنہیں سکتا۔ ان کے علاوہ شہر کے غنڈے ہیں جو جانتے ہی نہیں کہ پیسے بھی دیئے جاتے ہیں؟
گاؤں گاؤں جو بھٹیاں لگی ہیں ان کی خبر پولیس کے سپاہی سے لے کر ایکسائز کمشنر تک کو ہے ہر بھٹی سے تھانے کے پیسے بندھے ہوئے ہیں رہے گاؤں کے پنچ تو وہ اور ان کے مہمان وہی پیتے ہیں جو گاؤں میں بنتی ہے۔ کہنے لگے کہ نعمانی صاحب حالت یہ ہوگئی ہے کہ جو چاہو بیچو جتنے کی چاہو بیچو بس انہیں پیسے دے دو جن کے بندھے ہوئے ہیں۔ اگر ایکسائز کا محکمہ ایماندار ہوجائے اور پولیس رشوت لینا چھوڑ دے تو حالت یہ ہوجائے گی کہ سرکار نیلام کی تاریخ مقرر کرے گی اور کوئی بولی لگانے والا نہیں جائے گا۔ اگر کوئی حکومت ایک سال کے لئے یہ طے کرلے کہ کسی بھی دکان یا ٹھیکہ پر ملاوٹ کی شراب نہیں بکے گی اور کسی دکان پر کوئی بوتل پکڑی گئی یا کسی نے شکایت کی اور ثابت ہوگیا کہ بوتل میں ملاوٹ ہے تو کوئی سزا یا جرمانہ نہیں بس یہ کیا جائے کہ لائسنس کینسل کردیا جائے گا تو میں قسم کھاسکتا ہوں کہ سرکار کو اپنی دکانوں سے شراب بکوانا پڑے گی۔
اب تک کی خبر تھی کہ تھانے کے عملہ کو معطل کردیا گیا درجنوں سرکاری ملازم معطل ہوگئے آج بڑا شیر مارا کہ ایکسائز کمشنر کو لاپروائی کے الزام میں معطل کردیا لیکن جنہوں نے معطل کیا ہے کیا وہ گیتا پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ ان کی لاپروائی تھی اور جنہوں نے معطل کیا ہے انہیں کچھ نہیں ملتا تھا؟ سب کو معلوم ہے کہ 1960 ء سے گجرات میں شراب پینا، رکھنا، بیچنا، خریدنا اور بنانا جرم ہے اور خلاف ورزی کی بہت سخت سزا ہے لیکن شاید پانچ برس پہلے خبر آئی تھی کہ 32 آدمی زہریلی شراب پی کر مرگئے تھے اور بار بار یہ خبر اخباروں میں چھپ چکی ہے کہ گجرات سے زیادہ اچھی سستی شراب کہیں نہیں ملتی اس لئے کہ نہ رشوت ہے نہ ٹیکس اس کے باوجود زہریلی شراب وہاں بھی بنتی ہے اور ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ سیکڑوں بھٹیاں ہیں اور وہاں کے شراب بنانے والے بہت ماہر ہیں۔ یہ بات شری نریندر مودی کو بھی معلوم ہے لیکن وہ آج تک اس کا روبار کو بند نہیں کرسکے اس کی وجہ وہی ہے کہ بنانے والے آدھی رقم خود لیتے ہیں اور آدھی انہیں دے دیتے ہیں جن کے ذمہ پکڑنے کا کام ہے۔ اتفاق ہے کہ گجرات میں تھوک میں مرنے والوں کا حادثہ صرف ایک بار ہوا۔ شراب بننے، بکنے اور مرنے کا سلسلہ اس دن ختم ہوگا جس دن لاکھوں میں دکان نیلام ہونے کے بجائے ہزاروں میں نیلام ہوگی اور شرط یہ ہوگی ملاوٹ کرنے والے کو وہی سزا دی جائے گی کہ پھر شراب کا نام وہ کبھی نہیں لے گا۔ رہا معطل کرنا یہ تو سو مرتبہ سو جگہ ہوچکا ہے اور پھر ہوگا لیکن مرنا بھی بند نہیں ہوگا اور شراب بننا بھی بند نہیں ہوگی۔

«
»

پیرس میں جمع ہونے والے عالمی راہنما

بعثت رسول سے قبل عرب کے حالات کا اجمالی جائزہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے