پیرس حملہ: کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!

امریکی سفیر رچرڈ والسن نے ایک بار کہا تھا:’’ایک آزاد میڈیا جمہوریت کا لازمی جزو ہے اور یہ ملک کے پر امن مستقبل کی تشکیل کے لئے صحتمندانہ مباحث کا موقع فراہم کرتی ہے ،،مصوری اور خاکہ بنانا بھی ایک قابل احترام فن ہے اور یہ بھی صحافت کیزمرہ میں آتا ہے۔ جس طرح صحافی اپنی تقریروں اور تحریروں سے انسانی دل ودماغ پر اثر ڈالتا ہے اسی طرح ایک مصور اور کارٹونسٹ بھی اپنی ایک تصویر سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے،اس کی تصویرکہیں سماج میں چھپی برائیوں کو ظاہر کرتی ہیتو کہیں ماضی کی تاریخ بتلاتی ہے۔
7?جنوری بروز بدھ کی صبح 15:7منٹ پر ثقافت وتہذیب کا شہر اور سیاحوں کا مرکز پیرس کے قلب میں واقع ہفت روزہ میگزین ’’چارلی ہبدو،،کے دفتر میں چند کارٹونسٹ اور بلاگربیٹھ کر اپنے عمل میں مشغول تھے کہ اچانک دو جنونی شخص آٹو میٹک رائفل کلاشنکوف اور ایک راکٹ لانچر لے کر آفس میں داخل ہوئے اور اندھا دھندفائرنگ کردی جس کی وجہ سے مدیرۂ جریدہ اسٹیفن شاربونیردیگر کارٹونسٹ برنانڈمیرس، وولنیسکی،کیبو ،برنانڈ دگسن ،وری ہارک اور دو پولیس اہلکار سمیت 12? افراد ہلاک ہو گئے۔اس میں کوئی دو آراء4 نہیں کہ کسی انسانی جان پر ایک حملہ ایک جرم عظیم ہے ،ایک گھناؤ نا فعل ہے ،کسی کا ناحق جان لینااور ظلماخون بہانا درست نہیں ہے یہ ہمارے عقیدیکے خلاف ہے ،ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ایڈیٹر ’’چارلی ہبدو‘‘اسٹیفن شاربونیرجس منصوبہ بند طریقے سیاسلام اورمسلمانوں کا مذاق اڑا رہا تھا ،جناب رسول اللہ ? کی توہین کر رہا تھا،یہ صحافت کے نام پر کلنک تھا ،اس کو کسی بھی حال میں درست نہیں قرار دیا جا سکتا۔اظہار رائے میں آزادی کا قطعاً یہ معنی اور مفہوم نہیں ہو سکتا کہ صحافی ،کارٹونسٹ شتر بے مہار بن جائیں اور جب چاہیں اخلاقی ،سماجی اور جذباتی حدود کو پھلانگ کر کسی کی بھی کردار کشی اوردل آزاری کردیں!جس کی چاہیں پگڑیاں اچھال دیں !
چارلی ہبدو میگزین ہمیشہ سے تنازع کا شکار رہا ،اس کے ذریعہ کبھی سیاست وثقافت پر حملہ بولا گیا تو کبھی قائدین دین وملت پر، کبھی عیسائیت کا مذاق اڑایا گیاتو کبھی یہودیت کا لیکن ایک دائرہ میں رہ کر ،مگر مذہب اسلام ،تشحص اسلام اور شعار اسلام پر وار کرنا اس کے ایڈیٹر نے فرض عین سمجھ رکھا تھا، جب جب موقع ملا اس نے اس فرض کو ادا کیا۔ایک دفعہ اس نے ’’شریعہ ہبدو ‘‘نام سے کارٹون کا خصوصی شمارہ نکالنے کا عزم کیا اور کہا (نعو ذباللہ) اس کے ایڈیٹر محمد ? ہوں گے۔ایک دفعہ ایک کارٹون شائع کر کے اس کا محمد نام دیا اورآگے لکھا’’اگر ہنستے ہنستے نہیں مرو گے تو سو کوڑے لگا ئے جائیں گے ،،یوں شریعت اسلام کی تضحیک کرتے رہے۔ 2006 میں ڈینش اخبار ’’جیلنڈس پوسٹن‘‘میں چھپا، آپ کے خاکہ کو بھی اس نے اپنے جریدہ میں جگہ دی ،2012 میں بھی محمد ﷺکا ایک کارٹون چھاپا۔آپ کو یاد ہوگا یہ وہی نازک وقت تھا جب ایک امریکی خسیس ڈائریکٹر نے اسلام مخالف فلم ’’انوسینس آف اسلام ‘‘بنائی اور ریلیز کردی جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمان سخت بے چین اور پریشان ہو اٹھے،عالم اسلام میں ہنگامہ بپا ہو گیا ،کئی ملکوں میں سخت مظاہرے ہونے لگے ،اس وقت حالات اتنے خراب ہو گئے کہ فرانس سرکار کو20? اسلامی ملکوں میں اپنے سفارت خانے بند کرنے پڑے۔2 نومبر 2011 کو چارلی ہبدو کے دفتر میں ایک باربم بھی پھینکا گیا تھا،آگ بھی لگا دی گئی تھی اور ویب سائٹ کو برباد بھی کر دیا گیا تھا ،تاہم نہ ہی ذمہ داران جریدہ نے اس سے سبق لیا اور نہ حکومت فرانس نے کوئی نوٹس لی۔مسلمانوں کی دو تنظیموں نے ایک مرتبہ اس میگزین پر توہین مذہب کا مقدمہ بھی کیا لیکن نا انصاف عدالت نییہ کہتے ہوئے میگزین کے حق میں فیصلہ سنا دیا کہ’’ اظہار رائے کی آزادی پر کوئی لگام نہیں لگائی جا سکتی، یہ اس کا بنیادی حق ہے ‘‘۔میں نے نا انصاف عدالت اس لئے کہا کہ اگر اظہار رائے میں آزادی کا مطلب یہی ہے تو پھر اس مسلم لڑکی کو حجاب پہننے سے کیوں روکا گیا جو حجاب پہن کر اسکول جانا چاہتی تھی ؟کیا یہ اس کی آزادی اور حق پر حملہ نہیں ہے ؟کیا یہاں انصاف کا خون نہیں کیاگیا ؟
در اصل پوری دنیا عموماً اورفرانس سمیت یورپی ممالک خصوصاً اس فراق میں ہیکہ مسلمانوں کو نیست و نابود کر دیا جائے ،اسلامی تشخص کومٹادیا جائے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ارض مقدس فلسطین میں روزانہ دسیوں مسلمان اسرائیلی گولیوں کے شکا رہو رہے ہیں اور امن وانصاف کے خود ساختہ ٹھیکیدار تماشہ دیکھ رہے ہیں۔برما میں بودھیسٹ دہشت گرد ،مسلمانوں کے خون کی ہولیاں کھیل رہے ہیں اور قائدین عالم کی نگاہیں اس کی طرف مطلق نہیں اٹھتیں۔اقوام متحدہ کیوں ان دہشت گردوں کے خلاف ایکشن نہیں لیتا؟۔سویڈن میں کئی مساجد جلا دی گئیں لیکن کسی نے بھی اس کی مذمت کرنے کی زحمت نہیں کی۔ آخر کیوں ؟کیا فلسطینیوں کا خو ن خون نہیں ؟کیا برمی مسلمان انسان نہیں ؟
یورپی ملکوں میں سے اس وقت سب سے زیادہ فرانس میں مسلمان ہیں ، یہاں ہر دس میں سے ایک شخص مسلم ہے ،یہ اکثر و بیشتر افریقی ممالک سے جا کر بسے ہیں ، یہ سب ناخواندہ اور انتہائی پسماندہ ہیں جس کی سزا انہیں بھگتنی پڑتی ہے ،آفس میں ہم عمل تحقیر و تذلیل کرتے ہیں ،عوامی مقامات پر ان کی بے عزتی کی جاتی ہے ،لیکن یہ لوگ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ہیں۔ فرانس کے ایک ناول نگار میشل ویلبیک نے شاید فرانس میں بڑھتی ہوئی مسلمانوں کی طاقت کو دیکھ کر ہی لکھ ڈالاکہ’’2022 میں فرانس کا صدر ایک مسلمان ہوگا ‘‘یورپ میں بھی جس رفتار سے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اس سے وہاں سخت بے چینیاں پائی جا رہی ہیں۔بہت ممکن ہیکہ پیرس کا حملہ اسلام کے خلاف ایک سازش ہو،مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کے لئے کیا گیا ہو۔ حادثہ کے فوراًبعد کچھ ضمیر فروش نام نہاد صحافت کے علم بردارمیڈیانے جس طرح بلا تردد و تشکک مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا یہ انتہائی قابل افسوس ہے۔صحافت جس کی ڈکشنری میں پہلا لفظ سچائی ،حق گوئی اور حقیقت پسندی کا اظہار ہے ،آج کل اکثر نے اسے فراموش کر دیا ہے،بلکہ تعصب کی عینک چڑھا رکھی ہے۔قتل وغارت گری کا واقعہ کہیں بھی پیش آئیبلا تحقیق وتفتیش اسلام اور مسلمانوں کا نام جوڑ دیاجاتا ہے، اس معاملہ میں تو ہندوستانی جن سنگھی چینلس کا کوئی جواب نہیں۔تا ہم آج بھی کچھ حقیقت پسندانہ اور سچی صحافت باقی ہے جس میں سے ایک نام’’ 24نیوز چینل ‘‘ہے۔ فرانس کے اس مشہور نیوزچینل نیپیرس حملہ کو فرضی قرار دیتے ہوئے اس پر دلائل دیئے ہیں اور سوالیہ نشان بھی لگا دیا ہے ،اس نے پوچھا ہے۔
(۱)حملہ آور سڑک کنارے ایک پولیس اہلکار کو صرف دس فٹ کے فاصلے سے اس کے سر پر گولی مارتا ہے ،گولی لگنے کے بعد بھی چند سکنڈ تک نہ اس کے سر سے خون نکلتا ہے اور نہ ہی خون کے چھینٹے نظر آتے ہیں،آخر کیسے؟ (۲)چند فٹ کے فاصلے سے گولی لگنے کے باوجود اس کے سرکے چینتھڑے کیوں نہیں اڑے ؟(۳)حملہ کے وقت دفتر کی چھت پر ایک شخص بلیٹ پروف جیکٹ پہنا ہوا نظر آرہا ہے جو گھبراہٹ سے چیخ رہا ہے ،کیا کوئی کام کرنے والا شخص بلیٹ پروف جیکٹ پہن کر ڈیوٹی میں جاتا ہے ؟(۴)کچھ ہی دیر بعد وہی شخص نیچے ایک کھمبا کے بغل میں اپنے موبائل پر اس طرح مصروف ہے جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہیں (۵)۸۱ برس کا حملہ آور نے صرف سوشل میڈیا میں نام آنے پر کیسے خود کو مجرم قرار دے کر خود سپردگی کر دی جبکہ اس کے کلاس میٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ اسکول کا ٹائم تھا اور وہ اسکول میں موجود تھا۔(۵)حملہ کے بعد جس کالے رنگ کی گاڑی سے حملہ ا?ور فرار ہو رہے ہیں ویڈیو میں صاف نظر آرہاہے کہ اس گاڑی کا سائڈمررکا بیک کور سفید رنگ کا ہے لیکن پولیس جس کالے رنگ کی گاڑی کو بطور ثبوت پیش کر رہی ہے اس کا سائڈمرر کابیک کور سیاہ ہے۔ایسا کیوں؟(۶)جس راستہ سے دہشت گرد آفس میں داخل ہو رہے ہیں اس راستہ میں صرف چند سکنڈ پہلے تین پولیس اہلکار نہتے گھومتے ہو ئے نظر آرہے ہیں۔آخر پولیس نہتی کیوں تھی ؟ یہ تھے 24 نیوز چینل کے چبھتے ہوئے سوالات۔
اس کے علاوہ بھی غور وفکر کرنے والی بات یہ ہے کہ پیرس ایک محفوظ شہر ہے ،فرانس کی خفیہ ایجینسیاں انتہائی مضبوظ ہیں ،پھر بھی کیسے رک رک کر تین دن تک 
مختلف جگہوں میں دھماکے ہوتے رہے ؟لیون کی مسجد کے پاس بھی دھماکہ ہوا آخر اسلام کے نام پر جان دینے والا اپنے مقدس جگہ کی حرمت کو کیوں کر پامال کریگا ؟گراسی سوپر مارکیٹ پر بھی حملہ ہوا یہاں یہودیوں کی اکثریت ہے ،اگر ان حملہ آورکا مقصدآپ ﷺکے گستاخانہ کارٹون ہی کا بدلہ لینا تھا جیسا کہ ایک زندہ بچے کارٹونسٹ کورین رے عرف کوکو نے بھی کہا ہے کہ حملہ آور چلا کر کہہ رہے تھے ’’ہم نے پیغمبر کا بدلہ لے لیا ‘‘تو وہ اس میں کامیاب ہو چکے تھے پھر بھی اسے اس مارکیٹ پر حملہ کی کیا ضرورت پڑی ؟ مطلب واضح ہے۔
بے خودی بے سبب نہیں غالب *کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

«
»

پیرس میں جمع ہونے والے عالمی راہنما

بعثت رسول سے قبل عرب کے حالات کا اجمالی جائزہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے