مذہبی سیاست اور سیکولر پارٹیاں

مذہب میں وہ طاقت ہے جو انسان کو اس کی ذات ، برادری ، انسانیت ، علاقہ ، ضرورت یا مسائل کو بھلا دیتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ پریشانی میں صبر اور تنگی میں قناعت کی تعلیم مذہب سے ملتی ہے لیکن یہی مذہب انسان کے سوچنے سمجھنے کی طاقت کو بھی صلب کر لیتا ہے ۔ اسی کا فائدہ سیاستداں اٹھاتے ہیں اور حکمراں نظام کی تبدیلی کیلئے اس کا استعمال کرتے ہیں ہم نے مذہبی سیاست کے نتیجہ میں ملک کی سیاسی جماعتوں کو سیکولر و غیر سیکولر کے خانوں میں بٹتے دیکھا ہے ۔

ملک میں فرقہ پرست اور سیکولر کا ڈھول خوب پیٹا گیا لیکن اصل تبدیلی کی عوام کو بھنک تک نہ لگی مذہبی سیاست کے کندھے پر سوار ہو کر کب پونجی واد ملک میں داخل ہو گیا یہ کسی کو معلوم ہی نہیں ہوا عوام اور سیاسی جماعتیں منڈل کمنڈل ، مسجد مندر فرقہ واریت سیکولرازم ، علاقائیت اور ذات برادریوں کی بحثوں میں الجھے رہے اور دوسری طرف نجی کاری کے نام پر ملک کے اثاثے کارپوریٹس کو منتقل ہوتے رہے ۔ اس کی شروعات تو کھلی معیشت کے نام پر پہلے ہی ہو چکی تھی کسانوں سے ان کی زمینیں ڈیولپمنٹ کے نام پر چھینی گئیں آدی واسیوں کے لئے زمین تنگ ہو گئی ، چھوٹے ادھوگ ڈھندوں کے لئے ایسے قانون بنے جس سے گھریلو صنعت نے دم توڑ دیا ۔ بے روزگاری بڑھی کمیشن کے دھندے میں ترقی ہوئی ۔ پچھلی دو دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری پالسیوں کا جھکاؤ کارپوریٹس کی جانب رہا ۔ عام آدمی کی زندگی میں اور پونجی پتیوں کی دولت میں اضافہ ہوا ۔ملک نے یہ بھی دیکھا کہ ہر سیاسی جماعت کارپوریٹس کے سامنے اس کی سرپرستی حاصل کرنے کیلئے ہاتھ باندھی کھڑی تھی اس وعدے کے ساتھ کہ اگر اسے اقتدار حاصل ہوتا ہے تو وہ ان کے مفاد اور بہتر طریقہ سے پورا کریگی ۔آپ نے تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کو منافع بخش کاروبار میں بدلتے بھی دیکھا ہے ۔ سرکار کی زمین پر بنے اسپتال اور اسکول اپنی من مرضی کی قیمت وصول کررہے ہیں آخر کیوں ؟َ

2014کے پارلیمانی انتخاب میں عوام نے اپنے غصہ اور بے چینی کو ظاہر کیا ۔ اس نے سیکولر ، فرقہ واریت ، ذات برادری ، علاقائیت سے اوپر اٹھ کر ترقی ، روزگار اور اچھے دنوں کی امید پر ووٹ کیا ۔ لیکن در اصل یہ ووٹ مذہب کے نام پر کارپوریٹس کی مدد سے اکھٹے کئے گئے تھے ترقی کا ماڈل گجرات اور اس کے برانڈ امبیسڈر تھے نریندر مودی ۔ ان کی شخصیت کے ساتھ جڑے تھے مذہبی بالا دستی کے واقعات اور پونجی پتیوں کے یقین ۔ انہوں نے اچھے دنوں کا اور ان کے کارندوں نے ان کی مذہبی سخصیت کا خوب ڈھنڈورا پیٹا ، خواب خقیقت نہیں ہوتے اور جھوٹ دیر تک نہیں چلتا ۔ لیکن مہب خوب کار کرتا ہے وہ انسان کو خواب سے بیدار نہیں ہونے دیتا ۔ بیدار ہوگا تبھی تو جھوٹ پر سوال کریگا ۔ پہلے نو ماہ میں اسی نشہ کو برقرار رکھنے کیلئے لو جہاد ، سب ہندو ہیں ، تبدیلی مذہب یا گھر واپسی ، فرقہ وارانہ فسادات ، ناتھو رام گوڈسے بنام گاندھی ، ہر انسان ہندو پیدا ہوتا ہے اور ہندو عورتیں ، چار بچے یا آٹھ بچے پیدا کریں جیسی باتوں پر خوب بحث چلی اور چل رہی ہے ۔ ترقی کے علمبردار مودی اپنے لوگوں کی مروت میں یا لحاظ میں چپ رہے ہیں یا یہ پھر ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔

نام نہاد سیکولر پارٹیاں سیاست سے مات کھا گئیں ایک کیت بعد ایک بی جے پی نے کئی ریاستوں میں اپنی کامیابی کا جھنڈا پھیرا دیا ان ریاستوں میں سیکولر پارٹیوں کا کوئی حربہ کام نہپیں آیا ذات برادری کا دلت پچھڑے کا آدی واسی کا ، اور نا فرقہ پرستی کا اس صورتحال نے ان پارٹیوں کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے شاید اسی لئے جنتا پریوار کو متحد ہونے پر مجبور ہونا پڑا ہے سوال یہ ہے کہ کیا یہ جھاجپا کو روکنے کیلئے دوسری علاقائی سیکولر پارٹیوں کو اکٹھا کرکے کوئی سیاسی پلیٹ فارم بنا سکیں گے ؟ یا اپنے آپسی اختلافات کو بڑے مقصد کے لئے بھلا سکیں گے ؟ یہ کتنی دور تک ساتھ چلیں گے اور اپنی برادری کے ووٹوں کو کیا اکٹھا کر پائیں گے وغیرہ جبکہ بی جے پی کے اس مقام تک آنے میں ان کی کوششوں کا بھی دخل ہے ۔

سیکولر کہلائے جانے والی پارٹیوں کے سامنے بڑا مسئلہ مدوں کے انتخاب کا ہے یہ آج بھی اقلیت اکثریت ، علاقائیت ، آدی واسیوں ، پچھڑوں ، دلتوں کو ذات برادری اور مفاد کی بنیاد پر اکٹھا کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔ یہ پارٹیاں نا انصافی نا برابری ، بھید بھاؤ اور فرقہ واریت کو ملک کیلئے چیلینج کی شکل میں دیکھ رہی ہیں اور غیر جانب داری کے نظریہ کی بنیاد پر سیکولر مورچہ کی تشکیل کرنا چاہتی ہیں ۔ در اصل ان کو اپنے بنیادی نظریہ سماج واد کی طرف لوٹنا ہوگا آج کا اصل چیلنج پونجی واد کا طاقتور ہونا ہے ان کو نو ادار واد کے ساتھ فرقہ واریت کے رشتہ کو جوڑنا ہوگا کیونکہ یہ اکثریت اور کارپوریٹی کرن پر منحصر ہے اس روشن خیالی کی بنیاد پر جنوب مشرق کی طاقتوں کے اتحاد کو دیکھنے کی ضرورت جس نے دنیامیں دہشت گردی ، شدت پسندی اور تمام طرح کے نسلی ٹکراؤ پیدا کئے ہیں اور ہمارے دیش کا متوسط طبقہ Libralisationکو پسند یدگی کی نظر سے دیکھتا ہے ۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسانوں ، غریبوں ، مزدوروں ، آدی واسیوں ، پسماندہ طبقات اور چھوٹے ادھوگ دھندوں کی پریشانیوں کے پیچھے کارپوریٹس کی منع خوری ہے ان کے لئے سرکاری اسکیموں کے فنڈ میں تخفیف پر کسی کی نظر ہی نہیں جاتی جب تک چھوٹے ڈھندے بند نہیں ہوں گے کارپورٹیس کا بنایا ہوا سامان بازار میں نہیں بکے گا محلہ کی چھوٹی دکانیں بند ہوں گی تبھی انسان ، شاپنگ مال کا رخ کریگا جو پہلے سستا سامان دیکر ان کو عادی بنائیں گے اور بعد میں اپنی مرضی کے مطابق منافع وصول کریں گے ۔ گھر کے نل کا یا گاؤں کی ندی کا پانی پینے لائق ہوگا تو کوئی پانی کی بوتل کیوں خریدے گا بوتل کا پانی بیچنے کے لئے پہلے ندی نالے اور نل کے پانی کو خراب کرنا ہوگا ۔ تب تک گاؤں میں زمین انسان کی ضرورت پوری کرتی رہے گی اسے شہر آکر نوکری یا مزدوری کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ، مزدوروں کی ضرورت ہوگی تو پہلے گاؤں کی زمین سے کسان کو بے دخل کرنا ہوگا ۔ مذہبی سیاست کو ہرانے کے لئے نو ادار واد کو ہرانا ہوگا اسے شکست دےئے بغیر نی سیکولر پارٹیاں بچ سکیں گی نہ ملک کے کمزور طبقات اور نہ ہی دیش کا ویلفےئر ( رضاکار) کردار۔

«
»

۲۶جنوری :جمہوری مملکت ہونے کی خوشی اورغم آئین کے عدم نفاذ کا

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے