یہ کیا کم ہے کہ ہم اپنی نظر میں سرخ رو تو ہیں

مسٹر توگڑیا ہر وقت گرم کڑھائی میں بیٹھے رہتے ہیں ہم انہیں دوستانہ مشورہ دیں گے کہ وہ صرف ایک ہفتہ اپنا وہاں گذاریں جہاں ہم بتائیں اس کے بعد ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ وہ ہندو جنہیں سات ارب ہونا چاہئے تھا آج صرف 100 کروڑ کیوں رہ گئے؟ ان کے دماغ میں جو یہ بیٹھا ہوا ہے کہ مسلمان دس دس بچے پیدا کررہے ہیں اور ہندو ہم دو ہمارے دو پر عمل کررہے ہیں اس کی وجہ سے ہندوؤں کی تعداد کم ہے۔ جبکہ حقیقت بالکل اس کے خلاف ہے۔ وہ خود مان رہے ہیں کہ دو ہزار سال پہلے مکہ مدینہ میں بھی بس ہندو تھے۔ انہوں نے اگر تھوڑا پڑھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ عیسائی اور یہودی بھی تھے اس کے بعد مذہب کی تبدیلی گھر واپسی یا لوجہاد نہیں ہوا بلکہ اس دنیا کے پیدا کرنے والے نے اپنا وہ دین بھیجا جسے اس نے اپنی نصرت قرار دیا اور ان کافروں میں سے ہی ایک کو اپنا پیغامبر بنایا اور ان سے کہا کہ اب ہندوؤں کے سامنے وہ مذہب پیش کرو جو ہم نے قیامت تک لئے بھیجا ہے۔
مسٹر توگڑیا کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ خود اُن کے پڑھے لکھے دھرم گروہ ہندو دھرم نہیں مانتے وہ تو کہتے ہیں کہ ہندو کوئی دھرم نہیں ہے دھرم تو سناتن ہے جسے ماننے والوں کو ہندو کہا جاتا ہے۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ مکہ مدینہ اور روم میں ایک بھی ہندو نہیں تھا کافر تھے یا مشرک تھے جو مورتی پوجا کرتے تھے کچھ عیسائی تھے جو حضرت عیسیٰؑ کے لائے ہوئے دین کو پکڑے بیٹھے تھے یا یہودی تھے جو حضرت موسیٰؑ کو مانتے تھے اور ایسے کسی نبی کا انتظار کررہے تھے جسے ان میں سے ہی کسی کو پروردگار بنائے گا ہندو تو صرف ہندوستان میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے جن کو ہدایت دی انہوں نے اللہ کے دین کو قبول کرلیا۔ مکہ والوں نے اسلام کی جتنی مخالفت ممکن ہوسکتی تھی وہ کی مدینہ کے لوگوں نے مکہ والوں سے پہلے اسلام کو اپنایا اور دنیا کا بڑا حصہ جب اسلام کے ماتحت آگیا تب مکہ والوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ پروین توگڑیا صاحب نے پڑھا ہوگا تو انہیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ دنیا میں کہیں بھی ہندوستان کے علاوہ ہندو نہیں تھے جن کے متعلق وہ بے علم اور سیدھے سادے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ آج سات ارب ہوتے۔
ڈاکٹر توگڑیا پڑھتے ہوں گے کہ یوروپ، امریکہ اور دوسرے ملکوں میں کتنی تیزی سے اسلام پھیل رہا ہے۔ برطانیہ جو عیسائیت کا سب سے بڑا سرپرست ہے وہاں گرجاگھر فروخت ہورہے ہیں اور مسلمان خریدکر انہیں مسجد بنا رہے ہیں صرف اس لئے کہ لوگ عیسائی مذہب کو چھوڑ رہے ہیں اور وہاں کی عورتیں مسلمان لڑکیوں کا کردار دیکھ کر اسلام قبول کررہی ہیں یہی حال جاپان، روس اور امریکہ کا ہے جہاں تک بچے پیدا کرنے کی بات ہے تو ہندوؤں میں زیادہ بچے پیدا کرنے کی بات وہ کررہے ہیں جو سنیاس لے چکے ہیں اگر بچے اتنے ہی ضروری ہیں تو اتاریں اپنی بھگوا پگڑیاں اور ساڑیاں اور کریں بچے پیدا پھر قوم سے کہیں کہ دیکھو جیسے ہم نے پیدا کئے ایسے ہی تم کرکے دکھاؤ۔ ڈاکٹر توگڑیا کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایک یا دس بچے پیدا کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے دنیا میں بلکہ ہندستان میں جانے کتنے ہندو اور مسلمان ایسے ہیں جن کو اللہ نے ایک بچہ بھی نہیں دیا۔ خود میرا ایک بھائی ہے جسے اللہ نے اولاد نہیں دی ایک نواسہ ہے جسے اور اس کی بیوی کو ہر ڈاکٹر نے دیکھ کر کہا کہ کوئی کمی نہیں ہے بس اللہ کی مرضی ہے۔ اسی طرح جانے کتنے ہندو ہوں گے جو اولاد کے لئے ترس رہے ہیں اور نہ جانے کتنے ایسے ہیں جن کی تین چار لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں ہزاروں روپئے کی دوائیں کھالیں لڑکا نہیں ہوتا۔ مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کہیں ہندو بھگوان یا پرمیشور کہیں عیسائی گاڈ کہیں سب مانتے ہیں کہ اولاد پیدا کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے ساکشی سادھوی اور آچاریہ واسدیو جو بڑھ بڑھ کر باتیں کررہے ہیں انہوں نے تو ایک چوہا بھی پیدا نہیں کیا اور وہ جو چار پانچ اور دس بچے پیدا کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں تو ان کی مراد لڑکوں سے ہے اور اگر ہندوؤں نے ان کا کہنا مان لیا اور اس پر عمل شروع کردیا تو یہ بھی ہوسکتا ہے ہر عورت کے پیٹ سے لڑکی پیدا ہو اور اگر واقعی دس بیس کروڑ لڑکیاں پیدا ہوگئیں تو پھر اشوک سنگھل اور توگڑیا جیسے لیڈر ہی حکومت سے کہیں گے کہ ہر مسلمان کے لئے ضروری قرار دے دیا جائے کہ وہ چار شادیاں کریں جن میں ایک مسلمان سے اور تین ہندو لڑکیوں سے ملایا ہندو کو ڈبل میں ترمیم کرکے ہندوؤں کے لئے یہ ضروری قرار دے دیا جائے کہ ہر ہندو لڑکا چار شادیاں کرے۔
یہ جو دھرم گرو مشورے دے رہے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ یہ بھگوان کے کاموں میں دخل دے رہے ہیں حالانکہ ان کا کام یہ ہے کہ ہندوؤں سے کہیں کہ ہر بات بھگوان پر چھوڑدو وہی لوجہاد کو ختم کردے گا وہی گھر واپسی کی بات دل میں ڈالے گا اور وہی ہندوؤں کو مسلمان بننے سے روکے گا۔ جیسے مسلمانوں نے ہر مسئلہ کو اپنے پروردگار کے اوپر چھوڑ دیا ہے ان کا ایمان ہے کہ اگر خدا چاہے گا تو بچہ دے گا نہیں چاہے گا تو نہیں دے گا وہ لڑکیاں چاہے گا تو لڑکیاں دے گا اور لڑکے چاہے گا تو لڑکے دے گا۔ ہمیں ہمارے پروردگار نے اتنا دیا ہے کہ ہر ایک کے دس دس بچے ہوں تب بھی کسی کے لئے کوئی کمی نہیں ہوگی۔ لیکن میرے بڑے بھائی ہیں ان کو اللہ نے دو لڑکے دو لڑکیاں دی ہیں اسی خدا نے مجھے چار بیٹے دو بیٹیاں دی ہیں۔ میرے بڑے بیٹے کی ایک لڑکی ایک لڑکا ہے دوسرے بیٹے کی دو لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے تیسرے بیٹے کے تین لڑکے ایک لڑکی ہے چوتھے لڑکے کا صرف ایک لڑکا ہے۔ اس کے بعد پروردگار کی مرضی نہیں ہے تو ہم بھی خاموش ہیں۔ پروین توگڑیا ہندوؤں کو جوش دلانے کے بجائے ان سے کہیں کہ وشوہندو پریشد کا ہر ورکر سروے کرے کہ اس کے محلے یا کالونی یا گاؤں میں کتنے مسلمان ہیں جن کے دس دس بچے ہیں یا ساکشی کے کہنے کے مطابق کتنے مسلمان ہیں جن کی چار بیویاں اور چالیس بچے ہیں۔ اگر یہ سچ نکلا تو ہم ہر اخبار میں پیسے دے کر اشتہار کی طرح نعمانی نامہ چھپوائیں گے اور اگر جھوٹ نکلا تو دونوں سے کہیں گے ہر مسلمان سے معافی مانگے اور آج کے بعد مذہب کے معاملہ میں بولنا چھوٹ دے نہ لوجہاد کی بات کرے اور نہ گھر واپسی کی۔

«
»

۲۶جنوری :جمہوری مملکت ہونے کی خوشی اورغم آئین کے عدم نفاذ کا

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے