اسلام الدین مجاہد،حیدرآباد
مذہب، سیاست اور تاریخ؛ بھارت کی جمہوریت کو درپیش خطرات نظرانداز کرنا دانشمندی نہیں
ملک کی عصری سیاست کا یہ الم ناک پہلو آنے والی نسلوں کے لیے تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے کہ جن سیاسی قوتوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی زمام کار ہے وہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے تاریخی حقیقتوں کو بھی جھٹلانے لگی ہیں۔ ملک کی ہزاروں سال پر محیط شان دار تاریخ کو داغ دار کرنے کی گٹھیا حرکتیں گز شتہ چند برسوں سے حکومتی سطح پر ہورہی ہیں۔یہ بھی اس ملک کا المیہ ہے کہ دیو مالائی قصوں اور کہانیوں کو تاریخ کا درجہ دے کر ملک میں ایک انتشار پیدا کیا جا رہا ہے۔ تاریخ کو غلط انداز میں پیش کرکے ایک مسلمانوں کو مجرم قرار دیا جا رہا ہے۔
عصر حاضر کی سیاست جس سمت میں جا رہی ہے اور ملک میں اس وقت جو دھماکو صورت حال پیدا ہوگئی ہے اس کی حقیقت کو جاننے کے لیے بھارتی تاریخ کے پس منظر کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ماضی کو سمجھے بغیر مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی دور رس نتائج کی حامل نہیں ہوتی ہے۔ ملک کے موجودہ سیاسی منظر نامے سے بالعموم سارے ہندستانیوں اور بالخصوص بھارتی مسلمانوں کو جو اندیشے لاحق ہو رہے ہیں اس کے تانے بانے بھارتی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کی تاریخ اپنا ایک شان دار ریکارڈ رکھتی ہے۔ صدیوں سے یہ ملک کئی مذاہب کا گہوارہ رہا ہے۔ دنیا کی کئی تہذبیں یہاں فروغ پائی ہیں۔ اس ملک میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ علم و تحقیق کے میدان میں بھی بھارت دوسرے ممالک سے پیچھے نہیں رہا۔ خاص طور پر تاریخ کے مختلف ادوار میں یہاں باہمی اخوت و محبت کے جھرنے بہتے رہے۔ عہد قدیم کا بھارت ہو کہ عہد وسطیٰ کا مسلم دور بھارت دنیا کے نقشے پر اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب رہا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ کچھ ایسی طاقتیں اس ملک میں سَر اٹھاتی رہی ہیں جنہوں نے اپنے حقیر مفادات کے لیے بھارتی تاریخ کو مسخ کرنے میں اپنی ساری صلاحیتیں طاقت لگا دی۔ تاریخ کے ساتھ بھونڈا مذاق منظم انداز میں ہوتا رہا۔ اس کے نتیجہ میں حقیقت پر مبنی تاریخی حقائق افسانہ بن گئے اور من گھڑت قصے اور کہانیاں تاریخ کا حصہ بن گئیں اور پھر تاریخ کو عصبیت کا روپ دے دیا گیا۔ گزشتہ دور کے بادشاہوں اور راجاؤں کے درمیان ہونے والی جنگوں کو مذہب کا رنگ دے کر مسلمانوں پر لعن طعن کرنا اب ہندو فرقہ پرستوں کا مشغلہ بن گیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف افواہوں، غلط بیانیوں اور الزام تراشیوں کا ایسا بازار گرم کیا گیا کہ ہندو، مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ ایسی بھیانک صورت حال میں ہمیں معروضی انداز میں تاریخی واقعات کا جائزہ لینا ہوگا ۔ ورنہ ہماری آنے والی نسلیں محکومی اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں گی۔ آج ہم تاریخ کے اس نازک موڑ پر کھڑے ہیں کہ ہمیں ہی ہر معاملہ میں موردِ الزام ٹھیرایا جا رہا ہے۔ بھارت کی آزادی کے پچھتر سال بعد بھی ملک کے بٹوارے کا بے جا الزام اب بھی مسلمانوں کے سر پر ہے۔ اسی پر فسطائی طاقتیں اپنی سیاست چلا کر کا میاب بھی ہوتی جا رہی ہیں۔ ملک کی تقسیم کے کون ذ مہ دار ہیں اس پر تحقیقی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔تاریخ نے اس الزام کو مسترد کر دیا کہ بھارت کی تقسیم کے ذمہ دار مسلمان ہیں، بلکہ تاریخ نے ثابت کر دیا کہ جو لوگ آج قوم پر ستی کا نعرہ لگا رہے ہیں وہ تو انگریزوں کے یارِ وفادار رہے اور ہمیشہ ان کے گُن گاتے رہے۔ سامراج بھی انہیں خصوصی مراعات اور عہدوں و مناصب سے نوازتا رہا۔
بھارتی تاریخ میں عہد وسطیٰ کا دور ایک عہد زرین رہا۔ اسی دور میں بھارت ایک سیاسی وحدت کا منفرد نمونہ تھا۔ فن تعمیر سے لے کر علوم و فنون کے شعبوں میں جو ترقی ہوئی وہ بے مثال تھی۔ تاج محل، لال قلعہ، قطب مینار اور دہلی کی جامع مسجد اسی دور کی وہ یادگاریں ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے ہزاروں سیاح ہر دن بھارت کا رخ کر تے ہیں۔ حسن اتفاق سے عہد وسطیٰ کا یہ دور مسلم حکم رانوں کا دور رہا ہے۔ اسی لیے اس دور کی پوری تاریخ کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ مسلم حکم رانوں کی مذہبی رواداری اور ان کی رعایا پروری کو فراموش کرتے ہوئے ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ اورنگ زیب کو ایک ظالم بادشاہ کا درجہ دیتے ہوئے تنگ نظری اور تعصب کا کھلا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ بھارت کے مشہور مؤرخ اور سابق گورنر بشمبر ناتھ پانڈے نے اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کو ایک سیکولر حکم راں ثابت کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی اور دنیا کے سامنے تاریخی شواہد پیش کرتے ہوئے بتا دیا کہ ان کے خلاف فسطائی قوتوں کا پروپیگنڈا صرف جھوٹ کا پلندا ہے، اس کی کوئی تاریخی حقیقت نہیں ہے۔ اسی طرح کا معاملہ دیگر مسلم حکم رانوں کے ساتھ رہا۔ نوبت اب یہاں تک آ گئی ہے کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں عہد وسطیٰ کو جگہ ہی نہیں دی گئی۔ اس پورے آٹھ سو سالہ دور کو بھارت کی تاریخ سے یک جنبش قلم حذف کر دیا گیا۔ عصری سیاست کا یہ کارنامہ ہے کہ ایک ایسا دور جس نے نہ صرف بھارت کی تاریخ پر اپنا غیر معمولی اثر مرتب کیا ہے بلکہ عالمی تاریخ پر بھی اس کے نمایاں اثرات دیکھے جاسکتے ہیں، اسے یکسر تعلیمی نصاب سے ہی ہٹا دیا گیا۔ اب آنے والی نسلوں کو اس بات کا کیسے پتہ چلے گا کہ مغلوں نے بھارت پر کتنے سال حکومت کی یا سلاطین دہلی کے دور کی نمایاں خصوصیات کیا رہیں۔ کسی قوم سے اس قدر دشمنی کا تصور تو عہد شاہی میں بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن ایک جمہوری ملک میں حکومتیں جو نرالے طریقے اختیار کرتی ہیں اس کی مثال آج کے بھارت میں نظر آرہی ہے۔ مسلمانوں کی حکم رانی کے شان دار دور کو عہد غلامی سے تعبیر کرکے ان کی ایک ایک نشانی کو ختم کرنے کا جو سلسلہ چل پڑا ہے اس سے دنیا حیران ہے۔ شہروں کے ناموں کی تبدیلی سے لے کر سڑکوں کے نام تک بدل دیے جا رہے ہیں۔اس دور کی تہذیب وتمدن کو نشانہ بناکر اسے بدنام کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کی آمد سے بھارت میں تہذیب و تمدن کے وہ روشن چراغ جلے کہ جس سے قدیم بھارت کی شان دوبالا ہو گئی۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کے عام ہونے سے بھارت میں مساواتِ انسانی کے جو اعلیٰ نمونے اس دور میں دیکھے گئے اس کی مثال آج کہیں نظر نہیں آتی۔ عصر حاضر کی سیاست جن نظریات پر چل رہی ہے اس میں انسانی قدروں کا کوئی پاس ولحاظ نہیں رکھا گیا۔ لیکن مسلم دور حکومت میں بحیثیت انسان کے ہر فرد کو احترام کی نظروں سے دیکھا گیا اور اس کی بہت کم مثالیں تاریخ میں ملتی ہے کہ مسلم حکم رانوں نے کبھی مذہبی عصبیت کا ثبوت دیتے ہوئے کسی خاص مذہب کے پیروؤں کے ساتھ کوئی تعصب کا رویہ روا رکھا ہو۔ اس کے برخلاف غیر مسلم رعایا کی جان ومال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے۔ آج کے جمہوری دور میں اقلیتوں کے ساتھ حکومتوں کا جو معاندانہ سلوک ہے اس سے پوری دنیا واقف ہو چکی ہے۔ اب تو مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام سے نوازنے میں حکومتوں کے درمیان مسابقت کا دور چل پڑا ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اسلام تو دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا لیکن مسلمان ضرور دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ دوسرے شدت پسند گروہ کا ادعا ہے کہ دہشت گردی کا اصل سبب خود اسلام ہے۔ اس کی تعلیمات تشدد پر مبنی ہیں۔ لہٰذا اسلام کو اس ملک میں پنپنے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔ چنانچہ اسلام کے خلاف زہریلا پروپگنڈا فسطائی طاقتوں کا مشن بن چکا ہے۔
بھارتی مسلمانوں کے خلاف یہ بیانیہ (Narrative) بھارتی تاریخ کو مسخ کر کے تیار کیا جا رہا ہے۔ تحریک آزادی کے دوران جو ہندو احیاء پرستی (Hindu Revivalism) کی لہر اٹھی تھی اسی نے سامراجی دور میں یہ طے کرلیا تھا کہ وہ ملک کی آزادی کے بعد اسے ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کردیں گے۔ کانگریس میں جو انتہا پسندی کے عناصر شامل ہوئے بعد میں وہ سنگھ پریوار کے لیے زمین ہموار کرنے کا ذریعہ بنے۔ مسلمانوں کے لیے یہ صورت حال ایک سنگین خطرہ تھی۔ جدوجہدِ آزادی کی تحریک میں مسلمانوں نے ناقابل فراموش رول ادا کیا۔ لیکن جب ملک کی آزادی کی صبح قریب آ گئی قومی سیاست میں مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے کی تیاری کرلی گئی۔ مسلمانوں کا وہ طبقہ جو تقسیمِ ملک کا قائل تھا وہ تو پاکستان چلا گیا لیکن جن مسلمانوں نے بھارت کو اپنا وطن بنانے کا فیصلہ کیا ان کے لیے آزمائشوں کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ ہندو فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے قوم پر ست طاقتیں ٹِک نہ سکیں۔ جب آزاد بھارت کے لیے نئے دستور کی تدوین ہو رہی تھی، مسلمانوں نے جداگانہ انتخاب (Separate Electorate )کا مطالبہ کیا اور مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی ترقی کے لیے تحفظات (Reservation) کی بھی مانگ کی۔ لیکن کانگریس قیادت نے بڑی عیاری کے ساتھ ان دونوں مطالبات کو نظر انداز کر دیا جس کا خمیازہ آج کے مسلمان بھگت رہے ہیں۔ ملک کے دیگر پسماندہ طبقے ریزویشن کے فائدے اٹھا کر سرکاری ملازمتوں میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور مسلمانوں کے لیے چپراسی کی نوکری بھی ملنا دشوار ہوگیا۔ فسطائی طاقتوں کے عروج سے پہلے سیکولر پارٹی کی شاطرانہ چالوں کا مسلمان شکار ہوئے۔ قوم پرست مسلمان اس پارٹی کا دست و بازو بنے لیکن ان کی حیثیت ہمیشہ ثانوی رہی۔ مسلمانوں کی قربانیوں اور ان کی جانفشانیوں کا تذکرہ تو ہوتا رہا لیکن قومی ثمرات میں ان کو ان کے جائز حقوق سے بھی محروم رکھا گیا۔ مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے انہیں قانون ساز اداروں میں نمائندگی دی جاتی تو کیا آج مسلمان سیاسی طور پر اس قدر بے وقعت ہوتے۔ اسی طرح تعلیم اور روزگار میں تحفظات فراہم کیے جاتے تو کیا مسلمانوں میں تعلیمی پستی اور معاشی بدحالی کا دور دورہ ہوتا۔ لیکن دانستہ طور پر مسلمانوں کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ تاریخ ان تلخ حقائق سے بھری پڑی ہے کہ کہاں کہاں مسلمانوں کو فریب دیا گیا اور کس طرح ان کا ہر شعبہ حیات میں استحصال کیا گیا۔ 2014کے بعد سے تو بھارتی مسلمانوں کا حال ’راستے سب بند ہیں کوچہ قاتل کے سوا‘ کے مصداق ہو گیا۔
اس وقت مسلمان تاریخ کے انتہائی جاں گسل دور سے گزر رہے ہیں۔ برسرِ اقتدار پارٹی مسلمانوں کے تشخص اور ان کی شناخت کو ہی ختم کر دینا چاہتی ہے۔ تاریخ کو توڑ مڑور کرپیش کرکے مسلمانوں کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جا رہا ہے۔ تاریخ کے ہر واقعہ کو من گھڑت انداز میں بیان کر کے سماج میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عناد کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔ بابری مسجد کے بعد گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کو بھی مندر میں تبدیل کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی مسلسل کوشش جا ری ہے ۔مشرکانہ عقائد کو تعلیمی نصاب میں شامل کر دیا گیا ہے۔ آزادی کے بعد جو دستور بنا تھا اس کا مقصد ایک سیکولر جمہوریت کا قیام تھا۔ یہ دونوں نظریات محض مسلمانوں کی رعایت میں نہیں اپنائے گئے تھے بلکہ یہ ملک کی ضرورت ہیں۔ بھارت جو کثرت میں وحدت کا جیتا جاگتا نمونہ ہے اس کی یکجہتی کو ختم کرنے کی جو سازشیں ہو رہی ہیں اس کے سدّ باب کے لیے ملک کی ساری سیکولر اور جمہوریت نواز طاقتوں کو اٹھ کھڑا ہونا ہوگا ورنہ تاریخ سے کھلواڑ کرنے والی طاقتیں اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو جائیں گی۔