اجمیر شریف کی معروف درگاہ میں ہندو مندر ہونے کا دعویٰ سامنے آیا ہے، جس پر ایک مقامی عدالت نے یونین وزارت برائے اقلیتی امور، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) اور اجمیر درگاہ کمیٹی کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ یہ درخواست ہندو سینا کے صدر وشنو گپتا کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔
گپتا نے اپنی پٹیشن میں دعویٰ کیا ہے کہ درگاہ، جو صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کا مزار ہے، دراصل ایک شیو مندر تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ 1910 میں برطانوی دور کے اہم سیاستدان و جج ہری بلا ساردہ نے اپنی کتاب میں اجمیر درگاہ کے بارے میں یہ ذکر کیا تھا کہ یہاں ایک ہندو مندر موجود تھا اور اس کے تہہ خانے میں مہادیو کی مورتیاں رکھی جاتی تھیں۔
گپتا کا مزید کہنا تھا کہ مقامی افراد نے بتایا کہ پچاس سال پہلے تک یہاں ایک پجاری عبادت کیا کرتا تھا اور یہاں شیو لنگ بھی موجود تھا، جو بعد میں تہہ خانے میں منتقل کر دیا گیا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ایک سروے کیا جائے تاکہ اس بات کا پتا چل سکے کہ حقیقت کیا ہے۔
دوسری جانب، درگاہ کے گدی نشین سید سرور چشتی نے اس کیس کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ یہ درگاہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔
عدالت نے اس کیس کی آئندہ سماعت 20 دسمبر کو مقرر کی ہے۔