وقف قانون میں ترمیم کی جلدی کیوں؟

بی جے پی کی مسلمانوں سے ’بے پناہ محبت‘ سب پر عیاں ہے۔ مودی حکومت میں حکمران جماعت نے اس کمیونٹی پر خاص توجہ مرکوز رکھی ہے۔ مسلمانوں کے ذاتی اور دیگر قوانین میں اصلاحات کے لیے کوششوں میں کئی اقدامات کیے گئے، جیسے کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، یکساں سول کوڈ، مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) قانون یعنی تین طلاق قانون اور اب وقف (ترمیمی) بل میں جلد بازی۔
بی جے پی ‘بدنصیب’ ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کے جتنے بھی مبینہ ‘جہاد’ کی بات کرتی ہے، ان میں ‘لینڈ جہاد’ بھی شامل ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سب معاملات پر وزیر داخلہ امت شاہ، یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما جیسے رہنما بھی مہر ثبت کرتے رہے ہیں۔
8 اگست کو لوک سبھا میں وقف (ترمیمی) بل پیش کرتے ہوئے اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے ایک ایسی کہانی سنائی جو حالیہ دنوں میں کافی وائرل ہوئی تھی۔ 2022 میں تمل ناڈو کے ترچی ضلع کے تھروچندورئی گاؤں کے راج گوپال جب اپنی 1.2 ایکڑ زمین بیچنے گئے، تو انہیں بتایا گیا کہ یہ زمین ان کی نہیں بلکہ تمل ناڈو وقف بورڈ کی ملکیت ہے اور پورا گاؤں وقف کی جائیداد ہے۔ اس پر کرن رجیجو نے مزید کہا کہ گاؤں میں 1500 سال پرانا ایک مندر بھی ہے۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ گاؤں ہی کو وقف کر دیا گیا ہو۔ ویسے، تمل ناڈو وقف بورڈ کی رکن اے ایس فاطمہ مظفر نے راقم الحروف کو بتایا، ’’جب یہ معاملہ سامنے آیا تو تمل ناڈو وقف بورڈ نے اس گاؤں سے متعلق تمام دستاویزات حکومت اور انتظامیہ کو فراہم کر دیے۔ گاؤں کی وہ زمین وقف بورڈ کے ریکارڈ میں انعام وقف کے طور پر درج ہے۔ درحقیقت قدیم زمانے میں بادشاہ اور شہنشاہ کسی کے کام سے راضی ہو کر زمین دیتے تھے اور اسے انعام وقف کے طور پر درج کیا جاتا تھا، تاکہ اس شخص کی موت کے بعد اس جائیداد کا فائدہ معاشرے کے دوسرے لوگوں کو بھی اسے حاصل ہو سکے۔
وقف (ترمیمی) بل کے ذریعے 1995 کے وقف قانون کا نام ’یونائیٹڈ وقف ایکٹ مینجمنٹ ایمپاورمنٹ ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ (امید)‘ رکھا جانا ہے۔ اس پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) غور کر رہی ہے، مگر اپوزیشن کی تجاویز کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس بل کو کسی بھی طرح منظور کروانے پر آمادہ ہے۔
پچھلے چار سے پانچ سال میں وقف بورڈ کے خلاف سوشل میڈیا، خاص طور پر واٹس ایپ فارورڈز کے ذریعے ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ عام کر دیا گیا ہے کہ وقف بورڈ جس کسی بھی گھر، دکان یا زمین پر اپنا دعویٰ کر دے تو اس کے خلاف کوئی حکم نامہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وقف بورڈ خود اپنی جائیدادوں پر غیر قانونی قبضہ کا سامنا کر رہا ہے۔ 20 جولائی 2020 کو مرکزی وقف کونسل کی آر ٹی آئی کے تحت راقم الحروف کو ملی معلومات کے مطابق ملک میں 18,259 وقف جائیدادوں اور 31,594 ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ کونسل کے مطابق جولائی 2020 تک 1342 املاک کے ساتھ ساتھت 31594 ایکڑ اراضی سرکاری محکموں یا ایجنسیوں کے قبضہ میں ہے۔ ان اعداد و شمار میں گجرات، تلنگانہ اور اتر پردیش کے شیعہ مرکزی وقف بورڈ کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ وقف بورڈ کے پاس ملک میں ریلوے اور وزارت دفاع کے بعد سب سے زیادہ غیر منقولہ جائیداد ہے۔ یوٹیوب چینل پر وکیل اور رکن پارلیمنٹ کپل سبل سے گفتگو میں قریشی نے سرکاری اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا کہ صرف تمل ناڈو اور آندھرا پردیش کے مندروں کے پاس 9 لاکھ ایکڑ زمین ہے، جبکہ پورے ملک میں وقف کے پاس صرف 6 لاکھ ایکڑ جائیداد ہے۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کمال فاروقی نے اسی گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے ملک کے مختلف وقف بورڈز کا آڈٹ کیا اور ان میں بے ضابطگیوں اور بد انتظامیوں کی اطلاع دی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ان وقف بورڈز کے خلاف کارروائی سے حکومت کو کس نے روکا ہے، جبکہ زیادہ تر بورڈز کے سربراہ اور اراکین بھی حکومت ہی مقرر کرتی ہے۔
فاروقی کا کہنا ہے کہ ایمانداری کے ساتھ قانون کے تحت کارروائی کر کے مجرموں کو سزا دلائی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’لیکن اس حکومت کو بدعنوانی ختم کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔ نئے بل کا مقصد حکومت کو وقف املاک پر قبضہ کرنے، مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کی بہتر فلاحی اداروں کو ختم کرنے کا اختیار دینا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کی تصدیق بھی ہو چکی ہے کہ حکومت نے مسلم بچوں اور اداروں کو دی جانے والی اسکالرشپ کے بجٹ میں بڑی کٹوتی کی ہے، جو ان کی تشویش کو تقویت دیتی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ ترمیم کا مقصد وقف بورڈ کو شفاف بنانا اور خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنانا ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کی بھلائی چاہتی ہے اور وقف املاک کو غیر قانونی قبضے سے بچانا چاہتی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بل مسلمانوں، خاص طور پر غریب مسلمانوں اور خواتین کی مانگ پر لایا گیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی بھی 1995 کے وقف ایکٹ میں ترمیم کا مطالبہ نہیں کیا۔ 2010 میں جب مرکزی حکومت نے اس ایکٹ میں ترمیم کی بات کی تھی تو مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی تھی اور اس وقت حکومت نے تمام فریقین کے مشورے سے 2013 کا ترمیمی وقف ایکٹ منظور کیا۔ اس ترمیم کے مطابق، وقف بورڈ میں کم از کم دو خواتین رکن ہونا ضروری ہیں۔ اس وقت جموں و کشمیر وقف بورڈ کی چیئرپرسن ایک خاتون ہیں اور کئی ریاستوں میں خواتین وقف بورڈ کی سربراہی کر چکی ہیں یا اس کے رکن ہیں۔ دہلی میں بھی ایک خاتون وقف بورڈ کی قیادت کر چکی ہیں۔
وقف کیا ہے؟
وقف کسی بھی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کو کہا جاتا ہے جسے کوئی مسلمان اللہ کے نام پر یا فلاحی مقصد کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ یہ جائیداد ہمیشہ کے لیے وقف ہو جاتی ہے، اور اس کا کوئی مالک نہیں ہوتا۔ اسے خریدا یا بیچا نہیں جا سکتا۔
وقف بورڈ کے غیر مسلم رکن بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ اس کا قیام حکومت کرتی ہے۔ ریاستی حکومتیں بورڈز میں سرکاری اہلکار، وکلاء، اور مختلف شعبوں کے ماہرین کو شامل کرتی ہیں۔ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ وقف جائیدادوں سے صرف مسلمان ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کیونکہ ان املاک پر قائم اسکول، مدرسے، کالجز، یونیورسٹیاں، یتیم خانے اور اسپتال تمام کمیونٹیز کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
وقف بورڈ کسی غیر مسلم کی جائیداد نہیں لے سکتا۔ ہاں، وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 104 میں درج ہے کہ وقف کی حمایت کے لیے جو لوگ اسلام کو نہیں مانتے وہ بھی اپنی جائیداد مسجد، عیدگاہ، امام باڑہ، درگاہ، خانقاہ یا مقبرہ، مسلم قبرستان یا مسافر خانہ کے لیے دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے مقرر کردہ وقف بورڈ کے ذریعہ دستاویزات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور وقف بورڈ کی اجازت کے بعد ہی وقف جائیداد کا ریونیو بورڈ میں اندراج کیا جاتا ہے۔
وقف (ترمیمی) بل 2024 کی اہم تجاویز
وقف (ترمیمی) بل 2024 میں تقریباً 40 ترامیم شامل ہیں، جن میں چند اہم ہیں:

وقف ٹریبونل کے فیصلے کو حتمی ماننے کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے؛ اب ہائی کورٹ میں براہ راست اپیل کی جا سکے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، اس ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں جاری بحث میں تلخی اور شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔ اپوزیشن کے اراکین اس بل کی آئینی حیثیت، حکومت کی نیت اور ترامیم کے عملی جواز پر سوال اٹھا رہے ہیں اور ان کی تشویش بے بنیاد نہیں ہے۔

مرکزی وقف کونسل اور وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین شامل کرنے کی تجویز۔

ضلع کلکٹر کو سروے کمشنر کی جگہ دینے کی تجویز تاکہ وہ وقف املاک کا سروے کر سکیں۔

حکومتی اراضی جسے وقف کے طور پر شناخت کیا گیا ہو، وقف بورڈ کی ملکیت میں نہیں رہے گی؛ ایسی جائیداد کی ملکیت کا تعین ضلع کلکٹر کریں گے۔

وقف ایکٹ، 1995/2013 کا سیکشن 40 ختم کر دیا گیا ہے، جو وقف املاک کی قانونی حیثیت کے تعین کا اختیار دیتا تھا۔ اس تبدیلی سے ان املاک پر غیر قانونی قبضے کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

«
»

کرناٹک : کالج میں کشمیری طلباء کے داڑھی رکھنے پر تنازعہ

زنجبار میں