عیسائی ملک میں گرجے کم مسجدیں زیادہ

محمد سمعان خلیفہ ندوی (استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل)

آج ہمیں ڈربن کے لیے روانہ ہونا ہے، اس لیے جلد تیار ہوئے اور دوپہر کے وقت مولانا موسیٰ کی امارت میں ڈربن کے لیے روانہ ہوئے، مولانا موسیٰ کی گاڑی پر ہم اور مولانا خلیل کی گاڑی پر ڈاکٹر اطہر سوار تھے، ڈربن سے واپسی میں ہمارے ساتھ زنجبار کے مہمانوں کو بھی آنا ہے، وہ جونز سے فارغ ہوکر کل ڈربن پہنچنے والے ہیں، اس لیے دو گاڑیاں لی گئیں۔ ڈربن یہاں سے تقریبا سات سو کیلو میٹر کی دوری پر ہے۔
راستے بھر مولانا موسیٰ کی ایمان افروز اور روحانیت سے معمور گفتگو اور کچھ پرلطف حکایات سے بھی محظوظ ہوئے، بیچ بیچ میں سیاہ فاموں کی بستیاں اور ان پر یہاں کی تاریخ میں ہونے والے ظلم وستم اور پھر ان کی طرف سے بدامنی اور لوٹ مار کی کوششیں اور ان کوششوں کا طریق کار، نیز کسی زمانے میں یہاں زیر زمین معدنیات اور سونے کے ذخائر، ان سب پر مولانا موسی روشنی ڈالتے رہے اور ہم اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہے، پھر کبھی مناجاتوں اور نعتوں کا بھی دور چلا تو مولانا کے دل دردمند کی ترجمانی ان کی آنکھوں کے راستے سے ہوتی رہی اور دل کے ٹکڑے اشکوں کی صورت میں بہتے ہوئے دیکھے گئے۔
سفید چمڑی والوں نے یہاں کے راستے خوب بنائے ہیں، بڑی شاندار سڑکیں اور ان پر چلنے کی قیمت بھی بڑی شاندار۔ بھاری بھرکم ٹول کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے، جب ایسے راستے ہوں تو ان کی بھاری قیمت بھی بوجھ محسوس نہیں ہوتی، ہمارے یہاں کی سڑکوں کی طرح نہیں کہ جا بہ جا سڑکوں پر سجے گڈھے گویا پورے ملک کا نقشہ، پھر بھی جا بہ جا ٹول ناکے ایستادہ۔ معلوم ہوا کہ یہاں دیگر سڑکیں بھی موجود ہیں مگر یہ شاہراہ ہے، صاف ستھری، تیز رفتار، فراٹے بھرنے پر سواریوں کو آمادہ کرنے والی۔ جگہ جگہ رفتار پر قابو پانے اور نگرانی کرنے کے لیے کیمرے بھی نصب، دو رویہ کھیت کھلیان اور خیابان، تا حد نظر نگاہوں کی جنت کا سامان۔
ایک سہولت یہاں کی سڑکوں پر پٹرول بنک میں قائم جماعت خانوں کی بھی ہے، اللہ بھلا کرے یہاں کے مسلمانوں کا، بالخصوص گجراتی مسلمانوں نے یہاں ماشاء اللہ ہر جگہ اپنی دکانوں کے ساتھ نمازیوں کی سہولت کے لیے جماعت خانے بنائے ہیں، جس سے کہیں نماز اور وضو وطہارت کے لیے دشواری نہیں ہوتی۔ پورے ملک میں تقریباً ہر جگہ آپ کو مسجدیں یا جماعت خانے ضرور ملیں گے اور اس کے برعکس عیسائی ملک ہونے کے باوجود آپ کو عیسائیوں کی عبادت گاہیں یا گرجے کم ہی نظر آئیں گے، یہ دعوتی اعتبار سے بڑی مثبت اور خوش آئند بات ہے اور ملک کی اکثریت کے صاف ذہن کی عکاس بھی، بین الاقوامی سطح پر گزشتہ دنوں جنوبی افریقہ کی صاف ستھری شبیہ کو پیش کرنے میں بھی شاید اس کی کار فرمائی ہو، اس کا فائدہ یہاں کے مسلمانوں کو بالخصوص اٹھانا چاہیے اور دعوت کے امکانات کو تلاش کرکے اس سلسلے میں اقدامات کرنے چاہئیں، بالخصوص سیاہ فاموں کے درمیان پیام انسانیت کے حوالے سے کوششیں یقینا مؤثر ہوسکتی ہیں، اس کے لیے انگریزی کے علاوہ ان سیاہ فاموں کی علاقائی زبانوں کو سیکھنا اور ان میں گفتگو کرنا بھی از حد ضروری ہے، جس کی طرف شاید اب تک کم ہی توجہ دی جاسکی ہے، ممکن ہے یہاں کے اہل علم اس سلسلے میں متفکر ہوں اور پیش قدمی بھی کررہے ہوں، مگر جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہاں کے مسلمانوں اور بالخصوص اہل گجرات کو نوازا ہے اور یہ حضرات دنیا بھر میں دین کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں، یہاں بھی ان کی ان کوششوں سے یہ کام بہت جلد اور بہت بڑے پیمانے پر یہاں کی ایک بڑی آبادی کے دلوں کو فتح کرنے کا سبب بنے گا۔

(سفرنامہ جنوبی افریقہ ۸):-

(سخنؔ حجازی۔ بینونی سے ڈربن جاتے ہوئے۔ جنوبی افریقہ۔ دس اکتوبر 2024)۔

«
»

بٹیں گے تو کٹیں گے جواب میں سماجوادی پارٹی کا نیا نعرہ

بیس ممالک کے بیس طلبہ