(سفرنامہ جنوبی افریقہ 1)
محمد سمعان خلیفہ ندوی
ہمارے استادِ محترم ماسٹر سیف اللہ صاحب جس سال مجھے سیاح (Explorer) کہہ کر پکارتے ہیں یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس سال میرا کوئی طویل سفر ہوجاتا ہے، ڈیڑھ سال قبل فروری 2023 میں مشرقی افریقہ کینیا، تنزانیہ، زنجبار، بورونڈی، روانڈا وغیرہ کے طویل سفر اور پھر مارچ میں گھر والوں کے ساتھ عمرے کے مختصر سفر کے بعد ادھر عمرے کا بار بار تقاضا ہورہا تھا اور کئی بار مکمل تیاریوں کے بعد بھی بلاوا نہیں آسکا تھا، گزشتہ رمضان کے اخیر میں عمرے کے ویزے کی دشواریوں اور ایئرپورٹ کے لیے نکل جانے کے بعد بھی جہاز کی منسوخی کی وجہ سے واپس آنا پڑا اس لیے گھر والوں کی بھی شدید خواہش دیار مقدس کی حاضری کی تھی اور پہلے سے ہمارے احباب ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی اور مشرقی افریقہ کے ہمارے رہبر مولانا خلیل صاحب کے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمیں اس بار جنوبی افریقہ کی زیارت کرنی تھی، اس لیے یہ مناسب معلوم ہوا کہ پہلے گھر والوں کے ساتھ دیار مقدس میں حاضری دی جائے پھر واپس آکر دوسرے دن جنوبی افریقہ کا سفر شروع کیا جائے، حسن اتفاق کہ برادر نسبتی مولوی محمد اور ہم زلف مولوی عبد الحی اور دیگر اہل تعلق کا عمرے کا پروگرام بھی طے ہوجانے سے بڑی سہولت ہوئی اور وطن واپسی کے بجائے مدینہ منورہ ہی سے آگے کے سفر کی تجویز قرار پائی اور اسی کی مطابق امتحان شش ماہی کے ختم ہوتے ہی ہمارا کارواں دیار مقدس پہنچ گیا، مولانا شعیب صاحب اکیری ندوی اور ہمارے مولوی عویم بھی ساتھ رہے، مولانا شعیب صاحب تو اگلے روز جمعہ کے بعد جدہ روانہ ہو گئے اور طے شدہ پروگرام کے مطابق الحمد للہ عمرے کی ادائیگی کے بعد حسب توفیق ہفتہ بھر مکہ مکرمہ میں ہمارا قیام رہا۔
اس بار طائف کی زیارت بھی مقدر تھی، جب کہ اس سے قبل بس پر شہر کے باہر سے ایک بار گزرنے کا موقع ملا تھا مگر اندرون شہر کی زیارت کا موقع اب تک نہیں ملا تھا، جامع عبد اللہ بن عباس، مسجد عداس دو تین مقامات خاص طور پر زائرین کی توجہ کا مرکز تھے۔
مکہ سے مدینہ کے لیے اس بار ٹرین کا تجربہ خوب رہا، دو گھنٹے میں جس تیز رفتاری کے ساتھ ٹرین نے ادھر سے ادھر پہنچادیا، پتہ ہی نہیں چلا، بار بار احساس ہوتا رہا کہ نئے زمانے کے تیز رفتار وسائل نے فاصلے کس طرح سمیٹ دیے، جب کہ انھی راستوں پر کبھی کئی کئی دن درکار ہوا کرتے تھے، مگر سچ کہا ہے کہنے والے نے “ربحنا الوقت وخسرنا العاطفۃ”، جو آتش شوق کہ سینے میں کبھی فروزاں ہوا کرتی تھی افسوس کہ آج اس کی لو مدھم ہے، ضرورت ہے کہ اس کی آنچ تیز کی جائے اور مرکب شوق کو مہمیز کرکے دیارِ دل وجاں میں حاضری دی جائے۔
مدینہ منورہ میں ان حضرات کا قیام ہفتہ بھر رہا، یہیں سے انھیں گوا کی فلائٹ پکڑنی تھی اور مجھے تین روز کے بعد اگلے سفر کے لیے روانہ ہونا تھا، باب السلام کی طرف قیام تھا، اس لیے اس بار سہولت رہی۔ قبا کے باغ میں مولانا اشرف صاحب ہاشمی ندوی کی طرف سے عربی ناشتے کا اہتمام یادگار رہا۔
اشکوں کی سوغات کے سوا مجھ جیسے روسیاہ کے پاس اور ہے ہی کیا، سو نذرِ محبوب کرکے اگلی منزلوں بلکہ اگلے مرحلوں کے لیے چلتا بنا۔
اور کچھ بھی نہیں بے بضاعت کے پاس
جُز ترے نام کے اے میرے تاج دار
چھ اکتوبر کی علی الصباح تین بج کر پچپن منٹ پر ایتھوپین ایئرلائن پر یہ ناتواں “دل ہے کہیں دماغ کہیں اور دست وپا کہیں” کی تصویر بن کر سوئے حبش اور پھر وہاں سے جوہانسبرگ کے لیے روانہ ہوئے۔
(سخنؔ حجازی۔ چھ اکتوبر 2024۔ ایتھوپین ایئرلائن ET 443۔ مدینہ – عدیس ابابا)